WE News:
2025-08-02@00:38:47 GMT

یوم مزدور: فرضی دن اور فرضی باتیں

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

یوم مزدور: فرضی دن اور فرضی باتیں

آج بھی کہیں گیہوں کے کھیتوں میں کٹائی کرتے اورپاپی پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے نیچے  گرے گیہوں کے دانے چنتے دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی چھوٹے بڑے آج بھی برش لے کر افسروں کے کالے جوتے چمکاتے نظر آئیں گے۔

کچھ عورتیں آج بھی بھٹی پہ اینٹیں بناتی اور اپنے ارمانوں کو بھٹی کی آگ میں پکاتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ کئی مزدور آج بھی کسی صاحب کی 3منزلہ عمارت پر سیمنٹ کا لیپ کر رہے ہیں۔

تندوروں پہ آج بھی ایئر کنڈیشنڈ میں بیٹھے ہوؤں کے لیے روٹیاں لگ رہی ہیں۔ چھوٹے آج بھی میزیں صاف کر رہے ہیں۔

کئی مزدور چوک میں آج بھی اوزار لے کر کام ملنے کی آس میں کھڑے ہیں۔ گٹر صاف کرنے کو جمع دار بھی آیا ہے۔ کام والی ماسی نے بھی چھٹی نہیں کی۔ سگنل پہ پھول اور گجرے بیچنے والے بچے آج بھی لوگوں کے دلوں کو مہکایں گے۔ گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والے بھی بھاگے بھاگے آئیں گے۔

اسٹیشن پہ قلی بھی کسی مسافر کا سامان سر پر لادنے کی امید میں سر جھکا کے بیٹھے ملیں گے۔ رکشے والے، ریڑھی والے لائن لگائے نظر آئیں گے۔ سڑکوں پہ گول گپے، سبزی، پھل، گولے گنڈے والے بھی مل جائیں گے۔ بیرے ہوٹلوں میں کھانا بھی لگائیں گے، اور جھوٹھے برتن بھی اٹھائیں گے۔

آج مزدوروں کا عالمی دن ہے، لیکن ان کے لیے یہ دن بھی باقی دنوں جیسا عام دن ہی ہے۔ کیونکہ آج بھی مزدور مزدوری پر ہیں یا پھرچند لوگ جو آج اس دن کی وجہ سے کام نہ ملنے پر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی محروم رہیں گے۔

 ایک سروے کے مطابق، مزدور طبقے کو اس دن کی اہمیت سے نہ تو کوئی خاص شناسائی ہے کہ آج ان کا دن ہے، اور نہ ہی وہ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس طبقے کی آمدنی ان کی روزمرہ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہو، ان کے لیے اپنے حالات سے لڑتے  ہر دن ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔

غربت کی چکی میں پستے ہوئے اپنے معاش کے لیے پریشان حال لوگوں کو گھڑی کی سوئیوں اور دنوں کے بدلنے کا کوئی خاص احساس نہیں ہوتا کیونکہ ان کی ہر صبح ایک ہی پریشانی لاتی ہے کہ آج کام ملے گا یا نہیں!

ہاں البتہ، کہیں کہیں فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کے لیے چھوٹی موٹی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ مزدور پیشہ افراد کو اس دن کے بارے میں علم ہی نہیں کہ یوم مزدور کیا ہے۔ نہ ہی انہیں اپنے حقوق کے بارے میں کوئی خاص آگاہی ہوتی ہے، اور جنہیں ہوتی ہے وہ بھی اس سرمایہ دارانہ نظام میں آواز اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔

کارخانوں میں کام کرنے والی چند خواتین سے جب ان کی مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں اتنا معاوضہ نہیں دیا جاتا جتنا کام لیا جاتا ہے۔ ہر سال ایسے ہی دن پرکئی وعدے اور دعوے بس باتوں کی حد تک کیے جاتے ہیں۔ مگر ان پر کوئی خاص عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ جبکہ غربت کے منحوس چکر میں پسنے والے لوگوں کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔

علاوہ ازیں، کارخانوں، بھٹوں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والے مزدوروں خصوصاً عورتوں سے متعلق کوئی خاص قوانین نہیں بنائے گئے ہیں اور انہیں کام کرنے کی جگہوں پر بیشتر ہراسانی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

زیادہ تر ایسے واقعات میں اپنے حقوق کے متعلق آگہی یا اس پر آواز اٹھانے کا اعتماد ہونے کے بجائے اپنا روزگار بچانے کے لیے خاموش رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے متعلق بھی کوئی پالیسی موجود نہیں ہے، نہ ہی ان کی اجرت کا کوئی تعین ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ حال ہی میں پیش آنے والے مار پیٹ اور تشدد کے واقعات کے بعد بھی کوئی مثبت پالیسی یا حکمت عملی سامنے نہیں آسکی کہ ایسی صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔ جبکہ چائلڈ لیبر کا سرطان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان میں  مزدوروں کی روزانہ کی اجرت میں مہنگائی کے تناسب سے کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ کمی ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ کئی مزدور روزانہ ایک ہزار روپے سی بھی کم کما رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی زندگی کا معیار بد ترین سطح تک گر چکا ہے۔

آخر اس دن کو منانے اور عام تعطیل کا مقصد کیا ہے؟ جن کا دن ہے ان کو اس سے کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ سرکاری ملازمین، افسروں، اسکولوں، اداروں کی چھٹی سے مزدور کے گھر میں راشن نہیں آتا۔ چھٹی جیسی عیاشی بھرے پیٹوں کے لیے تفریح کا باعث ہوسکتی ہے۔ دیہاڑی دار مزدور کے لیے صرف ایک خسارہ ہے۔

چھٹی تو کرلی ہے

کیا اس کے گھر میں اس دن راشن ڈلوایا ہے؟

اس کو تو اس دن سے کوئی غرض نہیں

جوآج بھی کام پر آیا ہے

فرضی دن اور فرضی باتیں

نام کسی کا، عیش کسی کے

چھوڑو یار!

دفتر والو! افسر نیلی بتی والو!

اور بے کار کے ٹھیکیدارو!

تم کو یہ دن بہت مبارک!

 ہر سال یہ دن آتا ہے مگر مزدور طبقے کی حالت میں اس دن اور اس تعطیل سے کوئی فرق پڑتا نہیں نظر آرہا۔ سب اسپیکروں میں بولنے والے انسانیت کے علمبردار نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی تبدیلی دکھائی نہیں آتی۔

اگر واقعی انسانیت کے ٹھیکیدار مزدوروں کے حقوق کے متعلق سنجیدہ ہیں تو اسپیکروں میں نعرے لگانے کے بجائے عملی طور پر اقدامات اٹھائیں۔ مزدوروں کی اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے مناسب قانون سازی کی جائے۔ مزدور طبقے خصوصاً خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے ایسا سرکاری پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں آسانی سے ان کی رسائی اور داد رسی ہو سکے۔  یاد رہے کہ چھٹی سے، کھوکھلے وعدوں سے اور نعروں سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا۔

بھوک کی چغلی کھانے والے

زردی مائل چہرے والا

سوکھے سوکھے ہونٹوں پر وه

آس کی اک مسکان سجائے

قریه قریه بھٹک رہا ہے

نرم صدا معصوم ادا سے

زخمی دل سے جگ والوں کو

دکھ نگری کے شہزادوں کو

خوش باشوں کو، دل داروں کو

بے بس ماں کا راج دلارا

پھول کی مالا بیچ رہا ہے

پھول کے جیسا پیارا بچه

دل ہی دل میں کھیل رہا ہے

پاک وطن کا چاند ستاره

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

یکم مئی یوم مزدور.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: یکم مئی یوم مزدور میں کام کرنے کوئی خاص رہا ہے آج بھی کے لیے

پڑھیں:

چینی کی قیمت عام آدمی کی دسترس میں ہے اور اسکے بجٹ پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا، رانا تنویر

اسلام آباد:

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر نے کہا ہے کہ چینی وافر مقدار میں دستیاب ہے اور قیمت بھی دسترس میں ہے عام آدمی کے بجٹ پر بھی فرق نہیں پڑ رہا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک میں چینی کا بہت مسئلہ ہے ڈیمانڈ سپلائی اور قیمت کے مسائل ہیں، کہا جاتا ہے پہلے چینی ایکسپورٹ کی اور پھر امپورٹ کی جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے، ایک دو سال چھوڑ کر پہلے چینی بہت برآمد ہوتی رہی اور پھر امپورٹ بھی ہوئی، برسات کے مینڈک کی طرح ایک خاص وقت آتا ہے جب چینی کا ایشو اٹھایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وزراء، چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے اور اسٹیک ہولڈرز بھی ہوتے ہیں، بتدریج چینی برآمد کرنے کی اجازت دی، جب شروع میں برآمد کی درخواست آئی تو اس وقت 750 ڈالر ٹن عالمی منڈی میں قیمت تھی، جب برآمد کی اجازت دی اس وقت دو روپے فی کلو اضافے کے ساتھ 140روپے فی کلو ایکس مل قیمت مقرر کرنے پر اتفاق ہوا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ عموماً ایکس ملز اور پرچون قیمت میں آٹھ سے دس روپے فی کلو کا فرق ہوتا ہے، برآمد کے بعد چینی کی قیمت ملک میں کریش کر گئی تھی اور چینی کی قیمت کم ہوکر 119روپے پر آگئی تھی، ہم نے پانچ لاکھ ٹن بفر اسٹاک رکھا مگر شوگر ملز مالکان کا کہنا تھا کہ حکومت خرید کر رکھے ہم نے بینکوں سے قرضے لئے ہوئے ہیں۔

رانا تنویر نے کہا کہ رمضان المبارک میں بھی چینی 130روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوتی رہی ہے، اس کے بعد گنے کی کاشت کا رقبہ بڑھ گیا توقع تھی کہ اس سال سات ملین میٹرک ٹن گنے کی پیداوار ہوگی، مگر جو موسمیات تبدیلی کے اثرات آئے تو اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں فصلیں متاثر ہوئی ان اثرات سے پاکستان میں بھی چینی کی پیداوار کم ہوئی اور رقبہ بڑھنے کے باوجود پیداوار کم ہوئی ہمیں جیسے معلوم ہوا تو وزیراعظم نے چینی کی باقی برآمد روک دی اور چالیس ہزار ٹن چینی برآمد نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری اس سال چینی کی پیداوار 63 لاکھ میٹرک ٹن رہی جو کہ ہماری ضرورت کیلئے کافی ہے، اس سال گنے کی قیمت ساڑھے چار ہزار روپے سے ساڑھے ہزار روپے فی ٹن کسان کو ملی ہے، ہولڈرز اور ڈیلرز کی وجہ سے قیمت بڑھی ہے اب اس پر سخت کارروائی کی جارہی ہے، اس وقت 173روپے کے حساب سے چینی فروخت ہورہی ہے بعض جگہ 172روپے بھی فروخت ہورہی ہے۔

وزیر صنعت و پیداوار نے کہا کہ بھارت میں آج صبح چینی کی قیمت ڈیڑھ سو روپے فی کلو ہے، بنگلہ دیش میں 187روپے، افغانستان میں 173، ایران میں اڑھائی سو روپے جبکہ پاکستان میں 173روپے کلو گرام ہے، چینی وافر مقدار میں دستیاب ہے اور قیمت بھی عام آدمی کی دسترس میں ہے اس قیمت سے عام آدمی کے بجٹ پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔

انہوں ںے کہا کہ چینی پانچ سو ڈالر کے حساب سے برآمد کرکے ساڑھے چارسو ملین ڈالر کمائے ہیں، اگر ساڑھے سات سو ڈالر پر برآمد کرتے تو اس سے بھی زیادہ زرمبادلہ کماتے،
ایکسپورٹ ساڑھے سات ملین ٹن کی جبکہ امپورٹ پانچ لاکھ میٹرک ٹن کی اجازت دی ہے
ابھی تین لاکھ ٹن درآمد کررہے ہیں، زیادہ سے زیادہ تین لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کریں گے۔

انہوں ںے یقین دلایا کہ چینی کا اسٹاک وافر موجود ہے چینی کی کوئی قلت نہیں ہے، چینی کی قیمت ہم نے فکس کی ہوئی ہے تاہم بعض مقامات پر تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے، تین ماہ کیلئے شوگر ملوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اس لئے رکھا گیا ہے اس میں دو روپے فی کلو گرام اضافی کرسکیں گے اور یہ ایکس مل قیمت  زیادہ سے زیادہ 175 روپے تک جاسکے گی 
اس کے بعد چینی کی نئی پیداوار مارکیٹ میں سجائے گی اور قیمت معمول پر رہے گی۔

وزیر صنعت و پیداوار نے کہا کہ گھریلو صارفین بیس فیصد چینی استعمال کرتے ہیں اسی فیصد کمرشل صارفین ہیں، جن میں بیوریجز، بیکری والے،مٹھائی والے اور اس قوم کے دوسرے شعبے شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چینی سے متعلق مسئلہ عموما ایک خاص موسم میں ہوتا ہے، شوگر ایڈوائزری بورڈ میں چار صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے گزشتہ سال جب چینی ایکسپورٹ کی بات ہوئی تواس وقت سات لاکھ میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کا فیصلہ ہوا، ہماری ضرورت 65 لاکھ میٹرک ٹن تھی جبکہ اسٹاک ساڑھے 13 لاکھ میٹرک ٹن زائد تھا، اس وقت ساڑھے چار لاکھ ایک ٹرک کا ریٹ تھا، وزیراعظم ایکسپورٹ کی اجازت نہیں دے رہے تھے، اس وقت 138 روپے فی کلو چینی تھی ہمیں کہا گیا اس میں کسی کو منافع نہیں ہے ہم نے 145 روپے چینی کی قیمت مقرر کی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایکس مل اور مارکیٹ میں دس روپے کا فرق ہوتا ہے، برآمد کی اجازت کے بعد چینی کی قیمت کم ہوئی، برآمد ہونے کے باوجود قیمت کریش کرکے 119 روپے تک آگئی، پانچ لاکھ میٹرک ٹن کا بفر اسٹاک ہم نے گزشتہ سال ہی رکھ لیا تھا، رمضان میں بھی ایک سو تیس روپے فی کلو چینی میسر رہی، اندازہ تھا کہ ستر لاکھ میٹرک ٹن چینی ہوگی لیکن موسمیاتی تبدیلی نے ہماری فصلوں کو متاثر کیا، فصلوں میں گندم،مکئی اور گنے کی فصل کم ہوئی جنوری میں پتہ چلا کہ فصلوں کی متوقع پیدوار نہیں ہوئی۔

انہوں ںے کہا کہ تیس اپریل کو سارا سیزن ختم ہوا گزشتہ سال کی نسبت دس لاکھ میٹرک ٹن چینی کم ہوئی، ہمارے پاس پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی کا اسٹاک تھا، جو کہ ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی ہے اس وقت تین ماہ کا اسٹاک ہے، ہمارے ذخائر میں بیس لاکھ میٹرک ٹن چینی دستیاب ہے۔

رانا تنویر نے بتایا کہ  گنے کے کسانوں کو کافی زیادہ منافع ملا ہے، حکومت نے ریٹیلرز اور شوگر ملز والوں پر سختی کی ہے، اس وقت 173 ریٹیل قیمت ہے ایکس مل کا ریٹ 165 روپے ہے،  سب کو چینی ضرورت کے مطابق 165 روپے فی کلو کے حساب سے مل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حلفاً کہتا ہوں کہ  یہ نہیں کہ وہ میرا باس ہے مفتاح اسماعیل نے بھی اعتراف کیا ہے کہ جب وہ وزیر خزانہ تھے تو وزیراعظم شہباز شریف نے چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، ابھی کارٹلائزیشن میں میں ملوث لوگوں کے خلاف جو ہونے جارہا ہے وہ بھی آپ دیکھیں گے تپش بہت جگہوں پر محسوس ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • مضحکہ خیز اور جھوٹ پر مبنی اعلامیے کا حقیقت سے تعلق نہیں، وزیر اطلاعات
  • گھڑ سوار اور عقوبت خانہ!
  • ملک میں کوئی قانون، انصاف اور عدالت نہیں ہے، شاہد خاقان عباسی
  • بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کی کوئی ویزا درخواست زیر غور نہیں ،وزارت داخلہ
  • ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، چینی برآمد و درآمد پر غلط تاثر پیدا کیا جاتا ہے: رانا تنویر
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کو 9مئی کے مقدمات میں سزائیں،سربراہ پلڈاٹ سربراہ بلال محبوب کا اہم بیان
  • چینی کی قیمت عام آدمی کی دسترس میں ہے اور اسکے بجٹ پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا، رانا تنویر
  • جمہوریت کی باتیں کرنے والے آج ڈکٹیٹر بن گئے ہیں، مصطفیٰ نواز کھوکھر
  • کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟
  • پنچایت، جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل؛ ایک کڑوی حقیقت