سیاحت کے شوقین ہو جائیں تیار! سری لنکا نے پاکستان سمیت 40 ممالک کیلیے ویزا فیس ختم کردی
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
اگر آپ سری لنکا کی خوبصورت ساحلی پٹیوں، گھنے جنگلات اور تاریخی مندروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں تو اب خوابوں کو حقیقت بنانے کا وقت آ گیا ہے اور وہ بھی بغیر ویزا فیس ادا کیے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سری لنکا نے دنیا کے 40 ممالک کے لیے ویزا فیس مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
ان ممالک میں پاکستان سمیت امریکا، برطانیہ، کینیڈا، سعودی عرب، یو اے ای اور آسٹریلیا جیسے ممالک شامل ہیں۔
سری لنکا کے وزیر سیاحت وجیتھا ہیراتھ نے بتایا کہ ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ سری لنکا دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہے۔
حکومت کو اس اقدام سے سالانہ 66 ملین ڈالر کا ممکنہ نقصان ضرور ہوگا، لیکن پالیسی سازوں کو یقین ہے کہ سیاحوں کی بڑی تعداد یہ کمی پوری کر دے گی۔
یہ اسکیم 2023 کے ایک پائلٹ پروگرام کی توسیع ہے جس میں پہلے بھارت، چین اور روس کے سیاحوں کو 30 دن کا مفت ویزا فراہم کیا گیا تھا۔
تاہم اب یہ سہولت مزید 40 ممالک تک پھیلا دی گئی ہے تاکہ سری لنکا دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مسابقتی سیاحتی دوڑ میں سبقت حاصل کرسکے۔
سری لنکا کے لیے ویزا فیس سے مستثنیٰ ممالک کی فہرست؛پاکستان کے علاوہ جن ممالک کے لیے ویزا فیس سے استثنیٰ دیا گیا ان میں درج زیل ممالک شامل ہیں۔
برطانیہ
جرمنی
نیدرلینڈز
بیلجیم
اسپین
آسٹریلیا
پولینڈ
قازقستان
سعودی عرب
متحدہ عرب امارات
نیپال
چین
بھارت
انڈونیشیا
روس
تھائی لینڈ
ملائیشیا
جاپان
فرانس
امریکا
کینیڈا
چیک جمہوریہ
اٹلی
سوئٹزرلینڈ
آسٹریا
اسرائیل
بیلاروس
ایران
سویڈن
فن لینڈ
ڈنمارک
جنوبی کوریا
قطر
عمان
بحرین
نیوزی لینڈ
کویت
ناروے
ترکی
یہ اقدام سیاحت کے فروغ، بین الاقوامی سیاحوں کو راغب کرنے اور سری لنکا کی معیشت کو سہارا دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-2
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟