رکن پارلیمنٹ نے دیگر ریاستوں میں کشمیری طلبہ اور یہاں کے تاجرین کو اترپردیش، پنجاب، دہلی اور ہماچل پردیش سمیت کئی ریاستوں میں ہراساں کئے جانے کی خبروں پر بھی تشویش ظاہر کی۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی پارلیمنٹ میں ایک اجلاس کے دوران سرینگر سے منتخب رکن پارلیمان آغا سید روح اللہ مہدی نے جموں و کشمیر میں شہریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پہلگام حملے کے بعد کشمیری عوام کو غیر ضروری سکیورٹی جانچ، اندھا دھند گرفتاریوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آغا سید روح اللہ مہدی کی یہ تقریر اُس وقت سامنے آئی جب ایوان میں "آپریشن سندور" پر بحث جاری تھی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ریاستی اداروں کی کارروائیاں غیر متناسب اور ماضی کے پلوامہ اور اُوڑی حملوں کے بعد کے اقدامات کی یاد دلاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام نے پہلگام حملے کی واضح اور اجتماعی مذمت کی، بازار بند ہوئے، وادی سوگوار رہی اور ہر طبقے نے دہشت گردی کی مخالفت کی، تاہم اس کے باوجود مقامی لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

آغا سید روح اللہ مہدی کے مطابق حملے کے بعد تقریباً 2000 افراد کو حراست میں لیا گیا اور متعدد مکانات کو قانونی کارروائی کے بغیر منہدم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی کارروائیاں انصاف کے تقاضوں اور جمہوری اصولوں کے منافی ہیں۔ علاوہ ازیں آغا سید روح اللہ مہدی نے دیگر ریاستوں میں کشمیری طلبہ اور یہاں کے تاجرین کو اترپردیش، پنجاب، دہلی اور ہماچل پردیش سمیت کئی ریاستوں میں ہراساں کئے جانے کی خبروں پر بھی تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں سوال کیا کہ کیا یہ کارروائیاں آئین کے تحت برابر کے شہری ہونے کے اصول پر پورا اترتی ہیں یا تعصب پر مبنی ہیں۔ ان کی تقریر کے دوران کئی ارکان نے بار بار مداخلت کی، تاہم انہوں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے حکومت سے قانون کی بالادستی، شفافیت، اور کشمیری شہریوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آغا سید روح اللہ مہدی ریاستوں میں انہوں نے کے بعد

پڑھیں:

تہجد کا انعام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

رات کے گھپ اندھیروں میں جب پورا عالم محوِ استراحت ہوتا ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہوتا ہے‘ انسان‘ چرند‘ پرند‘ درند‘ غرض ہر مخلوق اپنے آشیانے میں دبکی پڑی ہوتی ہے کہ کچھ دیوانے نرم و گرم بستر چھوڑ کر محبوب حقیقی کی محبت سے سرشار یکلخت اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ برگزیدہ مخلوق ہے جس کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے معمور ہیں۔ یہ لوگ زمین کی کور باطن مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل مگر آسمانی مخلوق کے سامنے روشن اور تابناک یوں جگمگاتے ہیں‘ جیسے زمین والوں کی نظر میں تارے۔ ان کے دلوں میں ایک سوز ہوتا ہے‘ ایک درد ہوتا ہے‘ جو ہر دم انھیں بے کل اور بے چین رکھتا ہے۔ ان کو اگر کوئی دھن ہے تو ایک ہی‘ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے۔
رات کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے‘ تمام دنیا خوابِ غفلت میں مدہوش ہے اور یہ عاشق اپنے محبوب کے سامنے جھولی پھیلائے اس سے محبت کی بھیک مانگ رہے ہیں‘ آنسو بہا رہے ہیں۔ ادھر آسمانوں پر رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں‘ حورانِ بہشت اپنی غمگین آواز میں ان کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں: کوئی ہے جو ہمیں حاصل کرے۔ لیکن ان کی نگاہ ’یک بین‘ حوروں پر بھی نہیں پڑتی۔ ان کا منتہاے مقصود تو محبوب حقیقی کا وصال اور اس کی رضاجوئی ہے۔

اب رات کا آخری پہر ہے‘ رحمتوں کی موسلادھار بارش شروع ہوچکی ہے‘ اللہ سوال کرنے والوں کو عطا فرما رہے ہیں‘ اعلان ہو رہا ہے: مانگو! کیا مانگتے ہو؟ جو مانگو گے عطا ہوگا۔ پھر رضاے الٰہی کے پروانے جاری ہونے لگتے ہیں۔ یہی ان کا مقصد حیات اور یہی ان کی معراج ہے‘ جس کی خاطر یہ روزانہ اپنے نرم نرم بستر اور میٹھی میٹھی نیند قربان کرکے اُٹھ بیٹھتے ہیں‘ اور دربارِ الٰہی میں پروانہ وار حاضر ہوجاتے ہیں۔ ان کے اسی حال کو شاعرمشرق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
واقف ہو اگر لذتِ بیداریِ شب سے
اُونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پُراسرار
ان سعید روحوں کی سعادت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ قرآن مجید میں فرما رہا ہے‘ فرمایا:
”ان کے پہلو خواب گاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں‘ اس طور پر کہ وہ ا پنے رب کو (ثواب کی) امید اور (عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں (السجدہ: 16)“۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کھپانے والے ان جواں ہمت لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں انعام و اکرام کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمھارے ناقص تصور اور تخیل سے بالا ہے:
”پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی تنفس کو خبر نہیں ہے (السجدہ: 17)“۔
یہاں ان لوگوں کا انعام واضح طور پر بیان نہیں فرمایا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گی ہے جس کو کوئی نفس نہیں جانتا۔ انعام کے اس اخفا میں اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے‘ نیز اس اخفا سے ان لوگوں کو شوق دلانا مقصود ہے جو اس عظیم عمل سے محروم ہیں۔
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ حضوؐر اور حضورؐ کے واسطے سے اُمت کو تہجد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے‘ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کردے (بنی اسرائیل: 79)“۔
مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آپؐ کو اوّل نماز تہجد کا حکم دیا گیا اور پھر مقامِ محمود‘ یعنی شفاعت کبریٰ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد کو مقامِ شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے (معارف القرآن)۔

اسی طرح متعدد احادیث میں بھی نماز تہجد کی فضیلت وارد ہے۔ حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے: ”اے لوگو! سلام پھیلائو اور کھانا کھلائو اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو۔ (اگر ایسا کرو گے) تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے (ترمذی)“۔
عام طور پر لوگ ان اعمال کو بالکل معمولی سمجھتے ہیں لیکن قدر شناسوں سے پوچھیے کہ یہ کیسی دولتِ بے بہا اور انمول خزانے ہیں اور پھر ان پر کوئی زیادہ محنت بھی خرچ نہیں ہوتی‘ بس ذرا سی ہمت چاہیے۔ خود حضور علیہ السلام کی شان یہ تھی کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ تہجد میں قیام کرتے کرتے آپؐ کے پائوں میں پھٹن آجاتی تھی۔ آگے چل کر فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ آپؐ کے لیے بخشش لکھ دی گئی ہے۔ پھر آپؐ کیوں اتنی مشقت برداشت فرماتے ہیں تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟
یہ اس ذات اقدس کا حال ہے جس کے لیے سب سے پہلے جنت میں داخلے کا وعدہ ہے۔ ایک ہم ہیں کہ گناہوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں‘ پھر بھی آخرت کی فکر نہیں‘ اعمال کا شوق نہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو جنت کا طلب گار نہ ہوگا لیکن کبھی ہم نے اپنے اعمال کا موازنہ کیا؟ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ہمیں جنت کا حق دار ثابت کرسکیں؟ کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی راتیں نورانی ہیں اور کیا سعادت مند ہیں وہ نوجوان جو اس جوانی میں لذتِ بیداریِ شب سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان روزِ قیامت ربِ ذوالجلال کے عرش تلے ہوںگے جس دن اس کے عرش کے سوااور کوئی سایہ نہ ہوگا۔
جنید بغدادیؒ کی وفات کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور ان سے ان کا حال دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’عبارات اُڑ گئیں‘ اشارات سب فنا ہوگئے اور ہمیں نفع نہیں دیا مگر ان چند رکعات نے جو ہم نے آدھی رات میں ادا کی تھیں (تفسیر عزیزی)‘‘۔

صدہزار آفرین ان لوگوں پر جو راتوں کو اُٹھتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ رازو نیاز میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو اوج ثریا پر پہنچتے ہیں‘ ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور زمانے میں علم و حکمت کا آفتاب بن کر چمکتے ہیں کہ جس کی ضیاپاشیوں سے ایک عالم منور ہوتا ہے۔ افسوس صدافسوس ہم پر کہ دن رات ہم جن مقدس ہستیوں کا نام لیتے ہیں اور ان کے مراتب تک پہنچنے کے لیے آہیں بھرتے ہیں‘ ان کی زندگی کے عملی گوشے کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ آج بھی ہم ان جیسا اخلاص و عمل اپنے اندر پیدا کرلیں تو ہم میں بھی رومی‘ رازی و غزالی پیدا ہوسکتے ہیں۔ آج بھی عقل کو خیرہ کرنے والی علمی و اصلاحی خدمات دوبارہ وجود میں آسکتی ہیں‘ لیکن اس کے لیے اسلاف کی طرح ہمیں بھی بیداریِ شب سے آشنا ہونا پڑے گا‘ راتوں کو نیند قربان کرنا پڑے گی‘ سوز دروں بیدار کرنا پڑے گا۔ بقول شاعر ؎
تو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی اور ان کے اعمال کو اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین۔

مولانا حماد اللہ گلزار

متعلقہ مضامین

  • بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • بھارت میں کشمیریوں کی نسل کشی انتہا کو پہنچ گئی،کشمیر  کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدرآصف علی زرداری
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • سرگودھا: 15 سالہ طالبہ سے 16 ماہ تک 5 ملزمان کی مبینہ زیادتی
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
  • حریت کانفرنس کی طرف سے دو کشمیری ملازمین کی جبری برطرفی کی شدید مذمت
  • مہدی جو کی گرفتاری صدر کے دورہ گلگت بلتستان کو ثبوتاژ کرنے کی سازش ہے، بشارت ظہیر
  • گورنر گلگت بلتستان کا فیس بک پیج ڈیلیٹ کروانے کے الزام میں سابق ترجمان گرفتار
  • تہجد کا انعام