WE News:
2025-09-17@23:29:13 GMT

یوم مزدور: فرضی دن اور فرضی باتیں

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

یوم مزدور: فرضی دن اور فرضی باتیں

آج بھی کہیں گیہوں کے کھیتوں میں کٹائی کرتے اورپاپی پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے نیچے  گرے گیہوں کے دانے چنتے دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی چھوٹے بڑے آج بھی برش لے کر افسروں کے کالے جوتے چمکاتے نظر آئیں گے۔

کچھ عورتیں آج بھی بھٹی پہ اینٹیں بناتی اور اپنے ارمانوں کو بھٹی کی آگ میں پکاتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ کئی مزدور آج بھی کسی صاحب کی 3منزلہ عمارت پر سیمنٹ کا لیپ کر رہے ہیں۔

تندوروں پہ آج بھی ایئر کنڈیشنڈ میں بیٹھے ہوؤں کے لیے روٹیاں لگ رہی ہیں۔ چھوٹے آج بھی میزیں صاف کر رہے ہیں۔

کئی مزدور چوک میں آج بھی اوزار لے کر کام ملنے کی آس میں کھڑے ہیں۔ گٹر صاف کرنے کو جمع دار بھی آیا ہے۔ کام والی ماسی نے بھی چھٹی نہیں کی۔ سگنل پہ پھول اور گجرے بیچنے والے بچے آج بھی لوگوں کے دلوں کو مہکایں گے۔ گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والے بھی بھاگے بھاگے آئیں گے۔

اسٹیشن پہ قلی بھی کسی مسافر کا سامان سر پر لادنے کی امید میں سر جھکا کے بیٹھے ملیں گے۔ رکشے والے، ریڑھی والے لائن لگائے نظر آئیں گے۔ سڑکوں پہ گول گپے، سبزی، پھل، گولے گنڈے والے بھی مل جائیں گے۔ بیرے ہوٹلوں میں کھانا بھی لگائیں گے، اور جھوٹھے برتن بھی اٹھائیں گے۔

آج مزدوروں کا عالمی دن ہے، لیکن ان کے لیے یہ دن بھی باقی دنوں جیسا عام دن ہی ہے۔ کیونکہ آج بھی مزدور مزدوری پر ہیں یا پھرچند لوگ جو آج اس دن کی وجہ سے کام نہ ملنے پر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی محروم رہیں گے۔

 ایک سروے کے مطابق، مزدور طبقے کو اس دن کی اہمیت سے نہ تو کوئی خاص شناسائی ہے کہ آج ان کا دن ہے، اور نہ ہی وہ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس طبقے کی آمدنی ان کی روزمرہ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہو، ان کے لیے اپنے حالات سے لڑتے  ہر دن ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔

غربت کی چکی میں پستے ہوئے اپنے معاش کے لیے پریشان حال لوگوں کو گھڑی کی سوئیوں اور دنوں کے بدلنے کا کوئی خاص احساس نہیں ہوتا کیونکہ ان کی ہر صبح ایک ہی پریشانی لاتی ہے کہ آج کام ملے گا یا نہیں!

ہاں البتہ، کہیں کہیں فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کے لیے چھوٹی موٹی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ مزدور پیشہ افراد کو اس دن کے بارے میں علم ہی نہیں کہ یوم مزدور کیا ہے۔ نہ ہی انہیں اپنے حقوق کے بارے میں کوئی خاص آگاہی ہوتی ہے، اور جنہیں ہوتی ہے وہ بھی اس سرمایہ دارانہ نظام میں آواز اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔

کارخانوں میں کام کرنے والی چند خواتین سے جب ان کی مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں اتنا معاوضہ نہیں دیا جاتا جتنا کام لیا جاتا ہے۔ ہر سال ایسے ہی دن پرکئی وعدے اور دعوے بس باتوں کی حد تک کیے جاتے ہیں۔ مگر ان پر کوئی خاص عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ جبکہ غربت کے منحوس چکر میں پسنے والے لوگوں کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔

علاوہ ازیں، کارخانوں، بھٹوں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والے مزدوروں خصوصاً عورتوں سے متعلق کوئی خاص قوانین نہیں بنائے گئے ہیں اور انہیں کام کرنے کی جگہوں پر بیشتر ہراسانی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

زیادہ تر ایسے واقعات میں اپنے حقوق کے متعلق آگہی یا اس پر آواز اٹھانے کا اعتماد ہونے کے بجائے اپنا روزگار بچانے کے لیے خاموش رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے متعلق بھی کوئی پالیسی موجود نہیں ہے، نہ ہی ان کی اجرت کا کوئی تعین ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ حال ہی میں پیش آنے والے مار پیٹ اور تشدد کے واقعات کے بعد بھی کوئی مثبت پالیسی یا حکمت عملی سامنے نہیں آسکی کہ ایسی صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔ جبکہ چائلڈ لیبر کا سرطان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان میں  مزدوروں کی روزانہ کی اجرت میں مہنگائی کے تناسب سے کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ کمی ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ کئی مزدور روزانہ ایک ہزار روپے سی بھی کم کما رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی زندگی کا معیار بد ترین سطح تک گر چکا ہے۔

آخر اس دن کو منانے اور عام تعطیل کا مقصد کیا ہے؟ جن کا دن ہے ان کو اس سے کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ سرکاری ملازمین، افسروں، اسکولوں، اداروں کی چھٹی سے مزدور کے گھر میں راشن نہیں آتا۔ چھٹی جیسی عیاشی بھرے پیٹوں کے لیے تفریح کا باعث ہوسکتی ہے۔ دیہاڑی دار مزدور کے لیے صرف ایک خسارہ ہے۔

چھٹی تو کرلی ہے

کیا اس کے گھر میں اس دن راشن ڈلوایا ہے؟

اس کو تو اس دن سے کوئی غرض نہیں

جوآج بھی کام پر آیا ہے

فرضی دن اور فرضی باتیں

نام کسی کا، عیش کسی کے

چھوڑو یار!

دفتر والو! افسر نیلی بتی والو!

اور بے کار کے ٹھیکیدارو!

تم کو یہ دن بہت مبارک!

 ہر سال یہ دن آتا ہے مگر مزدور طبقے کی حالت میں اس دن اور اس تعطیل سے کوئی فرق پڑتا نہیں نظر آرہا۔ سب اسپیکروں میں بولنے والے انسانیت کے علمبردار نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی تبدیلی دکھائی نہیں آتی۔

اگر واقعی انسانیت کے ٹھیکیدار مزدوروں کے حقوق کے متعلق سنجیدہ ہیں تو اسپیکروں میں نعرے لگانے کے بجائے عملی طور پر اقدامات اٹھائیں۔ مزدوروں کی اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے مناسب قانون سازی کی جائے۔ مزدور طبقے خصوصاً خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے ایسا سرکاری پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں آسانی سے ان کی رسائی اور داد رسی ہو سکے۔  یاد رہے کہ چھٹی سے، کھوکھلے وعدوں سے اور نعروں سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا۔

بھوک کی چغلی کھانے والے

زردی مائل چہرے والا

سوکھے سوکھے ہونٹوں پر وه

آس کی اک مسکان سجائے

قریه قریه بھٹک رہا ہے

نرم صدا معصوم ادا سے

زخمی دل سے جگ والوں کو

دکھ نگری کے شہزادوں کو

خوش باشوں کو، دل داروں کو

بے بس ماں کا راج دلارا

پھول کی مالا بیچ رہا ہے

پھول کے جیسا پیارا بچه

دل ہی دل میں کھیل رہا ہے

پاک وطن کا چاند ستاره

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

یکم مئی یوم مزدور.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: یکم مئی یوم مزدور میں کام کرنے کوئی خاص رہا ہے آج بھی کے لیے

پڑھیں:

آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟

راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ خیبرپختونخواہ میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں ؟ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ نے پیر کے روز اڈیالہ جیل کے قریب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے چار پانچ گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کررہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ملاقات نہ کرانے کی وجہ پارٹی میں تقسیم ہو اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے پارٹی تقسیم ہو، ہمیں مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی، اگر عمران خان سے ملاقات ہوجاتی تو شفافیت ہوتی اور لوگوں کا ابہام بھی ختم ہوجاتا۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئی، اب باجوڑ والے معاملے پر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں دئیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں، میں یہ کرسکتا ہوں مگر اس سے کیا ہوگا؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ن لیگ کو شرم آنی چاہیے شہداء کے جنازوں پر ایسی باتیں کرتے ہوئے، ن لیگ ہر چیز میں سیاست کرتی یے، ملک میں جمہوریت تو ہے نہیں اسمبلیاں جعلی بنائی ہوئی ہیں، جنازوں پر جانے کی بات نہیں انسان کو احساس ہونا چاہیے۔

اپنے لوگوں کی شہادتوں کے بجائے پالیسیز ٹھیک کرنی چاہیے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم نے تمام قبائل کے جرگے کرکے اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کی، ہم نے ان سے کہا مذاکرات کا راستہ نکالیں پہلے انہوں نے کہا تم کون ہو، پھر دوبارہ بات ہوئی تو ٹی آر اوز مانگے گئے ہم نے وہ بھی بھیجے، معاملات اس ٹریک پر نہیں جسے مسائل حل ہوں، ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں مسائل حل کرنے کا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پورے پہاڑی تودے مٹی بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے اور آج بھی متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے جبکہ سیلاب سے ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں صوبے میں لیکن کوئی خاطر خواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی نہیں نبھائی مگر میں اس پر سیاست نہیں کرتا ہمیں انکی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہم نے ہر چیز پر سیاست کی ایک جنازے رہ گئے تھے، اس سے قبل میں جن جنازوں میں گیا یہ نہیں گئے تو کیا میں اس پر سیاست کرونگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے عملی اقدامات کرکے حل نکالنا چاہیے، کسی کا بچہ کس کا باپ کسی کا شوہر کوئی بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے اور اس پر ایک پالیسی بننی چاہیے، میں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وزیر اعلٰی بنتے ہی میں نے پورے قبائل کے جرگے بلائے، میں نے کہا تھا افغانستان سے بات کرنی چاہیے جس پر وفاق نے کہنا شروع کیا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان اور ہمارا ایک بارڈر ہے ایک زبان ہے ایک کلچر ہے روایات بھی مماثل ہیں، ہم نے وفاقی حکومت کو ٹی او آرز بھیجے سات آٹھ ماہ ہوگئے کوئی جواب نہیں دیا، یہ نہیں ہوسکتا میں پرائی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دوں، مذاکرات اور بات چیت کے ایجنڈے پر یہ نہیں آرہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہےَ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں پوچھتا ہوں آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کسی کے بچے شہید ہوں، ہمیں اپنی پالیسیز کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا، مجھے اپنے لیڈر سے اسلیے ملنے نہیں دے رہے انکا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • ماں کے خلاف شکایت کرنے والے بیٹے کو معافی مانگنے کی ہدایت، صارفین کا ڈی پی او غلام محی الدین کے لیے انعام کا مطالبہ
  • چھبیس ستمبر تک پلاٹوں کی قرعہ اندازی نہ کی گئی تو مزدور یونین احتجاجی تحریک کا آغاز کرے گی: چوہدری محمد یٰسین
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟
  • برطانوی ولی عہد کی رہائشگاہ کے نزدیک گاڑیاں چرا لے جانے والے چور بچ نکلے، سراغ نہ لگ سکا