فیصلہ بآلاخر مذاکرات سے ہی ہوگا!
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں بھارت نے روایتی طریقہ ِ کار کے مطابق فالس فلیگ آپریشن کرنے کے بعدحسب ِ سابق حملہ کے ٹھیک2گھنٹے بعد پاکستان کوموردِ الزام ٹھہرادیا۔ حیران کن طورپر کسی بھارتی اینکر اور نیوز چینلز کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اپنی حکومت سے پوچھے کہ 4 افراد پاکستان سے بذریعہ مقبوضہ کشمیر پیدل 400 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے پہلگام پر حملہ آور ہوتے ہیں اورپھر اچانک غائب ہوجاتے ہیں۔ تاحال بھارتی ایجنسیاں اور افواج اْنہیں تلاش کرنے میں ناکام ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر فوجی چیک پوسٹ بنی ہوئی ہیں ایسا کیونکر ممکن ہوا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر جنگ تھوپنے کی کوششوں پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے یک آواز ہو کر بھارت کو ناکوں چنے چبوانے کے عزم کااظہار کیا ہے۔
پاکستان کے دونوں منتخب ایوان اتحاد کے جذبے سے سرشار نظر آئے ہیں۔ اس اتحاد نے یقینا مودی کے ہوش اڑادئے ہیں کیونکہ اس نے اس زعم میں یہ حرکت کی تھی کہ حکومت واوراپوزیشن کے درمیان کھلی مخالفت سے فائدہ اٹھالے گا لیکن ایسا سوچتے ہوئے بھارتی حکمراں اور فیصلہ ساز وں نے غالباً یہ حقیقت نظر انداز کردی تھی بکہ 1965 میں جب بھارت نے پاکستان پرجنگ مسلط کی گئی اُس وقت بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑے فاصلے تھے۔اپوزیشن کے دِل زخمی تھے ، لیکن جب بھارتی فوجیں واہگہ کی سرحد پر حملہ آور ہوئیں تو سب ایک ہو گئے۔فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپوزیشن رہنماؤں کو ملاقات کی دعوت دی،تو سب نے اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔آج بھی پاکستانی سیاست بٹی اور کٹی ہوئی ہے، غیر ذمہ دار عناصر بھی اپنا وجود رکھتے ہیں ملک کا سب سے بڑا لیڈر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے،اِس کے باوجودپاکستان سے محبت کے حوالے سے 1965 کا جذبہ اہوزیشن سمیت پوری قوم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ کسی کے دل میں خوف نام کی کوئی شے موجود نہیں۔کنٹرول لائن سے سیکڑوں کلو میٹر دور پہلگام میں جب سیبھارتی فوج کے دہشت گردوں نے اپنے مضموم مقاصد کے تحت متعدد سیاحوں کی جانیں لی ہیں اور متعدد کو زخمی کیا ہے، بھارتی میڈیا آگ اُگل رہا ہے انتہا پسند مودی حکومت اُس کے دباؤ میں ہے یا وہ مودی کے دباؤ میں ہے، اِس سے قطع نظر کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی طرف سے اُٹھنے والے جنگ کے بادل پورے جنوبی ایشیاپر منڈلا رہے ہیں لیکن اس نازک صورت حال میں بھی پاکستان ٹھنڈے دِل و دماغ سے کام لے رہا ہے۔کسی گھبراہٹ کے بغیر محدود اور موثر جوابی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پوری قوم پُرعزم ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی طاقت ہیں، دہشت اور طاقت کا یہی توازن امن کی ضمانت ہے،جو اِسے تاراج کرے گا، وہ خود تاراج ہو جائے گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا اس صورت حال پرکہنا ہے کہ اس خطے پر جنگ مسلط کی جارہی ہے، اس خطے پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں،انھوں نے کہا کہ ابھی میں نے جنگ چھڑ جانے کی بات نہیں کی لیکن خطرہ موجود ہے ہم جنگ کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں، ہم بھرپور جواب دیں گے،پوری قومی طاقت ہمارے پاس موجو د ہے تمام صلاحیتوں کا استعمال آتا ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے، خطرہ موجود ہے، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کیلئے بھی 100 فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں۔ اس وقت دونوں جانب بھاری تعداد فوجیں ایک دوسرے کی ‘آنکھوں میں آنکھیں’ ڈالے تعینات ہیں۔ ہم انتہائی درجے پر الرٹ ہیں، اس وقت مقبوضہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر فورٹیفیکیشن ہے ‘ہماری فوجیں بڑی فورٹیفائیڈ بیٹھی ہیں اور ادھر ان کی بھی بیٹھی ہوئی ہیں۔ اگر کوئی ٹکراؤ ہوتا ہے تو الحمد اللہ ہم اللہ کے فضل و کرم سے بالکل تیار ہیں۔‘پاکستان کو نقصان کا اندیشہ ہو تو طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ کشیدگی کم بھی ہوسکتی ہے، دوست ممالک کی بھی کوششیں جاری ہیں ہوسکتا ہے بھارت کو کچھ عقل آجائے۔ بعض ممالک کی جانب سے ثالثی کرانے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں میڈیا میں بھی آیا ہے کہ کچھ لوگوں نے بھارت سے بھی رابطہ کیا ہے اور ہم سے بھی رابطہ کیا ہے۔اگر کوئی ملک ثالثی کی پیشکش کرتا ہے تو پاکستان پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کسی نیوٹرل فورم سے کروا لی جائے۔ اس کا دنیا کو پتہ لگ جائے کہ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ایساآزاد فورم جس پر بھارت اور ہمیں اعتبار ہو، ہمارے مشترکہ دوست ہوں، یا بین الاقوامی فورم ہو یا ریجن کے ممالک ہوں،4-5 ممالک کا کمیشن بنا کر تحقیقات کروا لیں۔
ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اب بھی معاملات افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے کی باتیں کررہاہے لیکن بھارتی رہنماؤں کے بیانات اور تیور یہ بتارہے ہیں کہ بھارت اب ایک آخری لڑائی کی تیاری کر رہاہے ۔ بھارتی رہنمااقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے لیے انصاف کے پاکستانی مطالبے سے توجہ ہٹانے کے لیے، پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا رہے ۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ دہلی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی پالیسی سیاسی/نظریاتی ہے، جس کا مقصد ‘اکھنڈ بھارت’ کا حصول ہے، جس کا مطلب پاکستان کا خاتمہ ہے۔ گذشتہ 2 دہائیوں میں اس نے جنوبی ایشیا میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ان پالیسیوں کے پیچھے کارفرما ناپختگی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دونوں اطراف کے قانون سازوں نے اس بات کا اعادہ کرنے کے لیے ہاتھ ملایا کہ بھارت کی طرف سے کسی بھی مہم جوئی کا سخت، تیز اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔پاکستان آبی دہشت گردی یا فوجی اشتعال انگیزی سمیت کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنے کے لیے پوری صلاحیت رکھتاہے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کیلئے تیار ہے جیسا کہ فروری 2019 میں بھارت کی لاپرواہی کے خلاف اس کے مضبوط اور دلیرانہ ردعمل سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھارت کی طرف سے کسی بھی غلط مہم جوئی کا پہلے سے زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی تقسیم ہند کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔جو کبھی جنگوں کی شکل اختیار کرتی رہی ہے تو کبھی سیاسی و سفارتی محاذ آرائی کی شکل میں موضوع بحث رہی ہے۔تقسیم ہند وہ زخم ہے جو انتہا پسند بنیا رستے زخم کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ہندوستان کا تقسیم ہونا ایک فطری عمل تھا۔اگر ہندو سامراج کی طرف سے اسے دل سے قبول کر لیا جاتا تو یقینا آج خطہ امن کی آماجگاہ ہوتا اور دو پڑوسی ملک اچھے تعلقات کے ساتھ رہ رہے ہوتے۔لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا اور اب نریندرا مودی اپنے مسائل میں اس قدر گھر چکے ہیں کہ عوام کی توجہ لاینحل مسائل سے مبذول کرانے کیلئے ان کو پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا،پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کرتے ہوئے مودی سرکار اپنے سابق لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ کا بیان کے اس بیان پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں جس میں انہوں نے پاکستان کی عسکری صلاحیت کا کھل کر اعتراف کرتے ہوئے اپنی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ بھارت کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اب بھی ایک فعال ایٹمی ریاست ہے جس کے پاس ہر طرح کی جوابی کارروائی کی قابلِ عمل حکمت عملی موجود ہے بھارت کو کسی بھی میدان میں چاہے وہ میزائل، ڈرون، فضائی یا سمندری قوت ہو،ان میں کوئی ایسی تکنیکی برتری حاصل نہیں جس کی بنیاد پر وہ بغیر خطرے کے پاکستان پر جوابی حملہ کر سکے انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان ایک مکمل ایٹمی قوت ہے اور کسی بھی محدود جنگ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی طرح کا بیان بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو نے بھی دیا ہے انھوں نے صاف لفظوں میں متنبہ کیا ہے کہ اگر بھارت جنگ کرتا ہے تو اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی اور بھارتی جرنیل پاکستان کے ساتھ جنگ کیلئے بھارتی ٹی وی چینلز پر بکواس کر رہے ہیں انہیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں انہوں نے پلواما حملے کے بعد پاکستان کے اقدامات کی بھی تعریف کی جب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ تھی اسی طرح بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ بھی بھرے اجلاس میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پہلگام واقعہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے اگر مودی جی شہریوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو استعفی دیکر گھر بیٹھ جائیں اور کسی اہل شخص کو موقع دیں۔
بھارت کی تاریخ پاکستان دشمنی، سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے بھری پڑی ہے۔ تقسیم ہند سے لے کر آج تک بھارتی رہنماؤں نے پاکستان کے وجود کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ 1948، 1965 اور 1971 کی جنگیں ہوں یا کارگل کی مہم جوئی، ہر بار بھارت کو شکست اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ 1971 میں بھارتی رہنماؤں نے مکاری سے ہماری جغرافیائی وحدت کو نقصان ضرور پہنچایا، مگر اس کا اکھنڈ بھارت کا خواب آج بھی ادھورا ہے اور ان شا اللہ قیامت تک ادھورا ہی رہے گا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے کیلئے عصبیت اور نفاق کا بیج بونے والے بھارت کی 7 ریاستیں علیحدگی کی آگ میں سلگ رہی ہیں۔ ناگا لینڈ، میزورم، منی پور اور آسام میں آزادی کی تحریکوں بھارتی رہنماؤں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ چین ڈوکلام میں بھارت کو گھیر چکا ہے، اور سلیگوری کاریڈور اس کیلئے ‘‘چکن نیک’’ کی طرح نازک گردن بن چکا ہے۔ اور تو اوربنگلہ دیش کے ساتھ اس کے تعلقات انتہا درجے کی کشیدگی کا شکار ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر یونس کے چینی دورے میں دیئے گئے بیانات نے بھارتی رہنماؤں کی خارجہ پالیسی کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔جہاں تک دہشت گردی کے الزامات کی بات ہے، تو دنیا اب بھارت کے چہرے پر پڑا نقاب ہٹا چکی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھارت کو سرکاری دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔ امریکہ میں سکھ رہنما کا قتل، قطر میں پکڑی گئی بھارتی سازش اور پاکستان میں کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس کی موجودگی بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ناقابلِ تردید شواہد ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت بڑے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں۔ دونوں پر لازم ہے کہ وہ بالغ نظری سے کام لیں۔ایک آخری لڑائی کا مطلب دونوں ریاستوں کی تباہی اور دنیا کے لیے ایٹمی سردی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارتی رہنماتباہی کے کنارے سے پیچھے ہٹیں۔ بھارتی رہنماؤں کو احساس ہو یانہ ہو اس کے جرنیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی بھی عسکری کارروائی کا جواب دیا جائے گااور اگر کوئی جنگ ہوتی ہے تو کوئی نہیں جیتے گا۔ تاہم جنگ کے پہلے ہی مرحلے میں بھارت کو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی عوام ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔موجودہ صورت حال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کا یک دو طرفہ،عمل ہی سب سے موزوں راستہ ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان اس بحران کے تمام مراحل کے بعد بھی بالآخر حل دو طرفہ بات چیت سے ہی نکلے گا۔بھارتی رہنماؤں کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ پاکستان اور بھارت ہمیشہ ہمسایہ رہیں گے۔ اچھے تعلقات نہ صرف امن کے مفاد میں ہیں، بلکہ دونوں کو اقتصادی ترقی کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تاریخی ہم آہنگی یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ باہمی مفاہمت اور تعاون کے ذریعے آگے بڑھیں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت بھارتی رہنماؤں ہے کہ پاکستان دیا جائے گا پاکستان پر پاکستان کے کے درمیان میں بھارت کی طرف سے کہ بھارت موجود ہے بھارت کے صورت حال بھارت کو بھارت کی یہ ہے کہ کے ساتھ کرنے کی کسی بھی رہے ہیں کرنے کے ہیں ان ہے اور کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
بھارت کے پاس جموں وکشمیرکے مستقبل کا یکطرفہ طور پر فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں، نذیر گیلانی
ذرائع کے مطابق لندن میں قائم جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے سربراہ سید نذیر گیلانی نے مظفرآباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھائے۔ اسلام ٹائمز۔ معروف کشمیری ماہر قانون اور انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی یکطرفہ منسوخی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ذرائع کے مطابق لندن میں قائم جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے سربراہ سید نذیر گیلانی نے مظفرآباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے الحاق کی نوعیت صرف 81 دن بعد بدل گئی جب بھارت یہ معاملہ 15 جنوری 1947ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر گیا اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری پر اتفاق کرلیا۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس متنازعہ علاقے کے مستقبل کا یکطرفہ طور پر فیصلہ کرنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے 1951ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد 91 کا حوالہ دیا جس میں نہ صرف جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی توثیق کی گئی بلکہ مقبوضہ علاقے کی حکومت کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت اور پاکستان (UNCIP) کے وضع کردہ فریم ورک کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے روک دیا گیا۔ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کے ایک اہم فریق کے طور پر پاکستان کی اسے بھی بڑی ذمہ داری کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حفاظت کرنا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سفارتی کوششوں میں نئے چہروں کو متعارف کرائے اور اس مسئلے کو عالمی فورمز بالخصوص جنیوا اور واشنگٹن میں زیادہ بھرپور انداز سے اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ جغرافیائی سیاسی منظرنامہ اور بین الاقوامی رائے عامہ پاکستان کے حق میں ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے مظالم سے پاکستان کے لیے موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ کشمیریوں کو درپیش مشکلات کو بھرپور انداز میں اجاگر کرے اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے حمایت حاصل کرے۔ڈاکٹر گیلانی نے کہا کہ اپریل 1959ء تک بھارتی شہریوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخلے کے لیے اجازت نامہ درکار ہوتا تھا جو اس کی الگ آئینی اور سیاسی حیثیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے عدالتی جوڑتوڑ اور فوجی جارحیت کے ذریعے اس حیثیت کو منظم طریقے سے ختم کیا۔ انہوں نے علاقے میں فوجیوں کی موجودگی کے حوالے سے مفاہمت کی خلاف ورزی کرنے پر بھی بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، ظفر اکبر بٹ، نعیم خان، آسیہ اندرابی اور دیگر خواتین سمیت ہزاروں سیاسی قیدی جیلوں میں نظربند ہیں جن میں سے بیشتر کو بھارتی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک انسانی بحران ہے اور اسے اسی طرح نمٹنا چاہیے۔