Express News:
2025-11-03@03:23:50 GMT

بیگم شائستہ اکرام اللہ

اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT

 میری یہ تحریر اس شخصیت سے متعلق ہے جس کے بارے میں ہماری نئی نسل کے لوگ بہت ہی کم جانتے ہیں یا جانتے بھی ہوں گے تو نام کی حد تک، میں یہاں ذکر کر رہا ہوں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ایشیائی، مسلم خاتون ایک نام ور ادیبہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب رہنے والی بیگم شائستہ اکرام اللہ  کا۔

 تحریک پاکستان کی مشہور خاتون راہ نما، سفارت کار اور معروف ادیبہ بیگم ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ  22جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا پورا نام شائستہ اختر بانو سہروردی تھا جو کہ تحریک پاکستان کے معروف بنگالی راہ نما اور سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروری کی بھانجی تھیں۔ ان کے والد حسان سہروردی برطانوی وزیرہند کے مشیر تھے۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  ایک مذہبی سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں جو ایک قدامت پرست خاندان تھا اور اسے اپنی قدامت پرستی پر ناز تھا جہاں لڑکوں کی انگریزی تعلیم کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا۔ ایسے میں لڑکیوں کی انگریزی اور جدید تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  نے اپنی ابتدائی تعلیم کلکتہ کی ایک نجی درس گاہ کنڈر گارٹن اسکول سے حاصل کی جہاں ان کے اور ان کے بھائی کے سوا سب بچے انگریز یا اینگلو انڈین تھے۔

انہوں نے اپنے والد حسان سہروردی کے زیراثر انگریزی جب کہ والدہ شہر بانو بیگم کی وجہ سے فارسی اور اردو کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی حاصل کی۔

شائستہ اکرام اللہ  نے کلکتہ یونیورسٹی کے لوریٹو ہاؤس کونونٹ سے بی اے آنرز کا امتحان پاس کیا۔ جس کے بعد 1932ء میں ان کی شادی انڈین سول سرونٹ اکرام اللہ  سے ہوئی جو کہ جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے پہلے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسی دوران ان کو انگلینڈ جانے کا موقع ملا جہاں سے انہوں نے1940 میں یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

پی ایچ ڈی میں ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع ’’ اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری ‘‘تھا۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کرنے والے پہلی ایشیائی اور مسلم خاتون تھیں۔

 بیگم شائستہ اکرام اللہ  شادی سے پہلے ہی شائستہ اختر سہروردی کے نام سے افسانہ لکھا کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنی تحریری زندگی کی ابتدا دلی سے شایع ہونے والے مشہور رسالے ’’عصمت ‘‘ سے کی اور ان کے افسانے اس زمانے کے اہم ادبی جرائد ہمایوں، ادبی دنیا، تہذیب نسواں اور عالمگیر وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔

یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شائستہ اکرام اللہ  1940 میں واپس ہندوستان لوٹیں، تب تک برطانوی ہند کی صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی۔ یہ دنیا میں جنگ عظیم دوئم اور ہندوستان میں سیاسی بے چینی اور افراتفری کا زمانہ تھا، جہاں آل انڈیا مسلم لیگ، قائداعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی جیسے سرکردہ راہ نماؤں کی قیادت میں تحریک پاکستان پورے عروج پر تھی۔

برطانیہ سے واپسی کے بعد انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں بھی فعال حصہ لیا۔ اس کے بعد جلد ہی آپ بنگال لیجسلیٹیو اسمبلی کی رکن بن گئیں۔ اپنی علمی اور سیاسی فہم و فراست کی بدولت وہ محترمہ فاطمہ جناح کے قریب ہوگئیں اور بعد میں انہی کی مدد سے مسلم ویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور مسلم لیگ کی سیاست میں بھرپور طور پر حصہ لیا۔

اپنے خاندانی پس منظر، اعلیٰ تعلیم اور سیاست پر گہری نظر کے سبب وہ فوراً ہی مسلم لیگ کے اہم اراکین میں شمار ہونے لگیں۔

1946 میں جب ہندوستان کی دستورساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو وہ دستورساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئیں۔ تاہم بعد میں انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا تھا۔

1947 میں قیام پاکستان کے بعد وہ ڈھاکا سے کراچی تشریف لے آئیں۔ اس وقت ملک اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا تھا جہاں ایک طرف مہاجرین کا سیلاب اُمڈ آیا تھا، ریاست کو جن کی آبادکاری کی مشکل درپیش تھی، وہیں دوسری طرف نوزائیدہ مملکت کو سیاسی افراتفری، عوام میں بے چینی اور زبوں حال معیشت جیسے سنگین مسائل کا سامنا تھا۔ اس دوران انہوں نے محترم فاطمہ جناح، جہاں آراء شاہنواز اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا۔

پاکستان کے ابتدائی دنوں اور ان مشکلات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خودنوشت میں ذکر کیا ہے کہ اُن دنوں حکومت پاکستان کو بنے مشکل سے ایک مہینہ ہوا تھا اور وہ جو کچھ کرسکتی تھی کررہی تھی، جب کہ اس کام میں ان کے علاوہ متعدد عورتوں نے حصہ لیا، جن میں ایسی کئی خواتین تھیں جنھوں نے کبھی کسی قسم کا کام نہیں کیا تھا۔ ان خواتین نے ہزاروں پناہ گزینوں کے کھانے پینے اور ہر طرح کی دیکھ بھال کا ذمے لیا۔ ان میں سے بڑی تعداد کو دوبارہ بسایا گیا۔

 پاکستان کی پہلی79 رکنی دستور ساز اسمبلی میں صرف دو خواتین تھیں جن میں سے ایک بیگم جہاں آراء شاہنواز اور دوسری بیگم شائستہ اکرام اللہ  تھیں، جہاں انہوں نے 1954 تک لگ بھگ سات برس رکن اسمبلی کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیے۔ اس دوران انہوں نے بیگم جہاں آرا شاہنواز کے ساتھ مل کر پاکستان میں خواتین کے حقوق، تعلیم، مردوں کے برابر تنخواہ اور دیگر مراعات کے قوانین پر کام کیا اور ان کو اسمبلی سے منظور کروایا۔ بعدازآں انہیں قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے 1956 کے آئین میں خواتین کے حقوق ومراعات کو تسلیم کیا۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور مراکش میں سفارتی خدمات انجام دیں۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ  1964 سے 1967 تک مراکش میں پاکستان کی سفیر رہیں، جب کہ آپ کو پاکستان کی پہلی سول سرونٹ خاتون ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

ا س کے علاوہ آپ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب اور انسانی حقوق کے متفقہ عالمی چارٹر مشن کا بھی حصہ رہیں جہاں انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی مسودے اور نسل کشی کے خلا ف کی جانے والی قانون ساز ی میں بھی حصہ لیا۔

اقوام متحدہ نے ان کی خدمات کے صلے میں انھیں ان الفاظ میں شان دار خراج عقیدت پیش کیا:

’’انسانی حقوق کے عالم گیر اعلامیے کی تیاری میں خواتین کے کردار پر آپ نے بیگم شائستہ اکرام اللہ کا نام متعدد بار سنا ہوگا۔ وہ جنرل اسمبلی کی سماجی، انسانی اور ثقافتی امور پر پالیسی تیار کرنے والی کمیٹی میں پاکستانی مندوب تھیں۔ اس کمیٹی نے1948 میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے مسودے پر بحث کے لیے 81 اجلاس کیے۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ  نے اعلامیے میں آزادی، مساوات اور انتخاب پر زور دینے کی بھرپور وکالت کی۔ انہوں نے شادی میں مساوی حقوق پر آرٹیکل 16 کو بھی اعلامیہ میں شامل کرنے کی حمایت کی، جسے وہ بچپن کی شادیوں اور جبری شادیوں جیسے سماجی مسائل سے نمٹنے کے طریقے کے طور پر دیکھتی تھیں۔‘‘

 ان کی تصانیف میں افسانوں کا مجموعہ ’’کوشش ناتمام‘‘،’’دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے‘‘،’’فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ‘‘،’’لیٹرز ٹو نینا‘‘، ’’بیہائینڈ دی ویل‘‘ اور ’’اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری‘‘ شامل ہیں۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  کو حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے2002 میں انہیں نشانِ امتیاز عطا کیا تھا۔ 10 دسمبر 2000ء کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای ) میں وفات پانے والی بیگم شائستہ اکرام اللہ کو کراچی میں حضرت عبداللہ  شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں سپردِخاک کیا گیا۔

ہمارے پاکستان کی موجودہ خواتین سیاست دانوں کو سیاست میں بیگم شائستہ اکرام اللہ  کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہیے۔

شائستہ اکرام اللہ کا ایک بیٹا انعام اکرام اللہ  (1934تا2004) اور تین بیٹیاں نازاشرف (1938)، سلمیٰ سبحان (1937 تا 2003) اور ثروت (1947) ہیں۔ نازاشرف مشہور آرٹسٹ ہیں جب کہ سلمیٰ سبحان بنگلادیش کے وزیرخارجہ رحمٰن سبحان کی ہم سفر بنیں اور ثروت اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، جب کہ ان کے دیور محمد ہدایت اللہ  1968 سے 1970تک ہندوستان کے چیف جسٹس اور1979 سے 1984 تک ہندوستان کے نائب صدر رہے، کچھ وقت تک آپ نے صدرجمہوریہ کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ  کی برصغیر کے مسلمانوں، پاکستان اور خواتین کے لیے گراں قدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس

صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سینئر صحافی مطیع اللّٰہ جان کے خلاف منشیات اور دہشت گردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس جاری کردیا، یہ مقدمہ گزشتہ سال 28 نومبر کو مارگلہ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر سرکاری اسلحہ چھیننے، پولیس ناکے پر گاڑی ٹکرانے اور منشیات رکھنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
مطیع اللّٰہ جان کے خلاف قانونی کارروائی پر صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے شدید تنقید کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں گزشتہ سال نومبر میں پی ٹی آئی مظاہرین کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی رپورٹنگ کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آج کی سماعت کے آغاز پر وکیل میاں علی اشفاق نے مطیع اللّٰہ جان کی جانب سے عدالت میں وکالت نامہ جمع کرایا، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ صحافی کو اس مقدمے میں ’دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے‘۔
جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ معاملے میں پولیس کا مؤقف سننا بھی ضروری ہے، اور مطیع اللّٰہ جان کی مقدمے کی تمام دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست پر پولیس کو 8 نومبر کے لیے نوٹس جاری کر دیا، سماعت اسی تاریخ تک ملتوی کر دی گئی۔

سماعت کے دوران وکیل ایمان زینب مزاری، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ، اور دیگر صحافی بھی موجود تھے۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مطیع اللّٰہ جان کی بریت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور انہیں مقدمے کی تمام دستاویزات فراہم کی تھیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ متعدد سینئر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مطیع اللّٰہ جان کے خلاف درج مقدمہ فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

مطیع اللّٰہ جان کی گرفتاری
پولیس کے مطابق، 26 نومبر 2024 کی رات مطیع اللّٰہ جان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب سیکٹر ای 9 میں پولیس نے ان کی گاڑی کو روکا اور انہوں نے مبینہ طور پر گرفتاری کے خلاف مزاحمت کی، گاڑی پولیس ناکے سے ٹکرا دی اور سرکاری اسلحہ چھین لیا۔

ایف آئی آر میں منشیات ایکٹ (سی این ایس اے) کی دفعہ 9(2)4 شامل کی گئی ہے، جس کے تحت ان پر 100 سے 500 گرام آئس رکھنے کا الزام ہے، جبکہ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے۔
ابتدائی طور پر انہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے بعد میں یہ فیصلہ کالعدم قرار دے کر انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا، بعد ازاں وکلا ایمان زینب مزاری اور ہادی علی چٹھہ نے ان کی ضمانت بعد از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔
مطیع اللّٰہ جان نے اس کے بعد اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنی گرفتاری سے قبل اغوا اور تشدد کے الزامات عائد کیے۔
خط میں ان کا کہنا تھا کہ 27 نومبر 2024 کو انہیں اور صحافی ثاقب بشیر کو پمز ہسپتال کی پارکنگ سے پولیس وردی میں ملبوس افراد نے اغوا کیا، آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا، جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعد میں پولیس نے مارگلہ تھانے میں ان کے خلاف جعلی مقدمہ درج کیا، جس میں دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات لگائے گئے، مطیع اللّٰہ جان کے مطابق ان کے ساتھی صحافی کا حلفیہ بیان بھی عدالت میں پیش کیا گیا، جس میں اغوا کی تصدیق کی گئی۔
انہوں نے اپنے 2020 کے اغوا کے واقعے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات ان کے آئینی، پیشہ ورانہ اور صحافتی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، جو 2021 کے ’تحفظِ صحافی و میڈیا پروفیشنلز ایکٹ‘ کے منافی ہیں۔
انہوں نے آئی جی اسلام آباد سے مطالبہ کیا کہ معاملے کی غیرجانبدار اور دیانت دار افسر کے ذریعے شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: پنجاب حکومت وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کن مرحلہ، پیپلزپارٹی کی بڑی بیٹھک آج ہوگی جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں، جسٹس مسرت ہلالی تباہ کن اسلحہ کے ساتھ گھروں کو لوٹنے والے پناہ گزین نہیں دہشت گرد ہیں، خواجہ آصف قطری وزیراعظم نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام فلسطینی گروہ پر عائد کردیا ٹی ایل پی پر پابندی لگنا اچھی بات ہے، پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نابالغ ہے، فواد چودھری غزہ میں حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • تجدید وتجدّْ
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • لاہور، محلے داروں میں جھگڑا کے دوران سر پر چوٹ لگنے سے خاتون جاں بحق
  • پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو تو پاکستان ٹھیک ہوسکتا ہے، سراج الحق
  • سلمان اکرم راجہ کی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی کی عیادت اور اہم ملاقات
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس