لاہور تا کراچی، بھارتی ٹارگٹ لسٹ تیار
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
بھارت کی پاکستان اور آزاد کشمیر کیخلاف سرجیکل اسٹرائیکس کی تیاریوں کے حوالے سے عالمی میڈیا میں بھی اب سنگین خدشات کا اظہار شروع ہو گیا ہے، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت، مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ کشیدگی کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف عسکری کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حالیہ چند دنوں میں دنیا کے 12 سے زائد عالمی رہنماں کو ٹیلی فون کالز کی ہیں تاکہ اپنا بیانیہ پیش کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی نئی دہلی میں موجود تقریبا 100 غیر ملکی سفارتی مشنز کو خصوصی بریفنگز دی گئی ہیں، جن میں پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات دہرائے گئے۔ ان سفارتی سرگرمیوں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ بھارت نہ صرف عالمی رائے عامہ کو اپنے متوقع سرجیکل اسٹرائیکس کیلئے ہموار کر رہا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے لیے زمین بھی تیار کر رہا ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس اور دفاعی مبصرین کے بیانات کے مطابق، بھارت کی یہ تیاری محض سرجیکل اسٹرائیک کی حد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ ایک منظم اور وسیع پیمانے پر منصوبہ بند فوجی کارروائی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارتی ذرائع کے مطابق، اس بار کارروائی صرف آزاد کشمیر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پاکستان کے اندرونی علاقوں میں بھی ’’دہشت گردی کے مبینہ اڈوں‘‘کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
بھارت کے معروف دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا اور براہم چیلانی جیسے مبصرین مسلسل دعوی کر رہے ہیں کہ پاکستان کے اندر سرگرم جہادی تنظیموں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا وقت آ چکا ہے۔ بھارتی میڈیا میں یہ بات شدت سے زیر بحث ہے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد کو جواز بنا کر پاکستان کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں قائم اہم مراکز پر براہ راست حملے کیے جا سکتے ہیں۔ جن اہداف پر بھارتی حملے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، ان میں مریدکے میں واقع کالعدم جماعت الدعوہ و لشکر طیبہکا سابق ہیڈکوارٹرز ، چوبرجی لاہور کی جامع مسجد القادسیہ بھی شامل ہیں، جہاں اب درس و تدریس اور عبادات کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور بطور تربیتی مراکز استعمال دس پندرہ برس سے بند ہے۔
بہاولپور اور رحیم یارخان میں موجود مولانا مسعود اظہر سے تعلق رکھنے والے مدارس کے مختلف کیمپس جنہیں بھارت جیش محمد کے تربیتی مراکز قرار دیتا ہے لیکن وہاں بھی دس پندرہ برسوں سے اب صرف عبادات اور تعلیمی سرگرمیاں ہی جاری ہیں۔ لاہور اور کراچی میں موجود کچھ دفاتر جو کسی زمانے میں حافظ محمد سعید اور مولانا مسعود اظہر سے وابستہ تھے، کراچی میں قائم جامعہ رشیدیہ اور جامعہ بنوریہ جیسے بڑے دینی تعلیمی ادارے، جن کے بارے میں بھارت کا دعوی ہے کہ یہ مولانا مسعود اظہر اور جیش محمد سے تعلقات رکھتے ہیں۔
بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے بھارت ڈرون حملوں، کروز میزائل حملوں یا بیلاسٹک میزائل حملوں کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے بھارتی فوج کی خصوصی کمانڈوز یونٹس کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے، جو کنٹرول لائن پار کر کے آزاد کشمیر میں کارروائیاں کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
بھارتی ذرائع کے مطابق، اسرائیل سے حاصل کیے گئے جدید ہیرون ڈرونز اور امریکہ ساختہ پریڈیٹر ڈرونز کو پاکستانی علاقوں میں انٹیلیجنس، نگرانی اور حملوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’براہموس‘‘ کروز میزائل، جو کہ انتہائی تیزی سے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، مخصوص مدارس یا دینی مراکز پر داغے جا سکتے ہیں۔بھارتی عسکری منصوبہ بندی میں اس بار یہ بھی شامل ہے کہ حملوں کا دائرہ کار محدود ہو تاکہ پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کا موقع نہ دیا جاے، بھارت کی ممکنہ سرجیکل اسٹرائیک یا محدود جنگی کارروائی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر بھارت واقعی پاکستان کے اندر حساس مذہبی اور تعلیمی اداروں پر حملے کرتا ہے تو یہ نہ صرف ایک سنگین جارحیت ہوگی بلکہ اس کے انتہائی لرزہ خیز عالمی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ دونوں ایٹمی قوتوں کے درمیان بڑھتا ہوا تنا ایک عالمی بحران کو جنم دے سکتا ہے، جس کے نتائج نہایت بھیانک ہوں گے۔
اگر بھارت نے رحیم یارخان، بہاولپور، لاہور، کراچی یا مریدکے میں مدارس، مساجد یا دینی مراکز کو نشانہ بنایا تو پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کے کئی آپشنز موجود ہیں۔ پاکستانی عسکری حکمت عملی کے تحت بھارت کے حساس فوجی اڈے، انٹیلی جنس دفاتر، اور سرحدی علاقوں میں موجود اسلحہ ڈپو فوری طور پر جوابی حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ خصوصا راجستھان میں موجود بھارتی فضائیہ کے اڈے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی کیمپ، اور ہماچل پردیش و پنجاب کے حساس ملٹری تنصیبات کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان بھارت کے اندر موجود بڑے اقتصادی مراکز، مثلا امرتسر، جودھپور اور دہلی کے قریبی علاقوں پر محدود لیکن مثر میزائل حملوں کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ساتھ ہی، پاکستانی دفاعی حکمت عملی میں بھارت کی انتہاپسند تنظیموں جیسے بجرنگ دل، شیو سینا اور آر ایس ایس کے دفاتر اور تربیتی مراکز کو نشانہ بنانے کے آپشنز بھی زیر غور ہیں، تاکہ دنیا کو بھارت میں موجود ہندو انتہاپسند دہشت گرد نیٹ ورکس کی حقیقت بھی دکھائی جاسکے۔ ایسی کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاکستان کا جواب شدید، موثر اور دشمن کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کو نشانہ بنانے کہ پاکستان پاکستان کے بھارت کی کے مطابق سکتا ہے رہا ہے کیا جا کے لیے
پڑھیں:
امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ٹرمپ اور زی شی پنگ کے درمیان ہونے مذاکرات کے فوری بعد ہی دنیا میں کے سامنے بھارت اور امریکا کے دفاعی معاہدے کا معاہدے کا ہنگا مہ شروع ہو گیا اور بھارتی میڈیا نے دنیا کو یہ بتانے کی کو شش شروع کر دی ہے کہ پاکستان سعودی عرب جیسا امریکا اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔بھارت اور امریکا نے درمیان یہ دفاعی معاہدہ چند عسکری امور پر اور یہ معاہد
2025ءکے معاہدے کا تسلسل ہے ،2025ءکو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور جب بھارت نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کر نے کی کوشش شروع کر دی تو امریکا نے نے بھارت کو ایشیا کا چوھدری بنانے فیصلہ کر لیا تھا اسی وقت پاکستان نے بھارت کو بتا دیا تھا کہ ایسا نہیں کر نے کی پاکستان اجسازت نہیں دے گا ۔اس معاہدے کی تجدید 2015ءاور اب 2025ءمیں کیا گیا ہے ۔اس کی تفصیہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو اسلحہ فروخت کر گا ،خفیہ عسکری معلامات امریکا بھارت کو فراہم کر گا اور دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقیں ساو ¿تھ چائینہ سی میں کر یں گی اور چین کے خلاف جنگ کی تیاری کی جائے گی لیکن اب بھارت دنیا کو یہ ثابت کر ے کی کو شش کر رہا ہے کہ امریکا اور بھارت کا معاہدہ پاکستان کے خلاف بھی لیکن حقیقت اس سے مختلاف ہے
پاکستان نے امریکا،بھارت دفاعی معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں
مسلح افواج کی بھارتی مشقوں پر نظر ، افغانستان نے دہشتگردوں کی موجودگی تسلیم کی:دفترخارجہ امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ ، راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگسیتھ کے دستخط کیے
اسلام آباد،کوالالمپور(اے ایف پی ،رائٹرز،مانیٹرنگ ڈیسک)امریکا اور بھارت کے درمیان 10سالہ دفاعی معاہدہ طے پا گیا ،امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے گزشتہ روز تصدیق کردی کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں ،پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کا کہناہے کہ پاکستان نے امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے اورخطے پر اس کے ہونیوالے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا کہ مسلح افواج بھارتی فوجی مشقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ان کاکہنا کہ یہ سوال کہ پاکستان نے کتنے بھارتی جنگی جہاز گرائے ؟ ،یہ بھارت سے پوچھنا چاہئے ، حقیقت بھارت کے لئے شاید بہت تلخ ہو۔ پاک افغان تعلقات میں پیشرفت بھارت کو خوش نہیں کرسکتی لیکن بھارت کی خوشنودی یا ناراضی پاکستان کے لئے معنی نہیں رکھتی۔ افغان طالبان حکام نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کئے ،پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دورکا نتیجہ مثبت نکلے گا، پاکستان مصالحتی عمل میں اپنا کردار جاری رکھے گا اور امن کے قیام کیلئے تمام سفارتی راستے کھلے رکھے گا۔ طاہر اندرابی نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر ضروری اقدام اٹھائے گا، انہوں نے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردارکو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 6 نومبر کے مذاکرات سے مثبت اور پائیدار نتائج کی امید ہے۔
سرحد کی بندش کا فیصلہ سکیورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے ، سرحد فی الحال بند رہے گی اور مزید اطلاع تک سرحد بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رہے گا،مزید کشیدگی نہیں چاہتے تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز میں انڈین میڈیا کے دعوو ¿ں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر ‘اسرائیل کیلئے “ناقابل استعمال”کی شق بدستور برقرار ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کی رپورٹس کے مطابق امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیتھ نے ایکس پوسٹ میں بتایا کہ بھارت کیساتھ دفاعی فریم ورک معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی اشتراک میں اضافہ ہوگا،ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگستھ کی ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس کے موقع پر ہوئی جس کا باقاعدہ ا?غاز آج ہوگا۔معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگسیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے ، یہ 10 سالہ دفاعی فریم ورک ایک وسیع اور اہم معاہدہ ہے ، جو دونوں ممالک کی افواج کیلئے مستقبل میں مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع پِیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی کے تبادلے اور معلومات کے اشتراک کو مزید مضبوط بنائے گا۔
ہیگسیتھاس بعد چین چ؛ی گئیں اور وہاں انھوں تائیوان کا ذکر دیا جس کے ایسا محسوس ہوا کہ
ہیگسیتھ کے ایشیا میں آتے ہیں امریکا چین کے درمیان ایک تناو ¿ پیدا ہو گیا ۔ہیگسیتھ کے مطابق، یہ فریم ورک علاقائی استحکام اور مشترکہ سلامتی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر کہا: “ہمارے دفاعی تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔”
بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ یہ ملاقات آسیان دفاعی وزرائے اجلاس پلس کے موقع پر کوالالمپور میں ہوئی۔ معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی وزیرِ دفاع نے بھارت کے ساتھ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ تعلقات دنیا کے سب سے اہم شراکت داریوں میں سے ایک ہیں۔”ہیگسیتھ نے اس معاہدے کو “مہتواکانکشی اور تاریخی” قرار دیا اور کہا کہ یہ دونوں افواج کے درمیان مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔ دونوں رہنماو ¿ں نے دوطرفہ تعلقات اور خطے کی سلامتی پر گفتگو کی۔
یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں امریکا اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی تھی، جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 50 فیصد تجارتی محصولات عائد کیے تھے اور نئی دہلی پر روس سے تیل خریدنے کے الزامات لگائے تھے۔
اسی سلسلے میں بھارت کو امریکا 2025ءمیں خطے میں چین کی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل خفیہ معلومات کا نظام بھی دیا تھا لیکن اس کے بعد چین نے خاموشی سے گلوان ویلی اور لداخ کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر تھا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے 10مئی 2025ءکو جب پاکستان نے بھارت پر جوابی حمہ کی اتھا اس وقت بھی امریکا اور بھارت کا دفاعی معاہدہ ای طرح قائم تھا لیکن پاکستان نے جم کر بھارت کی خوب پٹائی کی اور امریکا اس وقت سے آج تک یہی کہہ رہا ہے اگر صدر ٹرمپ جنگ نہ رکوائی ہوتی تو بھارت کو نا قابل ِحد تک تباہ کن صورتحال کا سامنا کر نا پڑتا۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقئقت یا فسانہ ہے ۔