Daily Ausaf:
2025-05-01@11:56:16 GMT

سبیلناسبیلنا الجہاد الجہاد

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی طرف سے حملے کا خطرہ موجود ہے، جس کے لئے فوج کی موجودگی مزید بڑھادی گئی ہے اورکچھ اسٹریٹجک فیصلے کرلئے گئے ہیں۔اگلے دوچار دن اہم ہیں انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ممکن ہے،کیونکہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے پاکستان ہائی الرٹ پر ہے اور ہم اس صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں، جب ہمارے وجود کو براہ راست کوئی خطرہ ہو۔ برطانوی خبررساں ایجنسی کو دیئے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہناتھاکہ ہم نے فورسز کی قوت میں اضافہ کر دیا ہے ہم نے اپنی تیاری کر لی ہے، کیونکہ اب یہ خطرہ بہت قریب محسوس ہو رہا ہے اس صورت حال میں کچھ اسٹریٹجک فیصلے کرنے ہوں گے اور وہ فیصلے کرلئے گئے ہیں۔بھارت کی جانب سے بیان بازی بڑھ رہی ہے اور پاکستانی افواج نے حکومت کو بھارتی حملے کے امکان سے آگاہ کیا ہے، تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ اگلے چار دن اہم ہیں خطے میں جنگ کے بادل منڈ لا رہے ہیںہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پوری طرح تیار ہیں۔ادھرایک انٹرویو دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت دونوں جانب افواج آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں ہم انتہائی درجے پر الرٹ ہیں۔
چند دن میں جنگ کا خطرہ ضرور ہے، لیکن کشیدگی کم بھی ہوسکتی ہے تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لئے تیار کھڑی ہیں۔وزیر دفاع نے انڈیا کے ساتھ کسی بھی قسم کے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطے کو مسترد کیا ہے، مگر ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کچھ لوگوں نے انڈیا اور پاکستان سے رابطہ کیا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ میرے خیال میں ابھی ان حالات میں انڈیا کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے،ان خطرناک حالات میں بھی جن گندے انڈوں نے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رکھی ہے،انہیں نرم سے نرم لفظوں میں بھی ’’نمک حرام‘‘ قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ، لمحہ فکریہ ہے کہ ،صحافی!جنگ ہوجاتی ہے تو آپ بارڈر پرجائیں گے؟شیر افضل مروت میں انگلینڈ چلاجائوں گا، آخر یہ کون لوگ ہیں ، ان کی غیرت و حمیت کہاں مر چکی؟پاکستان کا کھا کر پل بڑھ کر جوان ہوئے ،پاکستان میں رہ کر شاندار دنیاوی سٹیٹس بنایا،دونوں ہاتھوں سے خوب خوب دولت کمائی اور جب ماں دھرتی پر صیہونیوں اور صلیبوں کے تعاون سے بھارت حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے،تو یہ نمک حرام گروہ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف مورچے بنائے بیٹھا ہے،میرے نزدیک ایسے نمک حراموں کے کپڑے اتار کر انہیں بارڈر پار دھکیل دینا چاہیے ،ہر محب وطن پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ یہ وقت اپنی فورسز پہ اعتماد کرنے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا ہے، ہمارے آپس میں ہزاروں اختلافات ہو سکتے ہیں، فرقہ وارانہ بھی اور سیاسی بھی، اداروں کے ساتھ شکوے شکایتیں بھی بہت سی ہو سکتی ہیں، حکومت کے ساتھ بھی بہت سے معاملات اور مسائل ہو سکتے ہیں، لیکن یہ سارے معاملات مسائل شکوے اور شکایتیں اور ناراضگیاں آپس میں ہیں، جب دشمن سر پر چڑھ آئے، جب دشمن وطن عزیز کو تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دے ، جب دشمن پاکستانی قوم کو مٹانے کے در پہ ہو جائے تو ایسے نازک وقت میں آپس کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک مضبوط اور منظم قوم کی حیثیت سے پاک فوج کی پشت پر کھڑا ہو جانا یہ ماں دھرتی سے وفا کے عین مطابق ہے، مگر نہ جانے نمک حراموں کا یہ گروہ کس مٹی سے بنا ہوا ہے کہ جو پاکستان پر بھارتی حملے کی تیاریاں دیکھ کر بھی اپنی مسلح افواج کے خلاف ہی سوشل میڈیا پر بکے چلے جا رہا ہے۔
کشمیر سے فلسطین تک، ہنود و یہود مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں،مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کی مسجدوں ، سکولوں، کالجوں، مدرسوں، ہسپتالوں اور گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے،57اسلامی ملکوں کے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو کشمیریوں یا فلسطینیوں پہ ڈھائے جانے والے ان مظالم کو روکنے کی جرات کر سکے اور اب بھارت کا بدمعاش وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے، دونوں طرف سکیورٹی ہائی الرٹ ہے، پاکستانی فوج جنرل حافظ عاصم منیر کی قیادت میں بھارت کے ممکنہ حملے کے دفاع کے لئے پوری طرح تیار اور الرٹ ہے، کہا یہ جا رہا ہے کہ آئندہ تین چار روز اس حوالے سے بہت اہم ہیں کہ بھارت کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے ،جب یہود و ہنود پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مٹانے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو پاکستان کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو صدق دل کے ساتھ سمجھ کر عمل کرنے کی کوشش کریں کہ جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے، جسے قرآن و حدیث میں نمایاں مقام دیا گیا ہے۔ لفظ ’’جہاد‘‘ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ’’کوشش کرنا‘‘یا ’’جدوجہد کرنا‘‘۔ اسلامی تعلیمات میں جہاد ایک جامع تصور ہے، جو نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ روحانی، سماجی اور انفرادی سطح پر حق کے لئے جدوجہد کا احاطہ کرتا ہے۔قرآن میں جہاد کی اہمیت، قرآن مجید میں جہاد کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا ہے، جہاں اسے ایمان کا ایک لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ جہاد کی مختلف اقسام ہیں، جیسے نفس کے خلاف جہاد(جہاد بالنفس) معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد (جہاد بالعمل) اور باطل کے خلاف قتال (جہاد بالقتال)۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جہاد ایمان کی علامت ہے’’ اور جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم انہیں اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ العنکبوت: 69) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو اللہ کی مدد اور رہنمائی نصیب ہوتی ہے۔حق و باطل کی جنگ، اور تم اللہ کے راستے میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو۔(سورہ البقرہ: 190) اس آیت میں جنگ کی اجازت صرف دفاع کے لئے دی گئی ہے اور ظلم و زیادتی سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔جہاد کی فضیلت، اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر اجر کے اعتبار سے فضیلت دی ہے۔(سورہ النسا: 95) یہ آیت بتاتی ہے کہ جہاد میں حصہ لینے والے ایمان والوں کو عظیم مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بھی جہاد کی فضیلت اور اہمیت بار بار بیان کی گئی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جہاد نہ صرف دین کی سربلندی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ فرد اور معاشرے کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کا بھی ایک ذریعہ ہے۔جہاد کو ایمان کی بلند ترین شاخ قرار دیا گیا،حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کے ستر سے زیادہ درجے ہیں اور ان میں سب سے اعلیٰ درجہ اللہ کے راستے میں جہادہے۔‘‘ (صحیح مسلم) نفس کے خلاف جہاد،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے۔‘‘(سنن ترمذی)اس حدیث میں روحانی جہاد کو اہمیت دی گئی ہے، جو انسان کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہے۔شہادت کی فضیلت،حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے والے کے لئے جنت کی بشارت ہے۔جہاد کے اصول، قرآن و حدیث میں جہاد کے لیے کچھ اصول اور شرائط بیان کیے گئے ہیں۔جہاد صرف اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہیے، نہ کہ ذاتی مفادات کے لئے،جنگ میں عام شہریوں، بچوں، عورتوں، اور غیر جنگجو افراد کو نقصان پہنچانے کی ممانعت ہے۔معاہدے اور وعدے کی پابندی لازمی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اللہ کے راستے میں کے خلاف جہاد ﷺ نے فرمایا خواجہ ا صف جا رہا ہے میں جہاد کے ساتھ جہاد کی کے لئے گیا ہے ہے اور گئی ہے

پڑھیں:

آخر زمانے کی نشانی‘ علمائے حق کا ناپید ہو جانا

زمانہ جس طرف بڑھ رہا ہے، وہی کچھ ظاہر ہو رہا ہے جس کی خبر نبی آخر الزمان ﷺ نے دی تھی۔علم کی روشنی ماند پڑتی جا رہی ہے اور علمائے سو کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ایسے میں علمائے حق کی پہچان اور علمائے سو سے بچائو ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
نبی کریم ﷺ کی پیش گوئیاں‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں کے دلوں سے اچانک نہیں نکالے گا، بلکہ علم کو علماء کے اٹھا لیے جانے سے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنائیں گے، وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔(صحیح بخاری، حدیث: 100)
اور فرمایا:قیامت کے قریب علم اٹھ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، زنا عام ہو جائے گا اور شراب نوشی کھلم کھلا ہوگی۔(صحیح بخاری، حدیث: 81)
آخری زمانے میں علمائے سو کی صفات‘ نبیﷺ نے خصوصی طور پر آخری دور کے علما ء کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا: آخر زمانے میں کچھ لوگ آئیں گے، ان کی داڑھیاں لمبی ہوں گی، ان کے الفاظ میٹھی زبان سے نکلیں گے لیکن ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں جائے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔(صحیح بخاری، حدیث: 6930؛ صحیح مسلم، حدیث: 1066)
اور فرمایا:آسمان کے نیچے ان سے بدتر کوئی مخلوق نہ ہو گی۔(مسند احمد، حدیث: 13505)
علمائے سو کے نمایاں اہداف‘دنیاوی مال و دولت کا حصول۔اقتدار، سیاست اور شہرت کی طلب۔دین کو دنیاوی مفادات کے لیے استعمال کرنا۔دکھاوا، ریاکاری اور عوام کی خوشنودی کی کوشش۔
قرآن فرماتا ہے:وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکہ دیا۔(سورہ الاعراف، 7:51)
علمائے حق: اللہ کے حقیقی نمائندے ‘علمائے حق وہ ہیں جواپنے علم کو خالص اللہ کی رضا کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کی محبت سے آزاد ہوتے ہیں۔ اللہ کا خوف اور آخرت کی فکر رکھتے ہیں۔
قول و فعل میں سچے اور مخلص ہوتے ہیںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ (سورۃ فاطر، 35:28)
نبی ﷺ نے فرمایا:سب سے بہتر تم میں سے وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
(صحیح بخاری، حدیث: 5027)
بزرگانِ دین کی روشنی میں۔امام غزالی فرماتے ہیں:علم بغیر عمل کے وبال ہے، اور عمل بغیر اخلاص کے مردہ ہے۔(احیاء علوم الدین)
امام ابن قیم لکھتے ہیں:علم کی تین قسمیں ہیں۔-1 زبان کا علم: محض حجت کے لیے۔ -2دل کا علم: نجات کے لیے۔-3 دنیا کا علم: بربادی کے لیے(مدارج السالکین)
امام نووی کہتے ہیں‘علم وہی مفید ہے جو عاجزی اور خوفِ خدا پیدا کرے، ورنہ وہ غرور کا سبب بنتا ہے۔(شرح صحیح مسلم)
مولانا روم کا روحانی پیغام‘ مولانا جلال الدین رومی علم اور عمل کے فرق کو یوں بیان کرتے ہیں:علم برائے عشق نہ ہو تو جہالت ہے، علم اگر دل میں اللہ کی طلب پیدا نہ کرے تو وبال ہے۔
ان کا مشہور شعر:علم از عشق آموز، نہ از حرف و صوت عشق زندہ کند مردہ و بخشد ثبوت۔
ترجمہ:علم عشق سے سیکھو، نہ کہ صرف الفاظ اور آوازوں سے؛عشق ہی مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور حقیقت عطا کرتا ہے۔
آخری زمانے کے دیگر فتنوں کے ساتھ تعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:دجل، فریب، دھوکہ بازی عام ہو جائے گی۔ علماء بددیانت ہو جائیں گے۔ لوگ ان کی خوشامد کریں گے اور انہیں راہبر سمجھیں گے، حالانکہ وہ حق سے کوسوں دور ہوں گے۔(مستدرک حاکم، حدیث: 8437)
یہ فتنہ دجال کی آمد، علمائے سو کا فتنہ، اور دین کا دنیا کے تابع ہو جانا سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
دعا: نبی اکرم ﷺ کی زبانِ اقدس سے‘ اے اللہ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو فائدہ نہ دے، اور ایسے دل سے جو جھکنے والا نہ ہو، اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔(صحیح مسلم، حدیث: 2722)
خلاصہ اور اہم نصیحت۔علم برائے دنیا انسان کو تباہی میں ڈالتا ہے۔علمائے حق اللہ کے بندے ہوتے ہیں، دنیا کے نہیں۔علمائے سو دین کا لبادہ اوڑھ کر دنیا کے غلام ہوتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ علمائے حق کو پہچانیں، ان کے ساتھ رہیں اور علمائے سو سے دور رہیں۔
قرآن کی نصیحت:اور کہو: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔(سورۃ طہ، 20:114)
آخر میں ایک دعا اور نصیحتی شعر۔ اے اللہ! ہمیں علم نافع عطا فرما، عمل صالح کی توفیق دے،علمائے حق کی صحبت نصیب کر، اور علمائے سو کے شر سے محفوظ رکھ۔
مولانا روم کے الفاظ میں:علم ہو، عشق ہو، عمل ہو تو بندہ حق ہو؛ ورنہ علم کے بغیر عشق کے،ہزار سال کا عالم بھی شیطان کا قیدی ہے۔اس فتنہ کے دور میں بچنے کا حل سورہ انفال کی آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان پر عذاب کرے جبکہ وہ استغفار کرتے ہوں۔لہٰذا استغفار کو اپنا ہمہ وقت معمول بنا لیں۔یہ نہ صرف آخری زمانے کے فتنوں سے بچنے کی خدائی ضمانت ہے بلکہ سورہ ہود اور سورہ نوح کی آیات کے مطابق ہمارے تمام مسائل کا حل، ضروریات و حاجات کی تکمیل اور ہر شر و مصیبت سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہے۔دعا:اے ہمارے رب! ہمیں استغفار کرنے والوں اور سحر کے وقت استغفار کرنے والوں میں شامل فرما۔ آمین۔

متعلقہ مضامین

  • جیسی روح ویسے ہی فرشتے
  • آخر زمانے کی نشانی‘ علمائے حق کا ناپید ہو جانا
  • اگلے 36 گھنٹے اہم، بھارت کی کسی مہم جوئی کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا: عطا اللہ تارڑ
  • وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثناء اللہ خان سے امریکی سفارتخانے کے سیاسی مشیر زیک ہارکن رائیڈر کی ملاقات
  • رانا ثنا اللہ سے امریکی عہدیدار کی ملاقات، علاقائی سلامتی اور اسٹریٹجک مفادات سے متعلق بات چیت۔
  • ہر کمال کو زوال ہے
  • نا ممکن کچھ بھی نہیں
  • انڈیا کی طرف سے پاکستان پر حملے کا امکان صفر ہے، رانا ثنا اللہ
  • اسلامی شعائر اور انکا تحفظ