راولپنڈی:پاک فوج نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی کواڈ کاپٹر کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو ناکام بناتے ہوئے مار گرایا۔
تفصیلات کے مطابق سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھمبر کے علاقے مناور سیکٹر میں دشمن نے کواڈ کاپٹر کے ذریعے جاسوسی کرنے کی کوشش کی تھی، پاک فوج نے بروقت کارروائی کر کے دشمن کی اس مذموم کوشش کو ناکام بنادیا۔

سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ پاک فوج کی مستعدی۔پیشہ ورانہ مہارت اور دفاعی تیاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ذرائع کے مطابق پاک فوج دشمن کی کسی بھی جارحیت کا فوری اور مؤثر جواب دینے کے لیے ہر دم تیار ہے، پوری قوم افواجِ پاکستان کے ساتھ ملکر دشمن کو ہر محاذ پر منہ توڑ جواب دیں گی۔

واضح رہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزی اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھا، اب بھارت فضائی حدود کی خلاف ورزی پر بھی اتر آیا ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پاک فوج

پڑھیں:

ابن صفی کا مقام

سید کاظم جعفری

اُردو ادب میں یوں تو بے شمار لکھاری نام وَر ہوئے ، لیکن ابن ِصفی کے مقام کو کوئی نہیں پہنچ سکا۔

وہ اپنی زندگی میں ہی دیو مالائی شخصیت بن گئے تھے ۔( 26جولائی) کواُن کی85 ویں سال گرہ اور33ویں برسی ہے ، مگر اُن کی رخصتی کے ان 33برسوں بعد بھی اُن کا نام زندہ اور تابندہ ہے کیوں کہ اُردو کے جاسوسی ادب میں اُن کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہو سکا۔

26جولائی 1928ء کو اُترپردیش (بھارت)کے ضلع الہ آباد کے معروف قصبے نارا میں میں پیدا ہونے والے اسراراحمد نے پاکستان آ کر ‘‘ابن ِصفی’’ کا روپ اختیار کیا، تو اُن کے جاسوسی ناول پڑھنے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

1952ء میں ابن ِصفی ہجرت کر کے (پاکستان) آ گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ اُن کے ناول ہر ماہ کراچی اور الہ آباد دونوں جگہوں سے شائع ہوتے تھے۔

اُن کے ناولوں کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ بک اسٹال پر آتے ہی یہ ناول ختم ہو جاتے تھے بل کہ کچھ ناشروں نے اُن کے نام کی مقبولیت کا یہ فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اُن کے نام سے یا اُن کے ملتے جلتے ہوئے نام سے سیکڑوں جاسوسی ناول شائع کر دیے، لیکن اُن ناولوں میں زبان و بیان کا وہ ذائقہ کہاں سے ہو سکتا تھا۔

ابن ِصفی نے بار بار تردید کی کہ یہ ناول اُن کے لکھے ہوئے نہیں، لیکن سرقہ کرنے والے پبلشروں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اُن کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اُن کے نئے ناول اورایڈیشن کے انتظارمیں لوگ بک اسٹالوں پر بے چینی سے چکر لگایا کرتے تھے۔

ابن ِصفی کے ناولوں کے کردار کرنل فریدی، سارجنٹ حمید اور علی عمران کو پڑھنے والے آج بھی اُنھیں یاد کرتے ہیں۔ اُن کے ناول آج بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھے جا رہے ہیں، جیسے اُن کی زندگی میں پڑھے جا رہے تھے او رشاید کل بھی پڑھے جاتے رہیں گے، بل کہ اُس وقت تک پڑھے جاتے رہیں گے ، جب تک اُردو زبان زندہ ہے ۔

اُنھوں نے ناول کے ادب سے فحش نگاری کا خاتمہ کیا اور جاسوسی ناول میں مقبولیت کا وہ مقام حاصل کیا کہ 1970ء میں قومی انٹیلی جنس ادارے نے بھی اُن سے معاونت اورمشاورت حاصل کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُردو زبان میں ابن ِصفی سے زیادہ کسی ادیب کو نہیں پڑھا گیا۔

اُنھیں جتنے قاری میسر آئے ، کسی دوسرے ادیب کو نہیں ملے ۔ درحقیقت اُنھوں نے ادب کو خواص سے نکال کر عوام تک پہنچا دیا تھا، جو نہ صرف اُن کے ناولوں کا مطالعہ کرتا تھا بل کہ آنے والے ناول کا بے چینی سے انتظار کرتا تھا اور اُنھوں نے مضامین ِنَو کے انبار لگا دیے۔

ابن ِصفی کا ذہن جاسوسی ناولوں کا ٹکسال تھا، اسی لیے اُنھو ں نے محض 20برس کے عرصے میں 250سے زیادہ جاسوسی ناول لکھے ، یعنی قریباً ہر ماہ ایک ناول لکھاحالاں کہ ابن ِصفی نے اپنی زندگی کی شروعات شاعری سے کی تھی، بطورِ شاعر وہ اپنا نام اسرار ناروی لکھتے تھے ۔ اُن کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

راہِ طلب میں کون کسی کا، اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں
۔۔۔۔۔۔

مے خانے سے دار تلک اپنی ہی کہانی بکھری ہے
رند بنے سرمستی میں کچھ اور بڑھے منصور ہوئے
۔۔۔۔۔

بالٓاخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں
۔۔۔۔

دل فسردہ ہی سہی، چہرے پہ تابانی ہو
ورنہ خودداری احساس پہ حرف آتا ہے
۔۔۔

غمِ حیات کی دریا دلی نہ پوچھ اسرار ؔ
یہ لہلہاتی بہاریں اسی سحاب کی ہیں
۔۔۔

ابن ِصفی کی شاعری میں اگر سادگی و پرکاری کی کیفیات کا اندازہ لگانا ہو، تو یہ اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:

مرے لبوں پہ یہ مسکراہٹ مگر جو سینے میں درد سا ہے
اسی جگہ کیوں بھٹک رہا ہوں اگر یہی گھر کا راستہ ہے

اور اُن کے مندرجہ ذیل شعر کو اُن کی ناگہانی وفات کے پس منظر میں دیکھیے ،تو دل دکھ سے بھر آتا ہے :

ابھی سے کیوں شام ہو رہی ہے
ابھی تو جینے کا حوصلہ ہے

شاعر لکھنوی نے ابن ِصفی کو بحیثیت ِ شاعر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :

شاید عام ذہنوں میں یہ تاثر ہو کہ ابن ِ صفی کی شاعری کا معیار غالبا وہ نہ ہوگا، جو اُن کے جاسوسی ذہن کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ اُن کے پٹری بدل لینے کو اسی کا نتیجہ سمجھتے ہوں، لیکن درحقیقت ایسا نہیں۔ اُن کی نظموں کی رنگا رنگی، غزلوں کی جذباتی اور فنی آرائش اس تاثر کی نفی کرتی ہے بل کہ ہمیں اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ اُن کی جاسوسی تحریروں کی کشش، خوبصورتی اور سحر انگیزی میں اُن کے شاعرانہ مزاج کی کارفرمائی بڑی حد تک موجود ہے ۔ اگر وہ شعر و ادب کی راہ سے ہو کر اس منزل پر نہ آتے ، تو شاید اُن کی تحریروں میں سحریت اور اثر انگیزی کی وہ گھلاوٹ کبھی نظر نہ آتی۔ شعر سب سے بڑا جادو ہے اور غزل سب سے بڑی جادوگر۔ اُن کی جاسوسی تحریریں پڑھنے والوں پر جو سحر کاری کرتی ہیں، وہ اُن کے غزل شناس مزاج ہی کی مرہونِ منت ہے ۔اسی لیے اُن میں پڑھنے والوں پر جادو کردینے کی غیر معمولی صلاحیت ملتی ہے ۔ ایک جاسوسی ناول نگار اور ناول نویس کی حیثیت سے وہ میرے ایک شناسا کی حیثیت رکھتے ہیں ،لیکن اُن کی غزلوں اور نظموں کے عمیق مطالعے کے بعد مجھے یہ تمنا ہے کہ کاش وہ میرے دوست ہوتے ۔ جہاں تک غزل میں فنی رکھ رکھاؤ، خیال کی ترتیب و تہذیب، الفاظ کے دروبست و معانی کی بزم آرائی کا تعلق ہے ، اسرار ناروی کے یہاں یہ خصوصیات اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ موجود ملتی ہیں’’۔

ابن ِصفی ایک اعلیٰ درجے کے مزاح نگار بھی تھے حالاں کہ مزاح لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے ۔ سٹیفن لیکاک مزاح کی تعریف کچھ اس طرح بیان کرتا ہے ‘‘یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے ، جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے ’’۔ ابن ِ صفی کے مزاحیہ مضامین کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے ۔ اُنھوں نے کئی انگریزی ناولوں کے اُردو میں ترجمے بھی کیے ، لیکن اُنھیں تو خود اُردو کا عظیم جاسوسی ناول نگار بننا تھا۔ اس لیے اُنھوں نے شاعری اور مزاح نگاری ترک کرکے جاسوسی ناول لکھنے شروع کر دئے ۔ 1952ء میں اُن کا پہلا جاسوسی ناول ‘‘دلیر مجرم ’’شائع ہوا تھا، جس میں اُنھوں نے اپنے لافانی کردار فریدی اور حمید کو پیش کیا۔ بعد میں ایک دوسرے سیریز میں اُنھوں نے جاسوس عمران کا کردار پیش کیا اور یہ کردار بھی یادگار بن گیا۔ بے حد تیز رفتاری سے لکھنے والے ابن ِصفی 1957ء میں شدید طور پر بیمار ہو گئے اور تین برس تک اُنھوں نے کچھ بھی نہ لکھا،لیکن صحت یابی کے بعد اُن کا پہلا ناول 1960ء میں ‘‘ ڈیڑھ متوالے ’’ کے نام سے شائع ہوا اور اس کی اتنی زبردست پزیرائی ہوئی کہ پندرہ دنوں کے اندر ہی اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا۔ ابن ِصفی کے ناول درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہو کر مقبول ہو چکے ہیں اور اُن کی سب سے بڑی مقبولیت تو یہ تھی کہ انگریزی کی مشہور ادیب اگاتھا کرسٹی نے کہا تھا اگر چہ میں اُردو نہیں جانتی، لیکن مجھے برعظیم پاک و ہند کے جاسوسی ناولوں کے بارے میں معلومات ہیں، وہاں صرف ایک ہی حقیقی جاسوسی ناول نگار تھا ‘‘ ابن ِصفی ’’۔ اس بڑے اُردو ادیب کو یہ عظیم الشان خراج ِعقیدت ہے ۔اُردو کے اس عظیم ادیب کا صرف 52سال کی عمر میں 26جولائی 1980ء کو کراچی میں انتقال ہو گیا۔ اُنھوں نے خود ہی کہا تھا:

لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لکھی نہ جا سکی مگر اپنی ہی داستاں

آج ابن ِ صفی ہر چند کے ہمارے درمیان نہیں، لیکن اُن کی تحریریں ، اُن کا اُسلوب اور اُن کا اندازِ بیاں آج بھی اور آنے والے کل بھی ہزاروں لاکھوں پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لیے رہے گا!!اُردو ادب کی کئی قد آور شخصیات نے ابن ِصفی کو اپنے اپنے الفاظ میں خراج ِ تحسین پیش کیا ہے ۔یہاں رئیس امروہوی کا ابن ِصفی کے انتقالِ پُر ملال کے بعد مندرجہ ذیل بیان گویا اعترافی بیان سمجھا جانا چاہیے ۔ ابن ِصفی پر اپنے مضمون ‘‘جوئے خوں بہتی ہے ’’ میں رئیس صاحب لکھتے ہیں:‘‘جب تک ابن ِصفی زندہ تھے ، ہم سمجھتے تھے کہ ہم اُن سے بے نیاز ہیں ،لیکن اب ہمیں اپنی محرومی اور نیازمندی کا احساس ہوتا ہے ۔ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کس بے شرمی اور سنگ دلی سے اپنے ایک باکمال ہم عصر کو نظر انداز کررکھا تھا۔ یہاں ‘ہم’ سے مراد عام قاری نہیں کہ وہ تو ابن ِصفی کا عاشق تھا۔ ‘ہم’سے مراد وہ لوگ ہیں، جو ناول، افسانے اور داستاں سرائی کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔بقول ابن ِ صفی:

مدتوں ذہن میں گونجوں گا سوالوں کی طرح
تجھ کو یاد آؤں گا گزرے ہوئے سالوں کی طرح
ڈوب جائے گا جو کسی روز خورشیدِ اَنا
مجھ کو دہراؤ گے محفل میں مثالوں کی طرح
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  •  بنوں: سڑک کنارے بم نصب کرنے کی کوشش ناکام‘ دہشتگردوں کیخلاف ڈرون سے کارروائی
  • مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج نے جعلی مقابلے میں 3 کشمیری نوجوان شہید کردیے
  • ’آپریشن سندور‘ کی ناکامی کے بعد بھارت کا نیا فیک انکاؤنٹر منصوبہ ’آپریشن مہادیو‘ بے نقاب
  • پختونخوا میں دہشتگردوں پر ڈرون کے ذریعے حملہ، بم نصب کرنے کی کوشش ناکام
  • علامہ اقبال ایکسپریس کے ذریعے اسمگلنگ کی کوشش ناکام؛ بھاری مقدار میں منشیات برآمد
  • مسلح افواج دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہے، مشیر انقلابی گارڈز
  • بنوں، تھانہ میریان پر دہشتگردوں کا کواڈ کاپٹر حملہ
  • 10 لاکھ بھارتیوں نے اپنے ملک کی شہریت چھوڑی
  • ابن صفی کا مقام
  • دشمن کے خلاف سخت کارروائی اب بھارت کا ’نیا معمول‘ بن چکا ہے، بھارتی آرمی چیف