دنیاکی تاریخ اورنقشے پربعض ایسے لمحات شاذونادرآتے ہیں جب الفاظ بارودسے بھاری اورجملوں کی کاٹ تلواروں کی دھار سے بڑھ جاتی ہے،اورایک جملہ کسی توپ کے گولے سے زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ آج جب جنوبی ایشیاء کی دوایٹمی قوتیں،انڈو پاک،لفظوں کی تلواریں نیام سے نکال کرایک دوسرے پربرسارہی ہیں،توہواں میں صرف سیاسی تناہی نہیں،بلکہ تاریخ کے پنوں سے اٹھتی ہوئی وہ گردبھی محسوس ہورہی ہے جس نے ماضی میں تہذیبوں کوملبے میں بدل دیاتھا۔
گزشتہ چندروزسے پاکستان اورانڈیاکے تعلقات میں شدیدکشیدگی دیکھی جارہی ہے،جس کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان لفظی جنگ،سندھ طاس معاہدے کومتنازعہ بنانے کی کوششیں،اور باہمی طور پر جارحانہ بیانیہ ہے۔یہ تنائونہ صرف خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے بلکہ عالمی برادری کی تشویش کاباعث بھی بناہواہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ دنوں میں جاری لفظی جنگ ایسی ہی ایک ہولناک کیفیت کی غمازہے۔
چندروزکی خبروں اوربیانات نے ایک ایسے آتش فشاں کی صورت اختیارکرلی ہے جوکسی بھی لمحے ایٹمی لاوااگل سکتاہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کاانتباہ کہ ’’انڈیانے پاکستان کاپانی بندکیاتو اسے اقدامِ جنگ تصورکیاجائے گا‘‘ محض ایک رسمی بیان نہیں بلکہ ایک ایسااعلان ہے جس کے پس منظرمیں قومی غیرت کی پوری تاریخ رقص کررہی ہے۔دوسری جانب مودی کایہ کہنا کہ ’’حملہ آوروں اورحملے کی سازش کرنے والوں کوان کے تصورسے بھی بڑی سزاملے گی‘‘،ایک ایساجارحانہ اشارہ ہے جو جنوبی ایشیا کے امن کی بنیادوں کولرزا رہاہے۔
وزیردفاع پاکستان،خواجہ آصف،کے جذبات میں لپٹاہوایہ جملہ کہ ’’پاکستان اپنے ہر شہری کی موت کابدلہ لے گا‘‘ دشمن کویہ پیغام دے رہاہے کہ پاکستانی قوم کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوچکاہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے تحمل کی تلقین ایک ایسابوسیدہ مرہم ہے جو ناسوربنتے زخم پررکھاجارہاہے۔یہ سب ایک ایساخطرناک منظرنامہ تشکیل دے رہاہے جہاں معمولی سی لغزش پوری دنیاکو تاریک کرسکتی ہے۔
1960ء کے معاہدے کی روسے دریائے سندھ،جہلم،اورچناب کاپانی پاکستان کوجبکہ راوی، بیاس،اورستلج کاپانی انڈیاکودیاگیا۔یہ معاہدہ دنیا کا سب سے طویل المدتی امن معاہدہ سمجھاجاتا ہے، جس نے 1965ء اور1971ء کی جنگوں کے دوران بھی کام جاری رکھا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کوپانی کے استعمال،ڈیموں کی تعمیر، اورآبی تنازعات کے حل کیلئے ایک مکینزم مہیاکیا گیا۔انڈیانے معاہدے کے آرٹیکل12 کے تحت اسے’’جزوی طورپرمعطل‘‘ کرنے کا اعلان کیاہے،جسے پاکستان نے’’جنگی اقدام‘‘ قرار دیتے ہوئے سختی سے ردکیاہے۔جس کامطلب ہے کہ وہ پاکستان کے حصے کے دریاؤں پرڈیموں کی تعمیریاپانی کابہاؤروک سکتا ہے۔پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ انڈیاکے یہ اقدام’’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘‘اور’’جنگ کی دعوت‘‘ ہے۔پاکستان کے مطابق، دریائے چناب پر انڈیا کے زیرِتعمیرکشن گنگاڈیم سے پانی کے بہامیں 40فیصد تک کمی آسکتی ہے ، جوزراعت اور پینے کے پانی کے بحران کاباعث بنے گی۔
عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والاسندھ طاس معاہدہ دریاؤں کے پانی کے تناسب کوطے کرتا ہے اورگزشتہ6دہائیوں میں کئی جنگیں اوربحران جھیلنے کے باوجودقائم رہاتھا۔انڈیا کایہ قدم پانی کو’’جنگی ہتھیار‘‘ کے طورپر استعمال کرنے کی کوشش سمجھاجا رہا ہے۔ انڈیا پانی کوہتھیاربناکرپاکستان کومعاشی طورپر کمزور کرنا چاہتا ہے ۔
پاکستان کی90 فیصد زراعت دریاؤں کے پانی پرانحصارکرتی ہے۔پانی کی کمی سے زرعی تباہی کی وجہ سے گندم،چاول،اورکپاس کی پیداوارمتاثر ہوسکتی ہے۔ پانی کی قلت سے پاکستان میں سماجی بے چینی اور انڈیا کے خلاف عوامی ردعمل بڑھ سکتا ہے مگرآج جب بھارت اس معاہدے کی جزوی معطلی کی بات کررہاہے،توپانی کا مسئلہ،جوزندگی کاسرچشمہ تھا ، ہتھیاربننے جارہاہے۔ سندھ طاس معاہدہ کے قائم ستون کومودی حکومت گرانے کی دھمکیاں دی رہی ہے۔سندھ طاس معاہدہ،جووقت کی کئی آندھیوں، جنگوں اورفتنہ سامانیوں کے باوجودقائم رہا،آج بھارتی اقدام کی صورت میں اپنی پہلی سنجیدہ لغزش کاسامناکررہاہے۔پانی جیسا بنیادی اورفطری وسیلہ اب سفارتی میزوں پرایک ہتھیارکی حیثیت اختیارکرچکا ہے۔اگربھارت اس معاہدے کویکطرفہ طورپرمعطل کرکے پاکستان کے حصے کے پانی کوروکنے کی کوشش کرے،تویہ عمل محض ایک معاہدہ شکنی نہیں بلکہ فطرت کے قانون اور انسانیت کے ضمیرپرایک کاری ضرب ہوگا۔مورخین جانتے ہیں کہ پانی کی جنگیں میدانوں سے زیادہ انسانوں کے دلوں میں لڑی جاتی ہیں اوران کی تباہی کادائرہ سرحدوں سے آگے بڑھ کر تہذیبوں کے وجودکوچکناچورکردیتاہے۔
مودی نے دھمکی دی کہ’’حملہ آوروں کوان کے تصورسے بڑی سزاملے گی‘‘،جبکہ پاکستان کے وزیرد فاع خواجہ آصف نے کہاکہ ’’ہرشہری کی موت کابدلہ لیاجائے گا‘‘۔دونوں ممالک کی قیادت اپنے عوامی بیانیے میں جارحانہ لہجہ اپنارہی ہے،جس سے عوامی جذبات بھڑک رہے ہیں۔اقوام متحدہ نے دونوں ممالک سے تحمل اور مذاکرات کی اپیل کی ہے،مگر اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نظرنہیں آتی مگریہ زبانی جمع خرچ اب وقت کی شدت کامقابلہ کرنے کے لئے ناکافی معلوم ہوتاہے۔ دنیاکو،خاص طورپربڑی طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محض تلقین پراکتفانہ کریں،وہ اپنے کردارکومحض بیانات تک محدودنہ رکھیں،بلکہ عملی ثالثی کا کرداراداکریںورنہ خطے کاامن لمحوں میں دھواں ہوسکتاہے۔
خدشہ اس بات کاہے کہ لفظی جنگ سے بات بڑھ کرفوجی تصادم کی طرف جارہی ہے اورماضی کی طرح دونوں ممالک سرحدوں پرفوجی چھیڑچھاڑیامحدودفوجی کارروائیوں کاراستہ اختیار کرسکتے ہیں،فوجی محاذآرائی کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیرمیں کنٹرول لائن پرگولہ باری اورفائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوسکتاہے جیسا کہ 2019ء کے پلوامہ حملے کے بعدہوا تھا ۔ 2019ء کی طرح انڈیا’’سٹرائک انسائیڈ پاکستان‘‘ (بالاکوٹ ایئرسٹرائیک)کی طرزپرہوائی یامیزائل حملہ کر سکتا ہے۔بحیرہ عرب میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔معاملہ مزیدخراب ہونے کی صورت میں فیصلہ کن جواب کی حکمت عملی کے طورپر روایتی جنگ میں شکست کی صورت میں ایٹمی ہتھیارکے استعمال سے صرف خطہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیاکے متاثرہونے کا قوی امکان موجودہے۔دونوں ممالک کے پاس 150-160 ایٹمی ہتھیارہیں۔کسی بھی بڑے تصادم کانتیجہ لاکھوں اموات اورماحولیاتی تباہی ہو سکتاہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دونوں ممالک پاکستان کے نہیں بلکہ کی صورت پانی کے کے پانی
پڑھیں:
پاکستان میں 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے ہیں، مصطفیٰ کمال
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے اور 80 فیصد خون کی اسکریننگ غیر معیاری ہونے کے باعث پھیل رہی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ صحت کے نظام کی بہتری کے لیے پانی اور خون جیسے بنیادی مسائل کو فوری طور پر حل کرنا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے انڈس اسپتال کی جانب سے منعقدہ خون کے عطیہ کرنے کی ملک گیر مہم کی افتتاحی تقریب میں کیا۔
کراچی میں منعقدہ افتتاحی تقریب میں وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر انڈس اسپتال کے صدر ڈاکٹر عبدالباری خان اور انڈس زندگی پروجیکٹ کی سربراہ ڈاکٹر صبا جمال بھی موجود تھیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر صبا جمال نے کہا کہ پاکستان میں خون کے عطیات کی شرح انتہائی کم ہے جس کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مہم کا مقصد شہریوں میں رضاکارانہ خون کے عطیے سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے۔
ڈاکٹر عبدالباری خان نے کہا کہ انڈس زندگی پروجیکٹ کا مقصد قوم کو محفوظ اور معیاری خون کی رضاکارانہ بنیادوں پر فراہمی ممکن بنانا ہے تاکہ کسی بھی مریض کی جان خون کی عدم دستیابی کے باعث ضائع نہ ہو۔
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے انڈس اسپتال کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ قومی ہیروز میں شامل ہے۔ یہ مہم اللہ کی رضا کے لیے ہے اور ایسے کام کرنے والے لوگ جنتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بطور وفاقی وزیر صحت ان کا پہلا دورہ بھی انڈس اسپتال کا تھا۔
اپنے خطاب میں وفاقی وزیر نے ملک کے صحت کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کے پاس اسپتالوں کا مؤثر نظام موجود نہیں۔ صرف ادویات کی حد تک ریگیولیٹری باڈیز ہیں۔ اسلام آباد میں صرف ایک اسپتال فعال ہے جبکہ دوسرا کووڈ کے زمانے سے بند پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 68 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے، جبکہ 80 فیصد خون کی اسکریننگ بھی غیر معیاری ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں سیوریج اور واٹر ٹریٹمنٹ کا مؤثر نظام نہ ہونے کے باعث روزانہ 450 ملین گیلن آلودہ پانی سمندر میں بہایا جا رہا ہے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہمیں بیماریوں کا علاج کرنے کے بجائے ان سے بچاؤ پر توجہ دینی ہوگی۔
انہوں نے اعلان کیا کہ وفاقی حکومت اب اپنے صحت فنڈز احتیاطی تدابیر پر خرچ کرے گی تاکہ عوام کو بیماریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔
تقریب کے اختتام پر مریض بچوں میں تعریفی اسناد بھی تقسیم کی گئیں۔