مضحکہ خیز اور جھوٹ پر مبنی اعلامیے کا حقیقت سے تعلق نہیں، وزیر اطلاعات
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ نے کہا ہے کہ مضحکہ خیز اور جھوٹ پر مبنی اعلامیے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
اپوزیشن اتحاد کی آل پارٹیز کانفرنس اعلامیہ پر ردعمل میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب ن لیگ کو حکومت ملی تو ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف والے شرطیں لگا رہے تھے کہ ملک کب ڈیفالٹ کرے گا، ان کو پتہ ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، ملک میں سرمایہ کاری آ رہی ہے، اسٹاک ایکس چینج میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے، اسٹاک ایکس چینج کا بڑھنا سرمایہ کاروں کا معیشت پر اعتماد کا مظہر ہے۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن صرف تنقید برائے تنقید کرتی ہے، ان کے پاس کوئی پالیسی نہیں، گھسی پٹی رٹ ہے، یہ ذہنی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں، یہ پوری قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 9 مئی کے مقدمات کا فیئر ٹرائل ہوا، ان ٹرائل میں ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے گئے، 9 مئی کا ان کے پاس جواب نہیں، اس لیے اس طرح کی پریس کانفرنسیں کر کے چیخ و پکار کر رہے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی کسی ملک کےسربراہ نے پاکستان آنا ہوتا ہے تو اپوزیشن اسے سبوتاژ کرنے کے لیے ایسی پریس کانفرنس کرتی ہے، یا پھر یہ بتادیں کہ ملکی ترقی کو جس رفتار سے ہم لے کر جارہے ہيں ان کے پاس اس سے بہتر کرنے کے لیے کیا تجاویز ہيں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: وفاقی وزیر نے کہا کہ
پڑھیں:
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد
امریکا میں آزادی صحافت کے حوالے سے نئی بحث چھڑگئی ہے، جب وائٹ ہاؤس نے صحافیوں کے داخلے پر سخت پابندیاں عائد کردیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی پالیسی کے تحت صحافی اب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری یا دیگر اعلیٰ حکام کے دفاتر میں بغیر اجازت داخل نہیں ہوسکیں گے۔ اس کے علاوہ ’’اپر پریس روم‘‘ میں داخلہ بھی صرف پیشگی اپائنٹمنٹ کے ذریعے ممکن ہوگا، جس کے بغیر کسی کو رسائی نہیں دی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہے اور اس کا مقصد حساس معلومات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ پینٹاگون میں بھی اسی نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئی تھیں، جن پر امریکی صحافتی حلقوں نے سخت ردِعمل دیا تھا۔ اگرچہ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے کیے جارہے ہیں، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے پریس کی آزادی اور حکومتی شفافیت پر سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ پالیسی تمام میڈیا اداروں پر یکساں لاگو ہوگی، اور کسی بھی صحافی یا ادارے کو خصوصی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔