پی ٹی آئی رہنماؤں کو 9مئی کے مقدمات میں سزائیں،سربراہ پلڈاٹ سربراہ بلال محبوب کا اہم بیان
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سربراہ پلڈاٹ سربراہ بلال محبوب نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو 9مئی کے مقدمات میں سزاؤں پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ سزاؤں کا بنیادی مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ ایک تو یہ سوچ تھی کہ یہ واقعات او رمقدمات صحیح ہیں تو ان پر تیزی سے کام ہونا چاہئے تھا،مقدمات کی سنگین نوعیت کے پیش نظر فیصلے جلدی آ جانے چاہئے تھے،جب جرم کی اتنے عرصے کےبعد سزا سنائی جاتی ہے تو وہ اثر کم ہو جاتا ہے،لیکن بہرحال یہ ضروری تھاکہ اس کا کوئی نہ کوئی سد باب ہونا چاہئے،اس فیصلے کا کوئی اختتامیہ ہونا چاہئے،کیونکہ یہ اہم مقدما ت تھے،ان کو لٹکائے رکھنا درست نہیں تھا، اب ظاہر ہے کہ فیصلے ہوئے ہیں ان کیخلاف اپیل کا پروسیس بھی شروع ہو سکتا ہےاور لوگ لٹکے نہیں رہیں گے،امید کرنی چاہئے بہرحال انصاف جس طرح بھی ہو سکے گا وہ ان کو مہیا ہوگا، ان کو بھی اور ریاست کو بھی اور ملک کو بھی۔
"نوازشریف کا بھائی وزیراعظم، اس کی بیٹی وزیراعلیٰ، ہمارے پاس صرف "نک دا کوکا" ہی رہ گیا"،کیپٹن (ر) محمدصفدر کی پرانی ویڈیو پھر وائرل
ان کامزید کہناتھا کہ دیکھیں جب بھی کسی سیاستدان کو ہٹایا جاتا ہےیا اس کو سزا ہوتی ہےتو اس کا ایک سیاسی رنگ ضرور ہوتا ہے،وہ اپنے آپ کو وکٹم کے طور پر پیش کر سکتے ہیں اور لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ مظلوم ہیں اور اس کا پھر ہمدردی کا فائدہ انہیں پہنچتا ہے،آپ نے دیکھا ماضی میں جتنی بھی حکومتیں ہٹائی گئی ہیں خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ہو یا نوازشریف یا عمران خان کی، جب وہ ہٹتی ہیں تو لوگوں کی ہمدردی کی ایک لہر جو ان کے حق میں اٹھتی ہےاوریہی حال مقدمات کا ہوتا ہے،یہ تو درست ہے کہ اس کی سیاسی ہمدردی تو انہیں حاصل ہوگی،اس کیلئے حکومت کو بہت محنت کرنی پڑے گی،یہ ثابت کرنے کیلئے کہ واقعی جو سزائیں سنائی گئی ہیں واقعی وہ اس کے مستحق تھے اور یہ کہ یہ سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔
9 مئی مقدمات، زرتاج گل ، عمرایوب اور شبلی فرازسمیت مزید 108 ملزمان کو سزائیں سنا دی گئیں
سربراہ پلڈاٹ کا مزید کہناتھا کہ 9مئی انتہائی سنگین جرائم تھے،اس کا یقیناً جن لوگوں نے یہ کام کیایا اکسایااس کی سزاانہیں ملنی چاہئے،اس میں کوئی شک نہیں ہے،لیکن غلطی یہ ہوئی ہےکہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعداس کی جو سنگینی ہے وہ لوگوں کے ذہنوں میں کم ہو گئی ہے،اور لوگ یہ محسوس کرتے رہے ہیں کہ چونکہ اتنی دیر گزر گئی ہے ان کے پاس ثبوت نہیں ہے اس لئے یہ سیاسی قسم کے مقدمات ہیں،اگر اس وقت سزائیں ہوتیں وقت کے اوپر ،دن رات لگا کر لوگوں کو سزائیں دی جاتیں،تو پھرشاید لوگوں کا یقین اس انصاف کے پروسیس میں زیادہ ہوتا۔
لیسکو کا بارشوں کے دوران جلنے والے اور ڈیفیکٹو میٹرز کو تبدیل کرنے کا فیصلہ
انہوں نے کہاکہ آپ کو یاد ہے برطانیہ میں جب ہنگامے ہوئے تھے تو عدالتوں نے 24،24گھنٹے کام کرکےاس کا جلدی فیصلہ کیا تھاتاکہ لوگوں کے اوپر اس کا اثر ہو،تو لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اس کو ہلکے پھلکے انداز میں لیا جارہا ہے،پاکستان میں بدقسمتی سے ہمارا نظام انصاف اتنا کمزور ہے کہ یہ کام وقت پر نہیں ہوا، اس کا نقصان ہوگا، لوگوں کے ذہنوں میں جو تاثر پیدا ہوگاوہ ویسا نہیں ہو گا جو اس وقت اگرفیصلہ ہو جاتا تو پیدا ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کے پریس کانفرنس رہنماؤں کے حوالے سوال کے جواب میں بلال محبوب نے کہاکہ اب حال ہی میں شاہ محمود قریشی کو ایک مقدمے میں بری کیا گیا ہےاگرچہ وہ ایک مقدمہ ہے،شاہ محمود قریشی نے کوئی معافی نہیں مانگی اور دو سال زائد سے وہ اندر ہیں،وہ پی ٹی آئی کے سینئر ترین لوگوں میں سے ہیں،میراخیال ہے ان کا کیس اتنا مضبوط تھا کہ ان کو بری کرنا پڑا،میں نہیں جانتا کہ فوادچودھری کا کیس کیا ہے،لیکن تاثر یہ پیدا ہوسکتا ہے،کہ جولوگ معافی مانگ لیں، حالانکہ فواد چودھری نے معافی بھی نہیں مانگی انہوں نے ایک تاثر دیا تھا کہ وہ آئی پی پی میں شامل ہو گئے ہیں،لیکن پھر وہ پی ٹی آئی کے ساتھ رہے،وہ پی ٹی آئی کے بانی کو جیل میں ملتے بھی رہے،ان کے جو بیانات ہیں وہ سارے پی ٹی آئی کے حق میں ہی تھے،لہذا انہیں بری کرنے کا لازمی مقصد یہ نہیں ہےکہ انہوں نے کوئی معافی مانگی یا حکومت سے مل گئے ہیں۔
نااہلی کے بعد احمد خان بچھر پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے فارغ
ان کا مزید کہناتھا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ دونوں پارٹیاں پی ٹی آئی اور ان کی مخالف پارٹیاںوہ کتنے موثر طریقے سے اپنی کمیونیکشن کرتے ہیں،کیونکہ آج کے زمانے میں آپ اپنی بات کو کس طرح سے بیان کرتے ہیں کتنا لوگوں کو قائل کر پاتے ہیں،آپ کی بات ٹھیک ہے کہ سزاؤں سے یہ بیانیہ تو بنے گا، لیکن موثر طریقے سے آپ لوگوں کو یہ بیانیہ بیچتے ہیں ،چونکہ یہ حتمی سزا نہیں ہے،اب اس کی اپیلیں بھی ہو سکتی ہیں اپیلیں ہونگی تو ہائیکورٹس میں جو فیصلہ ہوگا، وہی حتمی فیصلہ ہوگا، آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اپوزیشن کا زیادہ مضبوط بیانیہ ہوگا۔
امریکا سے ٹریڈ ڈیل ہماری معیشت کیلئے خوش آئند پیشرفت ہے: بلال اظہر کیانی
سربراہ پلڈاٹ نے کہاکہ ان لوگوں کے پاس دو فورم ہیں ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ،یہ الگ بات ہے بعض اوقات مقدمات میں ایس ابھی ہوتا ہے کہ ایک کورٹ میں آپ کو سزا ہو جائے تو پھر آپ انٹراکورٹ اپیل بھی کر لیتے ہیں،تو ان مقدمات میں آپ کو ایک اورفورم مل جاتا ہے،سپریم کورٹ میں بھی سزا ہو جائے گا توپھر نظرثانی میں چلے جاتے ہیں،لیکن وہ وکلا کی چابک دستی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنے اچھے طریقے سے کیس کو پیش کرتے ہیں،اسی طرح سے پلیٹ فارم بڑھتے چلے جائیں گے،سزاؤں کے ختم ہونے اور کم ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کے مقدمات میں لوگوں کے ہوتا ہے نہیں ہے تھا کہ سزاو ں کو سزا
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)