وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی طرف سے حملے کا خطرہ موجود ہے، جس کے لئے فوج کی موجودگی مزید بڑھادی گئی ہے اورکچھ اسٹریٹجک فیصلے کرلئے گئے ہیں۔اگلے دوچار دن اہم ہیں انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ممکن ہے،کیونکہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے پاکستان ہائی الرٹ پر ہے اور ہم اس صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں، جب ہمارے وجود کو براہ راست کوئی خطرہ ہو۔ برطانوی خبررساں ایجنسی کو دیئے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہناتھاکہ ہم نے فورسز کی قوت میں اضافہ کر دیا ہے ہم نے اپنی تیاری کر لی ہے، کیونکہ اب یہ خطرہ بہت قریب محسوس ہو رہا ہے اس صورت حال میں کچھ اسٹریٹجک فیصلے کرنے ہوں گے اور وہ فیصلے کرلئے گئے ہیں۔بھارت کی جانب سے بیان بازی بڑھ رہی ہے اور پاکستانی افواج نے حکومت کو بھارتی حملے کے امکان سے آگاہ کیا ہے، تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ اگلے چار دن اہم ہیں خطے میں جنگ کے بادل منڈ لا رہے ہیںہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پوری طرح تیار ہیں۔ادھرایک انٹرویو دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت دونوں جانب افواج آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں ہم انتہائی درجے پر الرٹ ہیں۔
چند دن میں جنگ کا خطرہ ضرور ہے، لیکن کشیدگی کم بھی ہوسکتی ہے تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لئے تیار کھڑی ہیں۔وزیر دفاع نے انڈیا کے ساتھ کسی بھی قسم کے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطے کو مسترد کیا ہے، مگر ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کچھ لوگوں نے انڈیا اور پاکستان سے رابطہ کیا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ میرے خیال میں ابھی ان حالات میں انڈیا کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے،ان خطرناک حالات میں بھی جن گندے انڈوں نے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رکھی ہے،انہیں نرم سے نرم لفظوں میں بھی ’’نمک حرام‘‘ قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ، لمحہ فکریہ ہے کہ ،صحافی!جنگ ہوجاتی ہے تو آپ بارڈر پرجائیں گے؟شیر افضل مروت میں انگلینڈ چلاجائوں گا، آخر یہ کون لوگ ہیں ، ان کی غیرت و حمیت کہاں مر چکی؟پاکستان کا کھا کر پل بڑھ کر جوان ہوئے ،پاکستان میں رہ کر شاندار دنیاوی سٹیٹس بنایا،دونوں ہاتھوں سے خوب خوب دولت کمائی اور جب ماں دھرتی پر صیہونیوں اور صلیبوں کے تعاون سے بھارت حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے،تو یہ نمک حرام گروہ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف مورچے بنائے بیٹھا ہے،میرے نزدیک ایسے نمک حراموں کے کپڑے اتار کر انہیں بارڈر پار دھکیل دینا چاہیے ،ہر محب وطن پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ یہ وقت اپنی فورسز پہ اعتماد کرنے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا ہے، ہمارے آپس میں ہزاروں اختلافات ہو سکتے ہیں، فرقہ وارانہ بھی اور سیاسی بھی، اداروں کے ساتھ شکوے شکایتیں بھی بہت سی ہو سکتی ہیں، حکومت کے ساتھ بھی بہت سے معاملات اور مسائل ہو سکتے ہیں، لیکن یہ سارے معاملات مسائل شکوے اور شکایتیں اور ناراضگیاں آپس میں ہیں، جب دشمن سر پر چڑھ آئے، جب دشمن وطن عزیز کو تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دے ، جب دشمن پاکستانی قوم کو مٹانے کے در پہ ہو جائے تو ایسے نازک وقت میں آپس کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک مضبوط اور منظم قوم کی حیثیت سے پاک فوج کی پشت پر کھڑا ہو جانا یہ ماں دھرتی سے وفا کے عین مطابق ہے، مگر نہ جانے نمک حراموں کا یہ گروہ کس مٹی سے بنا ہوا ہے کہ جو پاکستان پر بھارتی حملے کی تیاریاں دیکھ کر بھی اپنی مسلح افواج کے خلاف ہی سوشل میڈیا پر بکے چلے جا رہا ہے۔
کشمیر سے فلسطین تک، ہنود و یہود مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں،مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کی مسجدوں ، سکولوں، کالجوں، مدرسوں، ہسپتالوں اور گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے،57اسلامی ملکوں کے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو کشمیریوں یا فلسطینیوں پہ ڈھائے جانے والے ان مظالم کو روکنے کی جرات کر سکے اور اب بھارت کا بدمعاش وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے، دونوں طرف سکیورٹی ہائی الرٹ ہے، پاکستانی فوج جنرل حافظ عاصم منیر کی قیادت میں بھارت کے ممکنہ حملے کے دفاع کے لئے پوری طرح تیار اور الرٹ ہے، کہا یہ جا رہا ہے کہ آئندہ تین چار روز اس حوالے سے بہت اہم ہیں کہ بھارت کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے ،جب یہود و ہنود پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مٹانے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو پاکستان کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو صدق دل کے ساتھ سمجھ کر عمل کرنے کی کوشش کریں کہ جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے، جسے قرآن و حدیث میں نمایاں مقام دیا گیا ہے۔ لفظ ’’جہاد‘‘ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’’کوشش کرنا‘‘یا ’’جدوجہد کرنا‘‘۔ اسلامی تعلیمات میں جہاد ایک جامع تصور ہے، جو نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ روحانی، سماجی اور انفرادی سطح پر حق کے لئے جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے۔قرآن میں جہاد کی اہمیت، قرآن مجید میں جہاد کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا ہے، جہاں اسے ایمان کا ایک لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ جہاد کی مختلف اقسام ہیں، جیسے نفس کے خلاف جہاد(جہاد بالنفس) معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد (جہاد بالعمل) اور باطل کے خلاف قتال (جہاد بالقتال)۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جہاد ایمان کی علامت ہے’’ اور جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ العنکبوت: 69) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو اللہ کی مدد اور رہنمائی نصیب ہوتی ہے۔حق و باطل کی جنگ، اور تم اللہ کے راستے میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو۔(سورہ البقرہ: 190) اس آیت میں جنگ کی اجازت صرف دفاع کے لئے دی گئی ہے اور ظلم و زیادتی سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔جہاد کی فضیلت، اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر اجر کے اعتبار سے فضیلت دی ہے۔(سورہ النسا: 95) یہ آیت بتاتی ہے کہ جہاد میں حصہ لینے والے ایمان والوں کو عظیم مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بھی جہاد کی فضیلت اور اہمیت بار بار بیان کی گئی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جہاد نہ صرف دین کی سربلندی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ فرد اور معاشرے کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کا بھی ایک ذریعہ ہے۔جہاد کو ایمان کی بلند ترین شاخ قرار دیا گیا،حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کے ستر سے زیادہ درجے ہیں اور ان میں سب سے اعلیٰ درجہ اللہ کے راستے میں جہادہے۔‘‘ (صحیح مسلم) نفس کے خلاف جہاد،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے۔‘‘(سنن ترمذی)اس حدیث میں روحانی جہاد کو اہمیت دی گئی ہے، جو انسان کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہے۔شہادت کی فضیلت،حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے والے کے لئے جنت کی بشارت ہے۔جہاد کے اصول، قرآن و حدیث میں جہاد کے لیے کچھ اصول اور شرائط بیان کیے گئے ہیں۔جہاد صرف اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہیے، نہ کہ ذاتی مفادات کے لئے،جنگ میں عام شہریوں، بچوں، عورتوں، اور غیر جنگجو افراد کو نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے۔معاہدے اور وعدے کی پابندی لازمی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اللہ کے راستے میں کے خلاف جہاد ﷺ نے فرمایا خواجہ ا صف جا رہا ہے میں جہاد کے ساتھ جہاد کی کے لئے گیا ہے ہے اور گئی ہے
پڑھیں:
قبولیت دعا: چند تقاضے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دعائوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جتنا بھی چاہیں اس کو پھیلا لیں۔ ایک ایک دعا کو‘ اس کے الفاظ کو آپ دیکھیں‘ ان میں جن چیزوں کو مانگا گیا ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بندے کو کیا ہونا چاہیے‘ کیسا بننا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی‘ کوئی لمبی چوڑی کتاب نہیں لکھی گئی‘ بلکہ چند مختصر جملوں میں دعا کے انداز میں اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کی ایک خوب صورت مثال: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہے۔ چار الفاظ کے ایک مختصر جملے میں بندگی کی پوری تعلیم دعا کے انداز میں دے دی گئی ہے۔ دعا آدمی کو یاد ہوجاتی ہے اور وہ مانگتا رہتا ہے‘ اُس کے ذریعے طلب کرتا رہتا ہے‘ سیکھتا رہتا ہے‘ ویسا بنتا رہتا ہے‘ اس طرح سے عبد‘ یعنی اس کا حقیقی و سچا بندہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ ساری دعائیں دراصل حرص بھی ہیں‘ طلب بھی ہیں اور یہ ہماری تعلیم و تربیت اور تزکیے کا ذریعہ ہیں۔
یہ وہ صفات ہیں جو دین میں مطلوب ہیں۔ اللہ کی خشیت‘ اللہ کی محبت‘ اللہ سے اپنے گناہوں پر استغفار‘ اللہ پر بھروسا کہ جو کچھ ملنا ہے اسی سے ملنا ہے‘ جو کچھ چھن جانے والا ہے وہی چھیننے والا ہے۔ جب یہ سوچ اور یہ کردار ہوگا تو دنیا میں بھی سب کچھ ملے گا‘ آخرت میں بھی جنت ملے گی اور دنیا کے اندر غلبہ بھی حاصل ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”صرف میری ہی بندگی کریں اور ذرہ برابر بھی کسی کو میرے ساتھ شریک نہ کریں”۔ اللہ نے زمین میں اپنی خلافت کا‘ زمین میں غلبے کا وعدہ انھی سے کیا ہے جنھوں نے بندگی کی نسبت اس کے ساتھ قائم کرلی‘ جو اس کے محتاج بن گئے‘ اس کے فقیر بن گئے اور صرف اسی کے دَر پر آکر کھڑے ہوگئے اور یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ملے گا صرف اللہ ہی سے ملے گا۔
اصل چیز دل ہے۔ دل کے اندر اگر یہ ساری چیزیں جمع ہوجائیں تو زندگی سدھر جائے گی‘ نہ ہوں تو نہیں سدھرے گی۔ دل کا معاملہ بھی اس نے اپنے ساتھ متعلق کرلیا ہے۔ حضورؐ کی ایک بہت پیاری دعا ہے۔
میں اپنی دعا کا آغاز اکثر اسی دعا سے کرتا ہوں:
اَللّٰھمَّ اِنَّ قُلُوْبَنَا وَنَوَاصِیَنَا وَجَوَارِحَنَا بِیَدِکَ وَلَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْھَا شَیْئًا فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ بِنَا فَکُنْ اَنْتَ وَلِیَّنَا وَاھْدِنَا اِلٰی سَوَآئِ السَّبِیْلِ – (ترمذی‘ عن ابی ہریرہ)
’’اے اللہ! ہمارے دل بھی تیرے ہاتھ میں ہیں‘ اعضا اور جوارح بھی تیرے ہاتھ میں ہیں۔ پوری شخصیت بھی تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو نے ہمیں کسی چیز پر ذرہ برابر بھی اختیار نہیں دیا ہے۔ جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا تو تو ہی ہمارا ولی بن جا‘ دوست بن جا‘ ہمارا رفیق بن جا‘ ہمارا مددگار بن جا۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ ۔
دیکھیے‘ کس طرح دل کا معاملہ بھی اللہ کے سپرد کر دیا گیا!
دعا کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں۔ دعا مانگنے کا‘ اگر ذوق و شوق ہو‘ توجہ و یکسوئی اور پورے یقین کے ساتھ دعا مانگی جائے خواہ اُردو میں ہو یا پنجابی میں‘ خواہ پشتو میں ہو یا کسی بھی زبان میں‘ دل کی یہ پکار‘ زبان پہ آئے یہ کلمے بارگاہِ الٰہی تک پہنچتے ہیں اور اپنا اثر رکھتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ‘ بندگی کا‘ حاجت کا‘ فقر کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔ یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ بے نیاز ہے‘ ہم فقیر ومحتاج ہیں‘ اس کے در کے بھکاری ہیں۔ جو کچھ بھی چاہیے‘ خواہ جوتے کا تسمہ ہی ہو‘ اسی سے مانگنا چاہیے۔ ہدایت و غلبہ بھی اُسی سے مانگنا ہے۔ فتح و نصرت بھی اسی سے ملنا ہے۔ یہ وہ چیزہے جو اللہ کی یاد کو‘ اللہ کے ساتھ تعلق کو دل کے اندر راسخ کر دیتی ہے۔ ہم دعوت یا اپنے ذاتی یا دنیاوی کام کے لیے نکلیں‘ گھر سے نکلیں‘ کھانے کے لیے بیٹھیں اٹھیں۔ ہر موقع پر اللہ کو یاد کریں اور صرف اسی سے مانگیں۔ جیسے جیسے یہ اخلاص پیدا ہوتا جائے گا کہ جو کچھ ملے گا اللہ ہی سے ملے گا کہیں اور سے کچھ نہیں ملے گا‘ نہ بندوں سے ملے گا‘ نہ اپنی کوششوں سے اور نہ عوامی تائید سے‘ بلکہ جو کچھ بھی ملے گا وہ اللہ ہی سے ملے گا۔ جتنا زیادہ اخلاص پیدا ہوگا اتنا ہی اور ملے گا۔ جتنی نسبتیں دوسروں سے قائم ہوں گی‘ اتنا ہی کم ملے گا اور اتنی ہی مایوسیاں ہوں گی۔ اللہ ہی سے ملنے کا‘ اللہ ہی سے پانے کا‘ اللہ ہی سے طلب کرنے کا یہ انداز‘ دعا ہمیں سکھاتی ہے۔
دعا عبادت کا مغز ہے‘ خدا کی بندگی ہے‘ اور یہی روحِ عبادت ہے۔ اسی لیے قرآن یَدْعُوْنَ وَیَعْبُدُوْنَ ان دونوں الفاظ کو بدل بدل کے ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتا ہے اور آخر میں کہتا ہے: ’’مجھ سے مانگو‘ مجھے پکارو‘ میں تمھیں دوں گا اور تمھاری پکار کو قبول کروں گا‘‘۔ مزید فرمایا: ’’جو لوگ گھمنڈ میںآکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘ (المومن: 60)۔ اب یہاں فوراً اسی آیت کے اندر دعا کی جگہ عبادت کا لفظ آگیا کہ جو لوگ میری عبادت سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے ہیں وہی تکبر کرنے والے ہیں اور جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ یہاں دعا کے لفظ کو عبادت کے لفظ سے بدل دیا گیا‘ یہ بتانے کے لیے کہ اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔