پنچایت، جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل؛ ایک کڑوی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
بلوچستان میں حالیہ جرگہ کے غیر قانونی فیصلے پر عملدرآمد اور اس پر حکومت اور ریاست کی جانب سے مبینہ طور پر ’’کمزور ردعمل‘‘ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو اجاگر کررہا ہے کہ پاکستان میں قبائلی و علاقائی رسم و رواج کی حمایت کرنے والے عناصر اس قدر مضبوط ہیں کہ ہمارے عدالتی نظام کی موجودگی کے باوجود بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہے ہیں۔
اور ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے کہ پنچایت اور جرگہ جیسے ادارے، جنہیں روایتی انصاف کا پرچم بردار سمجھا جاتا رہا ہے اس قدر فرسودہ ہیں کہ یہ اپنے مبینہ روایتی اور فطری کردار سے ہٹ کر ہماری خواتین کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
آخر کیوں پنچایت اور جرگہ ہمیشہ خاص طور پر خواتین کے استحصال پر مبنی فیصلے کرتے ہیں؟ کیوں ان کے فیصلوں کا ہدف صرف خواتین ہوتی ہیں، چاہے وہ غیرت کے نام پر قتل ہوں، ونی ہو، سوارہ ہو، یا پھر پسند کی شادی کرنے پر سنگسار کرنے کا فیصلہ۔ کیا کبھی ہم نے سنا ہے کہ کسی پنچایت یا جرگہ نے بچوں کی تعلیم کے حق میں کوئی فیصلہ کیا ہو؟ یا صحت عامہ کی بہتری کے لیے کوئی اقدام اٹھایا ہو؟ یا پھر صاحبان اقتدار کی کرپشن کے خلاف کوئی سخت فیصلہ سنایا ہو؟ جواب نفی میں ہے۔ ان کے فیصلے صرف اور صرف اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب بات خواتین کے ’’کردار‘‘ یا ’’عزت‘‘ کی ہو۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارے صدیوں پرانے پدری نظام (Patriarchy) پر مبنی ہیں، جہاں مرد کو برتر اور عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کو صرف مردوں کی ملکیت سمجھ کر ان کی عزت و ناموس کا بوجھ بھی انہی کے کاندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ جب کوئی عورت اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرتی ہے، تو اسے ’’خاندان کی عزت‘‘ پر حملہ سمجھا جاتا ہے، اور اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے یہ جرگے اور پنچایتیں فوراً متحرک ہوجاتی ہیں۔ ان کے نزدیک عورت کی آزادی، اس کی پسند، اس کا انتخاب، یہ سب گناہ ہے۔ وہ عورت کو جائیداد سمجھتے ہیں، جسے وہ اپنی مرضی سے بیچ سکتے ہیں، تبادلہ کر سکتے ہیں، یا مار سکتے ہیں۔ پنچایت اور جرگہ کا یہ نظام خواتین کو انسان نہیں بلکہ قابلِ دست اندازی مرد ’’ایک شے‘‘ تصور کرتا ہے۔
ان جرگوں اور پنچایتوں میں شامل افراد زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو علاقائی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ وڈیرے، سردار، جاگیردار اور بااثر شخصیات۔ ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ان کے فیصلے انہی کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ عورتیں تعلیم حاصل کریں، اپنے حقوق سے آگاہ ہوں، یا معاشی طور پر خود مختار بنیں۔ کیونکہ خواتین کی آزادی ان کے روایتی اقتدار کے لیے خطرہ ہے۔ یہ سردار اور وڈیرے، بجا طور پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تعلیم اور سماجی بیداری لوگوں میں شعور پیدا کرتی ہے اور انہیں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر اکساتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جرگے کبھی بھی تعلیمی پسماندگی یا صحت کے فقدان جیسے مسائل پر بات نہیں کرتے، کیونکہ ان کے حل سے ان کے اپنے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
صاحبان اقتدار کی کرپشن پر ان جرگوں کی خاموشی بھی قابل غور ہے۔ یہ لوگ خود بھی اکثر اسی کرپٹ نظام کا حصہ ہوتے ہیں یا پھر ان کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنے مفادات حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ اس سے ان کے اپنے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ان جرگوں کی ترجیحات میں غریب عوام کے مسائل، ان کے حقوق یا عدالتی نظام کی عملداری کبھی شامل نہیں ہوتی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بارہا پنچایت اور جرگہ کے غیر قانونی ہونے اور ان کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہونے کا فیصلہ سنایا ہے۔ 2004 میں ’’مقدمہ سلیم اختر بمقابلہ ریاست‘‘ (PLD 2004 SC 676) میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر قرار دیا کہ جرگے اور پنچایتیں غیر قانونی ادارے ہیں اور ان کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ انصاف فراہم کرنے کا واحد ادارہ عدلیہ ہے اور کوئی بھی متوازی نظام عدل غیر آئینی ہے۔
اسی طرح، 2016 میں ’’مقدمہ سندھ حکومت بمقابلہ اللہ بخش‘‘ (2016 SCMR 125) میں سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ جرگے اور پنچایتیں غیر آئینی ہیں اور کسی بھی شخص کو ان کے سامنے پیش ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے واضح ہدایات جاری کیں کہ ریاستی ادارے ایسے جرگوں کے انعقاد اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کو روکیں۔ خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کے حوالے سے، سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں واضح طور پر کہا ہے کہ یہ قابل تعزیر جرائم ہیں اور ان میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔
عدالت نے حکومت کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔۔ عدالت عظمیٰ نے واضح طور پر اپنے فیصلوں میں کہا ہے کہ انصاف فراہم کرنے کا واحد ادارہ عدلیہ ہے اور کوئی بھی متوازی نظام غیر آئینی ہے۔ اور حکومت اور ریاست کو ضروری قانون سازی کرنا ہوگی
.
آخر سیاسی اور آمرانہ حکومتیں ، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟
پہلی وجہ سیاسی مصلحت پسندی ہے: ہمارے سیاستدان اکثر ان علاقوں کے سرداروں اور وڈیروں کے محتاج ہوتے ہیں جو ان جرگوں کو چلاتے ہیں۔ انہیں ان کی ووٹ بینک کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرکے اپنا سیاسی کیریئر خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ اس طرح، قانون کی حکمرانی کی بجائے، سیاسی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔
دوسری وجہ انتظامی کمزوری ہے: ریاستی ادارے، خصوصاً پولیس اور انتظامیہ، اکثر ان بااثر قبائلی سرداروں کے دباؤ میں آجاتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے کیریئر یا ذاتی تحفظ کا خوف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایسے معاملات میں اکثر سیاسی مداخلت بھی ہوتی ہے جو اداروں کو غیر فعال کر دیتی ہے۔
تیسری وجہ قانونی سقم اور اس پر عملدرآمد کی کمی ہے: اگرچہ سپریم کورٹ نے ان جرگوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی موثر اور جامع قانون سازی نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جاسکی ہیں۔ اورجو قوانین موجود ہیں، ان پر بھی عملدرآمد انتہائی کمزور ہے۔
چوتھی وجہ عوامی آگاہی کا فقدان ہے: دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ اپنے قانونی حقوق سے ناواقف ہیں۔ انہیں عدالتی نظام پر اعتماد نہیں ہوتا یا پھر وہ اسے پیچیدہ اور مہنگا سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس، جرگہ کو وہ فوری اور سستا انصاف سمجھ کر اس کا رخ کرتے ہیں۔
یہ سوچ بھی غلط ہے کہ یہ جرگے سستا انصاف فراہم کرتے ہیں۔۔ یہ تو خواتین کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر چند صاحب اقتدار یا قبیلے کے ’’طاقتور‘‘ مردوں کی انا کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
پانچویں وجہ سماجی دباؤ اور خوف ہے: اکثر لوگ، خاص طور پر خواتین، ان جرگوں کے فیصلوں کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کر پاتیں کیونکہ انہیں سماجی بائیکاٹ، تشدد یا غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ یہ خوف اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ ظلم سہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ایک کثیر جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر سختی سے عملدرآمد کروانا چاہیے اور جرگہ و پنچایت کے غیر قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے والوں کو سخت سزائیں دینی چاہئیں۔ اس کے لیے ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے جو ان غیر آئینی اداروں پر مکمل پابندی لگائے۔
دوسرا، عوامی آگاہی کی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ اپنے قانونی حقوق سے واقف ہو سکیں اور انہیں عدالتی نظام پر اعتماد ہوسکے۔ میڈیا، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
تیسرا، عدالتی نظام کو مزید موثر، سستا اور قابل رسائی بنایا جائے۔ اگر لوگوں کو فوری انصاف ملے گا تو وہ ان غیر قانونی اداروں کا رخ نہیں کریں گے۔
چوتھا، خواتین کو تعلیم، صحت اور معاشی خود مختاری کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ سکیں اور ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ جب تک خواتین خود بااختیار نہیں ہوں گی، یہ استحصال جاری رہے گا۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ پنچایت اور جرگہ صرف علاقائی رسم و رواج نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ایسا نظام بن چکے ہیں جو خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کرتا ہے۔ اس کے خلاف نہ صرف عدالتی اور حکومتی سطح پر سخت ردعمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم ایک جدید، مہذب اور آئین و قانون کی حکمرانی والی ریاست بننا چاہتے ہیں یا پھر صدیوں پرانی فرسودہ روایات کے چنگل میں پھنسے رہنا چاہتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے فیصلوں پر عملدرآمد غیرت کے نام پر قتل سپریم کورٹ نے ان کے فیصلوں عدالتی نظام خواتین کے اور ان کے ہوتے ہیں کی ضرورت ان جرگوں کرتے ہیں ہے کہ یہ کے اپنے یہ جرگے ہیں اور کے خلاف اور اس ہے اور کے لیے
پڑھیں:
جدید سیاست میں خواتین کی رول ماڈل
آزادی کے فوراً بعد بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ہندوستان کے سیاستدانوں اور سول سرونٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نیا ملک بہت اچھے طریقے سے چلانے کے لیے آپ کے کچھ رول ماڈل ہونے چاہیئیں جن کی طرزِ حکمرانی کی آپ پیروی کریں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس سلسلے میں کسی ہندو حکمران کا نام پیش نہیں کرسکتا۔
تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد میں جن دو حکمرانوں کا ذکر کرنے پر مجبور ہوں، وہ دونوں مسلمان حکمران تھے۔ ایک کا نام ابوبکر اور دوسرے کا نام عمر تھا۔ انھوں نے ایک بڑی سلطنت کے حکمران بن کر بھی جس طرح کا سادہ طرزِ زندگی اپنایا اور سرکاری فنڈز کو جس طرح امانت سمجھ کر خرچ کیا وہ آپ کے لیے ایک بہترین مثال ہے اور انھیں رول ماڈل سمجھ کر ان کی پیروی کی جانی چاہیے۔‘‘
بڑے دکھ کے ساتھ یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ آج کے جدید دور میں ہم کسی بھی مسلم حکمران کو رول ماڈل کے طور پر پیش نہیں کرسکتے، دوسرے مسلم ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص خواتین بڑی تعداد میں میدانِ سیاست میں اتری ہیں۔ اُن کے لیے اگر رول ماڈل ڈھونڈنی ہوں تو مسلم دنیا سے ملنا محال ہے کیونکہ رول ماڈل کے لیے جن دو بنیادی اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے یعنی سادگی اور ایمانداری، وہ بدقسمتی سے مسلم دنیا میں ناپید ہیں۔
اگر کسی مسلم خاتون کو موجودہ دور کی پاکستانی خواتین سیاستدانوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ صرف مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ہیں جو یقینی طور پر ایمانداری اور سادگی کا مجسّمہ تھیں اور جب قوم نے انھیں ایّوبی آمریّت سے نجات دلانے کے لیے پکارا تو انھوں نے آگے بڑھ کو آمریّت کو پوری جرأت کے ساتھ للکارا۔ مگر انھیں صدارتی الیکشن میں ریاستی مشینری کے ذریعے ہروادیا گیا تھا، اس لیے انھیں اقتدار نہ مل سکا اور قوم ان کی طرزِ حکمرانی دیکھنے سے محروم رہی۔ جدید دور میں جن دو خواتین حکمرانوں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، وہ دونوں غیر مسلم ہیں۔ ایک یورپ کے سب سے امیر ملک جرمنی کی سولہ سال تک حکمران رہیں اور دوسری ہندوستان کے صوبے بنگال کی تیسری دفعہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئی ہیں۔ دونوں کے سیاسی حریف بھی ان کی ایمانداری کے معترف ہیں جب کہ دونوں کی سادگی ضرب المثل ہے۔
سولہ سال تک جرمنی کی چانسلر رہنے والی انجیلا مرکل نے زندگی کا طویل عرصہ ایسٹ جرمنی میں گذارا۔ انھوں نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور کافی عرصے تک تدریس سے وابستہ رہیں۔ 1989میں وہ کرسچین ڈیموکریٹیک پارٹی میں شامل ہوکر میدانِ سیاست میں داخل ہوئیں اور سولہ سال بعد 2005میں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر منتخب ہوگئیں۔ انھوں نے چار انتخاب جیتے اور سولہ سال تک جرمنی کے سب سے بااختیار عہدے پر براجمان رہیں۔ چانسلر مرکل یورپ کے امیر ترین ملک کی طاقتور ترین حکمران ہونے کے باوجود نمودونمائش، پروٹوکول اور مہنگے ملبوسات سے دور رہیں۔
وہ بڑے عرصے تک ایک ہی کوٹ پہنتی رہیں۔ ایک بار ایک خاتون صحافی نے ان سے پوچھ لیا کہ ’’کیا وجہ ہے آپ ایک ہی کوٹ میں نظر آتی ہیں؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا ’’میں ایک سیاستدان ہوں کوئی ماڈل نہیں ہوں کہ ہر روز نئے اور مہنگے کپڑے پہنوں‘‘ یہ جواب دے کر انھوں نے نہ صرف میڈیا کا منہ بند کردیا بلکہ سادگی اور سادہ لباس کو سیاست اور قیادت کا بنیادی وصف قرار دے دیا۔ چانسلر مرکل اقتدار میں آنے سے پہلے جس عام سے فلیٹ میں رہتی تھیں، آج بھی اسی فلیٹ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے بذریعہ اقتدار نہ جائیدادیں بنائی ہیں، نہ ملیں لگائی ہیں نہ کسی اور ملک کے بینک میں پیسہ بھیجا ہے، نہ مہنگی گاڑیاں خریدی ہیں، نہ عزیز واقرباء کو عہدے دے کر نوازا ہے، نہ ہی کسی سرمایہ دار سے نیا بنگلہ تعمیر کرایا۔ وہ کھانا بھی خود پکاتی ہیں اور کپڑے بھی خود دھوتی ہیں اور گھر کے لیے سودا سلف (گروسری) بھی خود لاتی ہیں۔ تو ہوئی ناں وہ جدید دور کی تمام سیاستدانوں کے لیے رول ماڈل۔
دوسری رول ماڈل ممتا بیزجی ہیں جنھوں نے تیسری بار مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ بن کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ یہ بھارت کی تاریخ میں 15سال مسلسل وزیراعلیٰ رہنے والی پہلی سیاست دان ہوں گی۔ ممتا جی انڈیا کی طاقتور ترین اور دنیا کی سو بااثر ترین خواتین میں بھی شامل ہیں اور یہ دنیا کی واحد سیاست دان ہیں جو سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ گیت نگار، موسیقار، ادیب اور مصوّرہ بھی ہیں۔ یہ کئی کتابوں کی مصنّفہ اور بہت سی بیسٹ سیلر پینٹنگز کی مصوّرہ بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ممتاجی ہندوستان کی پہلی سیاست دان ہیں جنھوں نے سادگی اور غریبانہ طرزِ زندگی کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی کو شکست دے دی۔ یہ بنگال میں دیدی کہلاتی ہیں اورجدید دور میں خواتین سیاستدانوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔
ممتا بینر جی 1955 میں کولکتہ میں پیدا ہوئیں۔ والد چھوٹے سے سیاسی ورکر تھے۔ والدہ ہاؤس وائف تھیں۔ یہ چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں۔ ممتا کالج پہنچیں تو اسلامی تاریخ سے متعارف ہوئیں اور آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات میں اترتی چلی گئیں۔ یہ اکثر اپنے آپ سے سوال کیا کرتی تھیں۔ حجاز جیسے جاہل معاشرے میں ایک شخص نے انقلاب کیسے برپا کر دیا؟ انقلاب کے قائد حضرت محمدؐ 53سال کی عمر میں مکہ سے ہجرت کر گئے اور 10سال بعد یہ نہ صرف پورے حجاز کے مالک تھے بلکہ ان کے پیروکار دنیا کی دونوں سپرپاورز کے دروازے پر دستک بھی دے رہے تھے۔
آخر ان لوگوں میں کیا کمال، کیا خوبی تھی؟یہ جواب تلاش کرنا شروع کیا تو پتا چلا کہ وہ ایمانداری ور تکبّر سے پاک سادگی کے اعلیٰ نمونے تھے۔ یہ لوگ مال و متاع، عیش و آرام اور نمود و نمائش سے بالاتر تھے اور کردار کی یہ خوبیاں انسانوں کو عظیم بنا دیتی ہیں۔ ممتا بینرجی نے یہی خوبیاں اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سادگی کو اپنا ہتھیار اور زیور بنا لیا اور پھر دنیا نے یہ معجزہ بھی دیکھ لیا کہ اس نے بنگال کی طاقتور ترین پارٹیوں کو پچھاڑدیا۔
یہ 15سال کی عمر میں اسٹوڈنٹ لیڈر بنیں۔ اسلامک ہسٹری، ایجوکیشن اور قانون میں ڈگریاں لیں۔ سیاست میں آئیں اور 29سال کی عمر میں سی پی آئی ایم پارٹی کے لیڈر سومناتھ چیٹر جی کو ہرا کر پورے ہندوستان کو حیران کر دیا۔ وہ چھ بار اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ تین بار وفاقی وزیر بنیں اور پھر 2011 میں استعفیٰ دے کر صوبے کا الیکشن لڑا اور بنگال کی چیف منسٹر بن گئیں، 2021 میں وہ تیسری بار منتخب ہو گئیں۔ ممتا جی سے پہلے مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی 34 سال حکمران رہی۔ ملک کی بڑی سے بڑی سیاسی جماعت بھی کمیونسٹ پارٹی کا مقابلہ نہ کر سکی۔ مگر دیدی آئیں اور اسے ناک آؤٹ کردیا۔یہ مسلمانوں میں بھی بہت پاپولر ہیں۔ بنگال کے 30فیصد ووٹرزمسلمان ہیں اور سب انھیں ووٹ دیتے ہیں۔
اس لیے کہ وہ مسلمانوں کا احترام کرتی ہیں۔ نریندر مودی اُن کی مسلم دوستی کو ’’دشمن سے محبت‘‘ قرار دیتے ہیں اور انھیں طنزاً بیگم کہتے ہیں۔ بی جے پی نے 2021 کے الیکشن میں ممتا بینر جی کو ہرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ لیکن اس کے باوجود صرف 77 سیٹیں حاصل کر سکی جب کہ ممتا بینرجی نے 213 سیٹیں لیں۔ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں۔ ممتا بینرجی نے یہ کمال کیا کیسے؟ ان کے پاس کون سی طاقت ہے؟ اُن کے پاس ان کی سادگی کی طاقت ہے۔
وہ گیارہ سال سے 10کروڑ لوگوں کے صوبے کی حکمران ہیں۔ مگر وہ کبھی چیف منسٹر ہاؤس میں نہیں رہیں۔ کولکتہ کی ہریش چیٹرجی اسٹریٹ میں ان کا دو کمرے کا چھوٹا سا مکان ہے۔ وہ اس میں رہتی ہیں اور گھر میں کوئی ملازم بھی نہیں۔ وہ تین بار وفاقی وزیر اور دو بار چیف منسٹر رہیں۔ اس حیثیت سے انھیں دو لاکھ روپے پنشن ملتی ہے۔ آج تک انھوں نے یہ پنشن نہیں لی۔ انھوں نے آج تک وزیراعلیٰ کی تنخواہ بھی وصول نہیں کی۔ اپنے سارے اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرتی ہیں اور چائے بھی سرکاری نہیں پیتیں۔ لیکن سوال یہ ہے ان کی ذاتی جیب میں پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ان کی کتابوں اور کیسٹوں کی رائلٹی ہے۔ یہ 87 کتابوں کی مصنّفہ ہیں، جن میں سے کئی کتابیں بیسٹ سیلر ہیں۔ ان کی کیسٹس بھی بکتی ہیں۔
یوں انھیں سالانہ پانچ سات لاکھ روپے مل جاتے ہیں اور یہ ان سے اپنے تمام اخراجات پورے کر لیتی ہیں۔ ان کی پینٹنگز بھی بکتی ہیں مگر یہ رقم وہ چیریٹی میں دے دیتی ہیں۔ دوروں کے دوران ٹی اے ڈی اے بھی نہیں لیتیں اور ریسٹ ہاؤسز کے بل بھی اپنی جیب سے ادا کرتی ہیں۔ اکانومی کلاس میں سفر کرتی ہیں۔ ہمیشہ سستی سی سفید ساڑھی اور ہوائی چپل پہنتی ہیں۔ کسی شخص نے آج تک انھیں رنگین قیمتی ساڑھی اور سینڈل میں نہیں دیکھا۔ میک اپ بالکل نہیں کرتیں۔ زیور نہیں پہنتیں۔ سرکاری گاڑی بھی صرف سرکاری کاموں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا نہیں نلکے کا پانی پیتی ہیں۔ گھر کا فرنیچر بھی انتہائی پرانا اور سستا ہے۔
ممتاجی اگر سڑک پر چل رہی ہوں تو کوئی یہ اندازہ نہیں کر سکتا، ترکاری کا تھیلا اٹھا کر چلنے والی یہ خاتون 10کروڑ لوگوں کی وزیراعلیٰ ہیں۔ دنیا نے انھیں موسٹ پاور فل ویمن کی لسٹ میں شامل کر رکھا ہے اور یہ انڈیا کی آئرن لیڈی اور جمہور کی دیوی کہلاتی ہیں۔ ہماری خواتین وزیروں اور ممبرانِ اسمبلی کے لیے بلاشبہ انجیلا مرکل اور ممتابیزجی رول ماڈل کی حیثیّت رکھتی ہیں۔