فارم 47 والے بھارت کو کوئی جواب نہیں دے سکتے
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 اپریل2025ء) عمران خان کا کہنا ہے کہ فارم 47 والے بھارت کو کوئی جواب نہیں دے سکتے ، نوازشریف اور آصف زرداری ایک بیان تک نہیں دیں گے کیونکہ ان کے ذاتی مفادات جڑے ہوئے ہیں، نوازشریف مودی کے خلاف بیان دے کر اپنے کاروبار کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ تفصیلات کے مطابق بانی تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے منگل کے روز اڈیالہ جیل میں وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "پہلگام واقعے میں انسانی جانوں کا ضیاع انتہائی پریشان کن اور المناک ہے۔
میں متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ جب فالس فلیگ پلوامہ آپریشن کا واقعہ ہوا تو ہم نے بھارت کو ہر طرح کے تعاون کی پیشکش کی لیکن بھارت کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔(جاری ہے)
جیسا کہ میں نے 2019 میں پیشین گوئی کی تھی، پہلگام کے واقعے کے بعد دوبارہ وہی ہو رہا ہے۔ مودی سرکار خود شناسائی اور تحقیقات کے بجائے الزام ایک بار پھر پاکستان پر ڈال رہی ہے۔
1.5 بلین آبادی کا ملک ہونے کے ناطے، ہندوستان کو پہلے سے ہی "نیوکلیئر فلیش پوائنٹ" کے نام سے مشہور خطہ کے ساتھ گڑبڑ کرنے کی بجائے ذمہ داری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امن ہماری ترجیح ہے لیکن اسے بزدلی نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کے پاس کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں، جیسا کہ میری حکومت نے، پوری قوم کی حمایت سے 2019 میں کیا تھا۔ میں نے ہمیشہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی اہمیت پر زور دیا ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی قراردادوں میں دی گئی ہے۔ میں اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتا رہا ہوں کہ آر ایس ایس کے نظریے کی قیادت میں ہندوستان نہ صرف خطے کے لیے بلکہ اس سے آگے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ آرٹیکل 370 کی غیر قانونی منسوخی کے بعد کشمیر میں بھارتی جبر میں شدت نے کشمیری عوام کی آزادی کی خواہش کو مزید ہوا دی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ جعلی فارم 47 کے نتائج کے ذریعے مسلط کی گئی ایک ناجائز حکومت نے قوم کو تقسیم کر دیا ہے۔ اور پھر بھی ستم ظریفی یہ ہے کہ نریندر مودی کی جارحیت نے پاکستانی عوام کو بھارتی دشمنی کے خلاف ایک آواز میں متحد کر دیا ہے۔ جب کہ ہم اس جعلی حکومت کو مسترد کرتے ہیں، ہم ایک پاکستانی قوم کے طور پر مضبوطی سے کھڑے ہیں اور مودی کی جنگ کو ہوا دینے اور علاقائی امن کو خطرے میں ڈالنے والے اس کے خطرناک عزائم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بیرونی دشمن کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے سب سے پہلے قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام کارروائیوں کو روکا جائے جو قوم کو مزید پولرائز کر رہے ہیں۔ اس نازک وقت میں سیاسی شکار پر ریاست کی ضرورت سے زیادہ توجہ اندرونی تقسیم کو گہرا کر رہی ہے اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کی قوم کی اجتماعی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری جیسی خود ساختہ شخصیات سے کسی مضبوط موقف کی توقع رکھنا بے ہودہ ہے۔ وہ بھارت کے خلاف کبھی نہیں بولیں گے کیونکہ ان کی غیر قانونی دولت اور کاروباری مفادات بیرون ملک ہیں۔ وہ بیرونی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان مالی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ پاکستان پر غیر ملکی جارحیت اور بے بنیاد الزامات کے سامنے خاموش رہتے ہیں۔ ان کا خوف بہت سادہ ہے کہ اگر وہ سچ بولنے کی ہمت کریں تو بھارتی لابی ان کے آف شور اثاثے منجمد کر سکتی ہیں۔ "
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت کو کے خلاف
پڑھیں:
پاکستان کوکھل کربھارت کے خلاف بات کرنے پرعالمی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(رپورٹ:حماد حسین)سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے، صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہارجامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمر اور ڈاکٹر رخشندہ منیر نے جسارت کے سوال پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟کے جواب میں کیا۔جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ ایک بہت اہم اور حساس سوال ہے۔ پاکستان سرکاری سطح پر اکثر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے، خصوصاً کشمیر کے حوالے سے۔ ہر سال اقوامِ متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی جانب سے بیانات دیے جاتے ہیں، اور بعض اوقات او آئی سی میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا جاتا ہے۔تاہم، کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی آواز اکثر کمزور یا غیر مؤثر ہوتی ہے، یا پھر صرف سیاسی مفادات کے تحت بلند کی جاتی ہے۔ اس کی چند ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں.سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے۔پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمرکاکہنا تھا کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے میں رہتے ہوںوہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔بھارت ہو افغانستان یا کوئی اور ملک جہاں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے پاکستان ا س کے لیے آواز اٹھاتا ہے، اسی طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت کہتا ہے کہ ہمارا جبکہ ہم کہتے وہ مقبوضہ ہے وہاں جو بھی کچھ ہورہاہے وہ کون کررہا ہے وہ بھارتی پولیس اور انڈین آرمی کررہی ہے،پاکستا ن مستقل اس کے خلا ف آواز اٹھاتا ہے.بھارت آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بڑا ملک ہے اور اس کے دیگر اسلامی ممالک سے بھی بڑے اچھے تعلقات ہیں،جبکہ امریکا،برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں اس کی اکانومی چھائی ہوئی ہے اسی لئے بھارت کے اکنامی ریلیشن پاکستان کے مقابلے میں زیادہ اچھے ہیں۔پاکستان میں مختلف حکومتی آتی ہیں جو اپنا اپنا ایجنڈا لے کر آتی ہیں۔اسی لیے پاکستان معاشی سطح پر دباؤ کا شکار ہے،پے در پے حکومتوں غیر ضروری طور پر تبدیل کرنے کی وجہ سے ہماری حکومت بہت سے چیزوں میں الجھ جاتی ہے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہاںکی حکومت نہیں پاکستان بننے کے بعد انہیں وہ قوت حاصل نہیں ہوئی جو کہ ہونا چاہیے جبکہ بھارت کئی مذہبی عناصربڑی تعداد میں موجود ہیںجو پاکستا ن کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔پاکستان تو اپنے ہی مسائل میں گھرا ہواہے۔مگر پھر بھی مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔کلمہ کی بنیاد پر جہاںمسلمانو ں پر جبری تسلط قائم کیا جائے تو بحیثیت مسلمان ہم پاکستانیوں کو تکلیف تو ہوتی ہے ،شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہر تعلیم ڈاکٹر رخشندہ منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ 1971ء سے پہلے Double Country کے نام سے جانا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں 1000 میل (1600 کلو میٹر) کا فاصلہ تھا۔ پاکستان کے دو حصوں کے بیچ میں بھارت کے کچھ علاقے موجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ہمیشہ تناؤ برقرار رہا۔ اگر ہم دونوں ممالک کے تعلقات پر نظر ڈالیں تو ہمیں تنازعات دیکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے 78 سال کے عرصے میں چار بڑی جنگیں لڑیں۔1948، 1947 اور 1965 کشمیر کے معاملے پر 1947-48 میں بھارت کشمیر کا ایک حصہ پاکستان سے لینے میں کامیاب ہوا۔ 1970-71 میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی عمل پذیر ہوئی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ 1999ء میں بھارت اور پاکستان پھر آمنے سامنے آئے۔ اس بار کارگل نشانہ بنا۔ اس جنگ کے نتیجے میں بھارت نے کارگل پر قبضہ کیا۔ جس پر پہلے ہی پاک فوج قبضہ حاصل کرچکی تھی۔اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی موقعوں پر اختلافات پیدا ہوئے۔ ان سب اختلافات کے باوجود پاکستان نے کئی بار کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری عوام کو جب سیکورٹی کونسل نے جنوری 1949ء میں حق خودارادیت دیا تو پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا۔ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور دیگر کئی حکمرانوں نے کشمیر میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ پاکستان کشمیر کے معاملے میں کوئی جارحانہ قدم اُٹھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ سب سے پہلے تو پاکستان کے اندرون حالات بہت نازک ہیں، ہر صوبہ ایک الگ کشمکش کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ہم معاشی بحران کا شکار ہیں، پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مسلسل قرضے لیتا آرہا ہے۔ اگر ایک لمحے کیلئے پاکستان اپنی معاشی کمزوری کو نظر انداز کرکے کوئی بڑا قدم اُٹھائے بھی تو تب اس بات کو یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ باقی مسلمان ممالک بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔