بیجنگ :چین کے صدر شی جن پھنگ نے شنگھائی میں اپنے معائنے کے دوران اس بات پر زور دیا کہ شنگھائی   سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کے بین الاقوامی مرکز کی تعمیر کا تاریخی مشن انجام دیتا ہے اور ہمیں عالمی اثر و رسوخ کے حامل سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی نئی  ہائی لینڈ کی تعمیر  کو تیز تر کرنا ہوگا۔ منگل کے روز شی جن پھنگ  ’’ماڈل انوویشن سینٹر‘‘کے ،معائنے کے لئے  شنگھائی پہنچے تھے، جوکہ شنگھائی میں مصنوعی ذہانت کے بڑے ماڈلز کے لئے ایک پیشہ ورانہ انکیوبیشن اور تیزرفتار پلیٹ فارم ہے جہاں 100 سے زیادہ کاروباری ادارے موجود ہیں۔

 

شی جن پھنگ نے ویڈیو کلپس کے ذریعے شنگھائی میں مصنوعی ذہانت کی صنعت کی ترقی کے بارے میں معلومات حاصل کیں، متعلقہ  انٹرپرائز پروڈکشن اور آپریشن کا تعارف  سنا اور شنگھائی میں مصنوعی ذہانت کی فعال ترقی کے عملی نتائج  کو سراہا۔ شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ چین مکمل صنتی نظام کا حامل اور  ڈیٹا کے وسائل سے مالا مال ملک ہے، جہاں مارکیٹ کے مواقع اور مصنوعی ذہانت کی ترقی کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔ہمیں  پالیسی سپورٹ اور ٹیلنٹ کی تربیت کو مضبوط بناتے ہوئے زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد اعلی معیار کی مصنوعات تیار کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.

بڑے ماڈل کے صنعتی نظام کے ذریعے مصنوعی ذہانت کی صنعت کو  ترقی دینےکے کامیاب تجربے کا  جائزہ لیتے ہوئے ریسرچ اور تحقیق  پر مزید زور دینا ہوگا اور مصنوعی ذہانت کی ترقی اور حکمرانی کے تمام پہلوؤں میں سرفہرست رہنے کی کوشش کرنی ہوگی  تاکہ رول ماڈل کا نمونہ پیش کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ایک جوان شعبہ بلکہ اور نوجوانوں کا شعبہ بھی ہے۔ چینی قوم کی عظیم  نشاۃ ثانیہ کو  عملی جامہ پہنانے کے لیے ہماری امیدیں  نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کی شنگھائی میں شی جن پھنگ

پڑھیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں

دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔

رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔

دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:

پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔

دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔

پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔

یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔

ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔

یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔

اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔

چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔

نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔

یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راحیل نواز سواتی

متعلقہ مضامین

  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • آپریشن حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے، عمران خان
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کا حکم
  • شنگھائی: صدر آصف علی زرداری کی معروف چینی آٹو موبائل کمپنی چیری ہولڈنگ کے وفد سے ملاقات
  • پاکستان کا کرپٹو کرنسی میں ابھرتا ہوا عالمی مقام، بھارتی ماہرین بھی معترف
  • گوگل جیمنائی نے پہلی بار چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا
  • چینی حکام ، سرمایہکاروں سے ملاقاتیں ، مسائل تعاون کے جزبے سے بے حل کیے جائیں گے : صدر 
  • ’’سائنس آن ویلز‘‘سیریز کا دوسرا پروگرام اسلام آباد میں کامیابی سے منعقد ، چینی صدر کے ’’ہم نصیب معاشرے‘‘کے وژن کا عملی عکس
  • تھر میں کوئلہ گیسیفیکیشن پلانٹ کی تنصیب، چینی کمپنی کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط