ججز تبادلے اور سینیارٹی کیس: آئینی بینچ میں منیر اے ملک کے دلائل، سماعت کل تک ملتوی
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آیا وفاقی حکومت کے جواب میں کچھ تحریری مواد جمع کرایا گیا؟ اس پر درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک نے بتایا کہ ابھی تحریری جواب جمع نہیں کرایا گیا، تاہم جلد جمع کرا دیا جائے گا۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 200، جو ججز کے تبادلے سے متعلق ہے، اسے تنہا نہیں پڑھا جا سکتا بلکہ اسے آرٹیکل 2 اے اور 175 اے کے ساتھ ملا کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 2 اے عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، جبکہ ان کا بنیادی مؤقف یہی ہے کہ آرٹیکل 200 کا اصل مقصد عارضی تبادلے ہیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے جواب جمع
منیر اے ملک نے آئینی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں ججز کے تبادلے کی کوئی شق شامل نہیں تھی۔ بعد ازاں 1956 کے آئین میں اس حوالے سے شق متعارف کرائی گئی، جس کے تحت صدر، دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے ججز کا تبادلہ کر سکتا تھا، جو مخصوص یا عارضی مدت کے لیے ہوتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ 1962 کے آئین اور پھر 1973 کے آئین میں بھی ججز کے تبادلے کے لیے مخصوص دفعات رکھی گئیں۔ خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 202 کے تحت صدر کو تبادلے کی مدت اور مراعات کا تعین کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد آرٹیکل 200(2) کے تحت یہ واضح کیا گیا کہ ججز کا تبادلہ صرف عارضی نوعیت کا ہوگا، اور بعد کی ترمیم یعنی 26ویں ترمیم میں اس شق کو برقرار رکھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز کے تبادلے صرف عوامی مفاد میں ہی کیے جا سکتے ہیں، اور ثابت کرنا ہوگا کہ حالیہ تبادلے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ منیر اے ملک نے کہا کہ تبادلوں کو سزا یا دباؤ کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
جسٹس شاہد بلال حسن نے سوال اٹھایا کہ اگر تبادلہ عارضی نوعیت کا ہو تو اس کی مدت کیا ہوگی؟ وکیل نے جواب دیا کہ آئینی تاریخ کے مطابق اس کی مدت 2 سال ہو سکتی ہے۔ تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ موجودہ آئین میں ایسی کوئی مدت واضح نہیں، جس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ تبادلہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ اگر تبادلہ جج کی مرضی کے بغیر ہو تو مدت لازماً 2 سال ہونی چاہیے، جس پر بینچ نے رائے دی کہ اگر جج خود رضامند ہو تو تبادلہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ سماعت کے اختتام پر بینچ نے کیس کی کارروائی کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ ججز تبادلے اور سینیارٹی کیس سپریم کورٹ منیر اے ملک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ججز تبادلے اور سینیارٹی کیس سپریم کورٹ منیر اے ملک جسٹس محمد علی مظہر منیر اے ملک نے ججز کے تبادلے آرٹیکل 2 جا سکتا سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
گورنر پنجاب آئینی حدود میں رہیں، مشورے اپنی جماعت کو دیں: عظمیٰ بخاری
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے گورنر پنجاب کے حالیہ خط پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کو کھلے خطوط لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، حکومت آئینی دائرے میں کام کر رہی ہے اور تمام معاملات حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ معذرت کے ساتھ، ہر بار آپ کو آپ کا آئینی کردار یاد دلانا پڑتا ہے، لیکن آپ مسلسل حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہلے دن سے امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایات پر تمام متعلقہ ادارے متاثرین کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں اور وہ خود سیلاب کے اگلے روز چکوال پہنچ کر متاثرہ افراد کی داد رسی کر چکی ہیں۔ وزیر اطلاعات نے گورنر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کسی کو حقیقی طور پر جگانا چاہتے ہیں تو اپنی جماعت اور اپنی حکومت کو خط لکھیں۔ انتظامی معاملات اور حکومت کیسے چلانی ہے، اس پر آپ کے مشوروں کی ہمیں ضرورت نہیں۔ گورنر صاحب کا کام آئینی نمائندگی تک محدود ہے، سیاسی مشورے اور فوٹو سیشنز سے آگے نہ بڑھیں۔ پنجاب کے عوام نے مریم نواز کو مینڈیٹ دیا ہے، آپ نمائشی دورے کر کے صرف فوٹو سیشن کا شوق پورا کریں۔ براہ کرم اپنے قیمتی مشورے اپنی جماعت کو دیں اور آئینی کردار تک محدود رہیں۔