’چَلو چَلو جھیل سیف الملوک چَلو‘ کاغان کے رستے 6 ماہ بعد سیاحوں کے لیے کھل گئے
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
کاغان میں واقع پاکستان کے معروف سیاحتی مقام جھیل سیف الملوک کی جانب جانے والی سڑک 6 ماہ کی بندش کے بعد سیاحوں کے لیے دوبارہ کھول دی گئی ہے۔
کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (KDA) کے حکام کے مطابق، سڑک کی بحالی کا عمل 5 روزہ بھرپور آپریشن کے بعد مکمل کیا گیا، جس کے بعد گزشتہ شب سڑک کو باقاعدہ طور پر سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: جنت نظیر جھیل سیف الملوک تباہی کے خطرے سے دوچار
سطح سمندر سے 10 ہزار 5 سو 77 فٹ کی بلندی پر واقع جھیل سیف الملوک برف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع دلکش قدرتی مقام ہے۔ اتھارٹی کے تکنیکی عملے نے بھاری مشینری کی مدد سے 13 کلومیٹر طویل سڑک کو بحال کیا۔ اس دوران 6 گلیشیئرز کاٹنے اور کئی لینڈ سلائیڈز صاف کرنے کا مشکل کام انجام دیا گیا، جس کے بعد راستہ 4×4 گاڑیوں کے لیے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: وادیِ کاغان کی سیر اور خیالی دنیا
جھیل کی جانب سفر دوبارہ ممکن ہونے کے بعد سیاح اب برف سے ڈھکی چوٹیوں اور جھیل کے پرسکون، برفیلے پانیوں کا دلفریب نظارہ کرسکیں گے۔
کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے تمام سیاحوں سے گزارش کی ہے کہ ذمہ دارانہ سیاحت کو فروغ دیں، کچرا نہ پھیلائیں، مقررہ ڈسٹ بن استعمال کریں اور کوڑا کرکٹ اپنے ساتھ لائے گئے تھیلوں میں ڈال کر ماحول کو صاف رکھیں تاکہ قدرتی خوبصورتی کو برقرار رکھا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جھیل سیف الملوک کے بعد کے لیے
پڑھیں:
سیاحوں کے پسندیدہ ترین سیاحتی مقام سیاحوں کے لئے بند کر دیئے گئے
سٹی42: سیاحوں کے پسندیدہ ترین سیاحتی مقام سیاحوں کے لئے بند کر دیئے گئے۔
بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں 50 سیاحتی مقامات سیاحوں کے لئے بندکیے گئے ہیں۔ مقامی معیشت کے لئے تباہ کن اقدام سکیورٹی ایجنسیوں کی سفارش پر کیا گیا ہے۔
پہلگام حملے کے بعد مقبوضہ وادی میں پہلے مزاحمت کی شہرت رکھنے والے بعض کشمیریوں کے گھروں کو گرایا گیا، پھر ان گھروں کو گرانے کے جابرانہ اقدام کو لے کر یہ نیریٹِو گھرا گیا کہ اب "دہشت گرد گھر گرائے جانے کا بدلہ لیں گے"، پھر اس قیاس آرائی کو لے کر درجنوں سیاحتی مقاموں پر سیاحوں کی آمد بند کروا دی گئی۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز کا راشن کارڈ پروگرام کا افتتاح
پہلگام حملے کے بعد تحفظ کے پیش نظر وادیٔ کشمیر کے حساس علاقوں میں موجود 50 تفریحی مقامات کے 50 پارکوں اور باغوں کو بند کر دیا گیا ہے۔
انڈیا کے میڈیا کی اطلاع کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس اور کانگرس کی اتحادی حکومت نے سیکوریٹی ایجنسیوں کے دباؤ پر یہ فیصلہ کیا ہے۔ ریاستی حکومت کو سکیورٹی افسروں نے منگل کو بتایا کہ پہلگام حملے کو دھیان میں رکھتے ہوئے بھی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے سیاحوں کے لیے خطرہ دیکھتے ہوئے 87 عوامی پارکوں اور باغات میں سے 48 کے گیٹ بند کر دیئے گئے ہیں۔سکیورٹی افسر وں کے مطابق سکیورٹی کا جائزہ ایک مسلسل عمل ہے اور آنے والے دنوں میں اس فہرست میں مزید مقامات جوڑے جا سکتے ہیں۔
محکمہ سکولز ایجوکیشن نے بہتر سہولیات دینے کے لیے 90 ارب روپے مانگ لیے
کشمیر میں سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں جب نریندر مودی کی مرکزی حکومت نے ہر طرف سے مخالفت کو نظر انداز کر کے مقبوضہ کشمیر کی انڈیا کے آئین میں خصوصی آزاد حیثیت کی حمانت دینے والے آرٹیکل 370 میں من چاہی ترامیم بلدوز کیں تو اس کے ساتھ وادی میں بہت بڑے پیمانہ پر قتل عام کروایا جس کے نتیجہ میں آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کرنے والے چھوٹے چھوٹے گروپ عملاً نابود ہو گئے۔ بعد کے سالوں مین کشمیر میں سیاحت ایک بار عروج کی طرف گئی جس میں نریندر مودی کی ہندوتوا پالیسی کے زیر اثر بھارتی شہریوں کا بھی کردار تھا۔ 2024 کشمیر میں سیاحت کے عروج کا سال تھا، اس سال بھی سیاحتی سرگرمیاں تیز تھیں کہ پہلگام کا سانحہ ہو گیا جس میں بیک وقت 26 سیاح قتل ہوئے۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس زندگیوں سے کھیلنے لگا؛ آوٹ ڈور کے ساتھ ان ڈور بھی ہڑتال
پہلگام واقعہ کے بعد چھ دن تک تو بھارت کی سکیورٹی ایجنسیاں سوئی رہیں، کل منگل کے روز انہوں نے کشمیر کی حکومت پر دباؤ ڈال کر درجنوں سیاحتی پارک اور باغ بند کروا دیئے۔
نریندر مودی کی مرکزی حکومت کے کنترول مینں کام کرنے والی سکیورٹی ایجنسیوں کی نئی کہانی یہ ہے کہ "پہلگام حملے کے بعد وادی میں فعال دہشت گردوں کے گھروں کو اڑانے کا بدلہ لینے کے لیے ٹی آر ٹی کے ذریعہ کچھ ٹارگیٹڈ قتل کے ساتھ ساتھ بڑے حملے کو انجام دینے کی کوشش کے بارے میں خفیہ اطلاعات مل رہی ہیں۔"
ناکام سازشوں کا اسیر بھارت
بھارتی سکیورٹی فورسز نے گلمبرگ، سونمرگ اور ڈل جھیل کے علاقوں سمیت کئی حساس سیاحتی مقامات پر پولیس کے سپیشل آپس گروپ سے "اینٹی فدائین دستوں" کو تعینات کیا ہے۔ وادی میں عمومی طور پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
انڈیا کے میڈیا نے ابھی سے بتانا شروع کر دیا ہے کہ پہلگام حملے کا اثر کشمیر کے سبھی سیکٹرز پر پڑ سکتا ہے۔ خاص کر سیاحت پر اس کا سب سے زیادہ اثر دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ وہاں پر ہوٹل، کمپنی کھولنے اور پھل کا کاروبار کرنے کا ارادہ رکھنے والے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ حالیہ حملے کے بعد کشمیر کے لوگوں کی آمدنی پر بھی اس کا گہرا اثر پڑنے کا امکان ہے۔
تصویر کا حقیقی رخ
تصویر کا حقیقی رخ یہ ہے کہ گزشتہ سال کشمیری عوام نے خواہ ان کا رجھان آزادی کی طرف تھا یا مقامی سیاست میں حصہ لینے کی طرف سب نے ایک نکتہ پر عملی ایکا کر لیا تھا کہ کشمیر کا انڈیا کے آئین میں خصوصی درجہ ختم کرنے اور کشمیر میں کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کا راستہ کھولنے والے نریندر مودی کو کشمیر کی سیاست میں سے نکالنا ہے؛ کشمیری عوام نے پہلے مئی 2024 میں لوک سبھا الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کمر توڑی پھر چھ ماہ بعد ستمبر سے ڈھائی ماہ کے عرصہ کے دوران تین مرحلوں میں ہونے والے ریاستی الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اس کی مقامی اتحادی محبوبہ مفتی کی پارٹی کا بھی پٹڑا کر ڈالا۔
تب سے اپریل 22 کو پہلگام واقعہ ہونے تک مقبوضہ کشمیر مین بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کا کوئی تذکرہ تک نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ لوگوں کا ان سے کوئی واسطہ ہی نہیں پڑ رہا تھا۔ اب اچانک نریندر مودی کی مرکزی حکومت پہلگام سانحہ کی آڑ میں ایک بار پھر بڑی قوت کے ساتھ ریاست کے انتظامی معاملات مین مداخل ہوئی ہے، وہ بھی اس طرح کہ معیشت کو سنگین نوعیت کے نقصانات پہنچانے سے ابتدا کر رہی ہے۔ ایک ہفتے میں نریندر مودی کی جنگی مشین کشمیر کے ہی عوام پر بلڈوزر دوڑا رہی ہے اور ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ درجنوں مکان گرا چکی ہے۔ نریندر مودی نے مسلمانوں کے مکان گرانے کی مکروہ سیاست اتر پردیش ریاست میں کئی سال سے چلا رکھی ہے اور اب اسے لے کر مقبوضہ کشمیر میں بھی مکان ہی گرا رہا ہے ۔
ریاستی حکومت نے دبے لفظوں میں نریندر مودی کی ریاست کے انتظامی امور میں مداخلت اور خاص طور سے آزادی کے حامیوں کو کچلنے کے لئے مکانات بلڈوزر سے گرانے اور دھماکہ خیز مواد سے اڑانے اور ہزاروں گرفتاریوں کی مذمت کرنا شروع کر دی ہے۔
بھارت میں نریندر مودی کے نیریٹِو سے متاثر نہ ہونے والا میڈیا یہ رپورٹ کر رہا ہے کہ حالیہ سالوں میں جموں و کشمیر کی اقتصادی پیش رفت مضبوط رہی ہے۔ 25-2024 کے لیے اس کی رئیل جی ایس ڈی پی 7.06 فیصد کی شرح سے بڑھنے کا امکان ہے(تھا)۔ جبکہ نامی نل جی ایس ڈی پی 2.65 لاکھ کروڑ روپے ہونے کا اندازہ ہے(تھا) جو مسلسل پیش رفت کی علامت ہے۔ 2019 اور 2025 کے درمیان مرکز کے زیر انتظام ریاست نے 4.89 فیصد کی کمپاؤنڈ سالانہ شرح نمو (CAGR) درج کی جبکہ فی شخص آمدنی مالی سال 2025 میں 1,54,703 تک پہنچنے کی امید ہے(تھی)، جو سال بہ سال 10.06 فیصد زیادہ ہے۔
جب کشمیر کے عوام نے من حیث القوم نریندر مودی کی ہندوتوا پرست سیاست کو مسترد کر ڈالا تو اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مودی اپنی ہی لائی ہوئی اقتصادی ترقی کو رول بیک کرنے کے درپے ہے۔ کشمیر میں یہ احساس ایک ہفتہ میں ابھر کر سامنے آیا ہے کہ پہلگام واقعہ کو آڑ بنا کر کشمیر میں جبر کا راج نافذ کرنے کا یہ عمل ریاست کے غیر متنازعہ طور پر پر امن عوام کو سزا دینے کے مترادف ہے۔