گجرات کے قصائی مودی نے سندھو پر حملہ کیا ہے،اگر پانی بند ہوا تو پھر انکا خون بہے گا، بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
گجرات کے قصائی مودی نے سندھو پر حملہ کیا ہے،اگر پانی بند ہوا تو پھر انکا خون بہے گا، بلاول بھٹو WhatsAppFacebookTwitter 0 1 May, 2025 سب نیوز
میر پور خاص(سب نیوز)پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم نے عوام کے ساتھ ملکر سندھو دریا کو بچا لیا ہے، گجرات کے قصائی مودی نے سندھو دریا پر حملہ کیا ہے۔
میرپور خاص میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ جب میں وزیر خارجہ تھا تب بھی سندھ طاس معاہدے پر حملے ہوتے تھے، اب کشمیر کو بہانہ بناکر گجرات کے قصائی نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے سندھو پر حملہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پرامن ملک جبکہ اسلام پرامن مذہب ہے، ہم جنگ نہیں چاہتے تاہم مودی نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا جس کا ہم بھرپور دفاع کریں گے، بھارت کے لوگ بھی سندھو سے پیار کرتے ہیں اور ان کی تاریخ بھی اس دریا سے جڑی ہے۔
بلاول نے کہا کہ ہم مودی کو سندھو کا گلہ گھوٹنے کی اجازت نہیں دیں گے اور امید ہے کہ بھارت کے عوام بھی اپنے وزیراعظم کو ایسا کرنے سے روکیں گے، اگر سندھو پر حملہ کیا تو پھر یاد رکھیں کہ یا تو یہاں سے پانی بہے گا یا پھر ان کا خون بہے گا۔بلاول نے کہا کہ مودی جمہوریت پسند نہیں بلکہ انتہا پسند ہے اور ہم دنیا کے سامنے اس کو بے نقاب کریں گے، بھارت پرامن ملک نہیں جنگ چھیڑنے والا ملک ہے، ہمارے عوام اور فوج ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیں گے، سندھو کیلیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔پی پی چیئرمین نے کہا کہ بھارت کے پاس اگر پہلگام کے حوالے سے ثبوت ہے تو ہمیں دے، جو ملوث ہوا اسے سرعام تختہ دار پر چڑھائیں گے، اگر دھمکیاں دی گئیں تو پھر یاد رکھیں کہ ہم جنگ کیلیے بھی تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت بنی تو مخالفت کرنے والے سازشی عناصر سمجھے کہ موقع مل گیا، سندھو سے نئی نہریں نکالنے کے معاملے پر سیاسی یتیم احتجاج نہیں جشن منا رہے تھے اور وہ سمجھ رہے تھے کہ آپ کے حقوق کا ہم ان کی طرح سودا کرتے ہیں۔بلاول نے کہا کہ ان جماعتوں کو غیر جمہوری ادوار میں حکومت کا موقع ملا اور جب موقع ملا تو انہوں نے عوام کے حقوق کا سودا کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ بھول گئے کہ پیپلزپارٹی بھٹو، بے نظیر، زرداری، بلاول کی جماعت ہے، ہم نہ جھکتے ہیں نہ پیچھے ہٹتے ہیں، ہم اصولوں پر لڑتے آرہے ہیں اور لڑیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ نئی نہروں کا منصوبہ نگراں حکومت میں آیا، عارف علوی اس وقت صدر مملکت تھے، جس میں ایکنک نے نئی نہروں کا جبکہ ارسا نے پانی سے متعلق ایک جعلی سرٹیفیکٹ جاری کیا تھا۔پی پی چیئرمین نے کہا کہ عوام کا شکریہ جنہوں ووٹ دے کر ہمیں قومی اسمبلی میں پہنچایا، انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے اکثریت نہیں مل سکی تاہم عوام کی وجہ سے ایسی پوزیشن میں ہیں کہ ہم حکومت اور اپوزیشن کا راستہ روکتے ہیں اور ہم نے یہ کر کے دکھایا۔انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں پی پی کے صرف دو نمائندے تھے مگر ہم نے قائل کیا اور پھر منصوبے کو روکا دیا۔
بلاول نے کہا کہ سیاسی یتیموں نے زرداری کے خلاف آواز اٹھائی کیونکہ ان میں ہمت نہیں تھی کہ کینال بنانے والوں کے خلاف آواز اٹھائے۔ چیئرمین پی پی نے کہا کہ زرداری کو سلام پیش کرتا ہوں جو ہماری بھرپور نمائندگی کررہے ہیں اور سیاسی انداز میں مسائل حل کرتے ہیں، ہم نے عوام کے ساتھ ملکر سندھو دریا کو بچا لیا ہے۔ پرامن طریقے سے ہم نے لوگوں کو قائل کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایف بی آر کی کارروائیاں، مشہور فیشن برانڈ کی ٹیکس چوری پکڑ لی، 4آوٹ لیٹس سیل ایف بی آر کی کارروائیاں، مشہور فیشن برانڈ کی ٹیکس چوری پکڑ لی، 4آوٹ لیٹس سیل لوئرکوہستان میں گاڑی کھائی میں جاگری، ایک ہی خاندان کے 8افراد جاں بحق بھارتی فوج بنگلہ دیشی سرحد پر بھی الرٹ، میڈیا میں جنگ ٹھنڈی پڑ گئی آئی ایم ایف کی علاقائی اقتصادی رپورٹ جاری، پاکستان کی معیشت سے متعلق اہم پیشگوئی بھارت کے خلاف قوم ایک ہوگی لیکن افغانستان کے ساتھ کچھ ہوا تو ایک نہیں ہوگی، مولانا فضل الرحمان مزدوروں کے مقدمات جلد اور منصفانہ طور پر حل کیے جائیں گے، چیف جسٹسCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سندھو پر حملہ کیا انہوں نے کہا کہ بلاول نے کہا کہ گجرات کے قصائی پر حملہ کیا ہے بلاول بھٹو بھارت کے ہیں اور تو پھر بہے گا
پڑھیں:
نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
ڈاکٹر سلیم خان
بھاگوت اور مودی کی درمیان تعلقات اس قدر خراب ہیں کہ وزیر اعظم نے آر ایس ایس کی تعریف کردی سالگرہ پر مضمون لکھ دیا اس کے باوجود سرسنگھ چالک نے مودی کے جنم دن پرمبارکباد کا دو سطری پیغام تک نہیں لکھا ایسے میں کس منہ سے یہ پروچن کیا جارہا ہے ؟ بھاگوت کا اعتراف درست ہے کہ سیاست لوگوں کو متحد نہیں کر سکتی اور نہ انہیں متحد کرنے کاآلہ ٔکار بن سکتی ہے بلکہ وہ اتحاد کو بگاڑنے کا ہتھیار ہے ۔ یہ بات اس ہندوتوا کی سیاست پر ہو بہو صادق آتی ہے جس کی کمان بھاگوت اور مودی کے ہاتھ میں ہے ۔بھاگوت جی نے جب یہ انکشاف کیا کہ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں یہاں ہندو یا مسلمانوں کا غلبہ نہیں ہوسکتا ،صرف اور صرف ہندستانیوں کا ہی غلبہ ہوسکتا ہے تو یہ سن کر سنگھ پریوار کی شاکھا میں تربیت پانے والوں کو حیرت کا جھٹکا لگا ہوگا ۔ گرو گولوالگر اور روحانی پیشوا ساورکر کی آتما کو تکلیف پہنچانے کے لیے موہن بھاگوت نے یہ بھی کہہ دیا کہ ‘ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں نہیں رہنا چاہیے تو وہ ہندو نہیں’کیونکہ ساورکر نے تو شیواجی کے ہندو نواب کی بہو کے ساتھ حسنِ سلوک پربھی اعتراض کیا تھا ۔خطاب کے بعد سوال و جواب کے دوران بھاگوت نے یہ انکشاف کردیا کہ:”ہندو اور مسلمان ایک ہیں… اس لیے ان کے درمیان اتحاد کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؛ صرف ان کی عبادت کا طریقہ بدل گیا ہے۔ ہم پہلے ہی ایک ہیں۔ اتحاد کس بات کا کرنا ؟ کیا بدلا ہے ؟ صرف عبادت کا طریقہ بدلا ہے ؛ کیا یہ واقعی کوئی فرق پیدا کرتا ہے ”؟
بھاگوت جی نہیں جانتے کہ عبادت اور اس کے طور طریقہ پر عقائد کو سبقت حاصل ہوتی ہے اور جب وہ بدل جاتا ہے تو انسان کی زندگی کا نصب العین اور مقصد حیات تک ساری چیزیں بدل جاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ” اسلام زمانہ قدیم سے ہندوستان میں ہے اور آج تک قائم ہے ، اور مستقبل میں بھی قائم رہے گا۔یہ خیال کہ اسلام باقی نہیں رہے گا، ہندو سوچ نہیں ہے ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ”۔ بھاگوت ایک طرف تو سارے مسلمانوں کو ہندو کہتے ہیں اور پھر اسلام کے باقی رہنے کی پیشنگوئی بھی فرماتے ہیں ۔ اس تضاد بیانی پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بھاگوت مسلم ناموں والی سڑکوں اور شہروں کے نام تبدیل کرنے کے خلاف ہیں لیکن یوگی تو دور ان کی گود میں پلے بڑھے اور سنگھ کی شاکھا سے نکلے ہوئے فڈنویس تک ان کی سن کر نہیں دیتے تو کوئی غیر کیوں مانے ؟ آر ایس ایس کے سربراہ نے فرمایا کہ ان کااصرار اس بات پر ہے کہ سڑکوں یا شہروں کے نام جابر حملہ آوروں کے نام پر نہ رکھے جائیں تو کیا سارے ہندو راجہ مہاراجہ انصاف پسند تھے ۔ انہوں نے ایک دوسرے پر اور اپنی رعایہ پر ظلم نہیں کیا۔ بھاگوت جی کیا ایسے پیشواوں کے نام پر شہروں اور سڑکوں کو رکھنے کی مخالفت کریں گے جنھوں شودروں پر فرعون اور ہٹلر سے زیادہ مظالم کیے ۔ وہ بولے اے پی جے عبدالکلام، عبدالحمید کے نام ہونے چاہئیں لیکن سوال یہ ہے کہ گجرات میں لاشوں کے سوداگر نریندر مودی کو احمد آباد میں ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کا نام بدل کر اپنا نام رکھنے کی اجازت کس نے دی اور کم از کم بھاگوت نے علی الاعلان اس کی مخالفت کیوں نہیں کی ؟ دوسروں کو نصیحت کرنے سے قبل بھاگوت جی کو اپنے اور پریوار کے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے ۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مسلم قیادت کو بنیاد پرستی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت ہے ،اس کام کے لیے طویل المدتی کوششوں اور صبر کی ضرورت ہو گی۔ یہ ہم سب کے لیے ایک طویل اور سخت امتحان بھی ہو گا۔ جتنی جلدی ہم شروع کریں گے ، ہمارے معاشرے کو اتنا ہی کم نقصان پہنچے گا”۔ یہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے کیونکہ بنیاد پرستی کی خاطر منافرت کو سنگھ پریوار فروغ دے رہا ہے اور یہ مرض اس قدر بڑھ گیا ہے کہ خود بھاگوت کو یہ کہنا پڑ جاتا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ ڈھونڈنا ضروری نہیں ہے مگر یوگی تک ان کی نصیحت پر کان نہیں دھرنے کے بجائے سنبھل کی مسجد کا تنازع کھڑا کرکے اپنی سیاست چمکاتے ہیں ۔ بھاگوت کے کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ کاشی اور متھرا تنازع میں سنگھ ملوث نہیں ہوگا مگر پھر مسلمانوں کو یہ دونوں عباتگاہیں ہندووں کے حوالے کردینے کا مشورہ بھی دے دیتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا انہوں نے مسلم سماج کو بھی اپنی طرح بیوقوف سمجھ رکھا ہے ؟
دن رات ہندو راشٹر کے قیام کی مالا جپنے والے سنگھ پریوار کا سر براہ جب کہتا ہے کہ ”ہمیں بھارتی غلبے کے حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کے غلبے کے بارے میں نہیں”۔ جب وہ فرماتے ہیں کہ” مسلم برادری کے سمجھدار رہنماؤں کو انتہا پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے ” تو بیک وقت ہنسی اور رونا دونوں آتا ہے ۔ موہن بھاگوت کا یہ الزام بے بنیاد ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ آیا۔ سچ تو یہ ہے ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں نے نہیں بلکہ صوفیاء کرام کی سعیٔ جمیل سے پھیلا۔ مسلم حکمرانوں کی آمد سے بہت پہلے ملک کی جنوبی ریاست کیرالا میں پہلی مسجد تعمیر ہوگئی تھی جبکہ وہاں مسلم حکمرانوں نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندووں پر عقیدے کے معاملے کوئی زور زبردستی نہیں کی ۔ ہندو راجاوں اور مسلم بادشاہوں کے درمیان سیاسی جنگوں کو مذہبی رنگ دینے کا کام ہندوتوا نوازوں نے کیا ہے ۔ سر سنگھ چالک سمیت وزیر اعظم واسودھیو کٹمبکم یعنی ساری دنیا ایک کنبہ ہے کی بات تو بہت کرتے ہیں مگر دراندازی یعنی گھس پیٹھیا کی سیاست اور این آر سی کے ذریعہ اپنے ہی ملک کے باشندوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
موہن بھاگوت نے ویسے تو طبِ حیوانی کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہے مگر کبھی کبھار وہ بڑی دانشورانہ باتیں کرنے لگتے ہیں مثلاًانہوں نے ہندوستان کی فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہاں کا مزاج جدوجہد یا ٹکراؤ کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا ہے ۔ہندوستان کی اکائی زمین، وسائل اور معرفتِ ذات کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ماتا اور ہمارے بزرگوں کے تئیں عقیدت ہی سچے ہندو کی پہچان ہے ۔ان بلند بانگ دعووں کا معروضی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ ہندوستان میں جنم لینے والے بودھ مت کا دیش نکالا کس نے کیا ؟ اس معاملے کو افہام تفہیم کے ذریعہ سلجھانے کے بجائے بودھوں کو نسل کشی سے ڈراکر ملک بدری کے لیے کیوں مجبور کیا گیا؟ آج کے دور میں علی
الاعلان نسل کشی کی ترغیب کون دے رہا ہے ؟ کیا نیپال میں چند سال قبل اقتدار کی خاطر اپنے خاندان کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ولیعہد ہندو نہیں تھا ۔ اس وقت تو وہ دنیا کی واحد ہندو ریاست تھی؟ ا بھی حال میں نیپال کے سابق وزیر اعظم کی بیوی کو زندہ جلا دینے والے کون تھے ؟ اس سے قبل بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی اقتدار تبدیل ہوا مگر ایسی سفاکی کا مظاہرہ کہیں نہیں ہوا۔ لداخ میں اپنے ہی نوجوانوں پر گولی چلانے کا حکم دینے والے ہندو ہے یا نہیں؟
آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے عصرِ حاضر میں اپنی تنظیم کی غرض و غایت اس طرح بیان کی کہ سنگھ کی حقیقی معنویت تبھی ہے ، جب بھارت وشوگرو (عالمی رہنما) بنے ۔ عالمی قیادت کے تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے ۔ وہ بغیر چیلوں کے وشو گرو دکھائی دیتے ہیں ۔ عالمی سیاست کی بساط چین اور امریکہ مودی جی سے کھیل ر ہے ہیں ۔ ٹرمپ ایک دن ڈانٹتے ہیں تو دوسرے دن دوست کو گنوانے پر افسوس کا اظہار کرکے امید جگاتے ہیں ۔ تیسرے دن تعریف کرکے پچکارتے ہیں اور چوتھے دن اپنے وزیر خزانہ نے مزید ٹیرف کے بڑھانے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شریر بچے کو پہلے ڈانٹا جائے اور وہ منہ بسور کر بیٹھ جائے تو لالی پاپ پکڑا کر خوش کردیا جائے ۔وہ اسے لے کر اچھلنے کودنے لگے اور پھر سے شرارت کا خطرہ لاحق ہوجائے تو دوبارہ ڈانٹ ڈپٹ دیا جائے ۔ امریکہ یہی کررہا ہے اور اسی لیے وزیر اعظم نے اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے بذاتِ خود امریکہ جانے کے بجائے وزیر خارجہ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ حل نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کو پنڈت نہرو نے غیر جانبدار ممالک کا عالمی رہنما بنایا تھا مودی جی جیسے نام نہاد وشوگرو نے اس مقامِ بلند سے بھی ہندوستان کو محروم کردیا ہے ۔ اس انحطاط میں آر ایس ایس کا بھی حصہ ہے کیونکہ وزیر اعظم ملک کے نہیں بلکہ سنگھ کے سیوک( خادم ) ہیں۔کاش کے یہ بات موہن بھاگوت کی سمجھ میں آجائے کہ ملک کو وشو گرو بنانا کم از کم مودی جی کے بس کا روگ نہیں ہے ۔موہن بھاگوت نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک سپر پاور ہے اور وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرے گا لیکن سوال یہ کہ کون ہماری پروا کرتا ہے ۔ چین، امریکہ، روس اور سعودی عرب سبھی تو پاکستان کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ بھاگوت اپنے آپ کو بہلانے کے لیے کہتے ہیں لوگ ہماری ترقی سے حسد کرتے ہیں حالانکہ ‘دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔