صیہونی دشمن غزہ جنگ میں شدید تذبذب کا شکار ہوچکا ہے، سید عبدالملک الحوثی
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ کے قائد سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ جنگ میں مسلسل شکست اور ناکامیوں کے باعث نیز مزاحمتی کارروائیوں میں جانی و مالی نقصان کی وجہ سے صیہونی رژیم شدید تذبذب کا شکار ہوچکی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین نے آج بروز جمعرات یکم مئی 2025ء "مستکبرین کے خلاف یوم آواز" کی مناسبت سے تقریر کرتے ہوئے غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے بارے میں کہا: "اسرائیلی دشمن نے 18 ہزار سے زائد فلسطینی بچوں کا قتل عام کیا ہے اور انتہائی محدود علاقے میں اتنا وسیع قتل عام بہت ہی ہولناک جرم ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "اسرائیلی دشمن نے گذشتہ دو ماہ سے زیادہ عرصے سے غزہ میں مقیم فلسطینیوں کا محاصرہ کرکے انہیں بھوک کا شکار رکھا ہوا ہے اور اس دوران ہر قسم کی انسانی امداد روک رکھی ہے۔ 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی قحط اور بھوک کا شکار ہیں اور یہ مجرمانہ اقدام دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے انجام پا رہا ہے۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے کہا: "صیہونی دشمن بھوک کو مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور فرزندان ملت فلسطین کے دردناک اور غم انگیز مناظر دل کو دہلا دیتے ہیں۔ بچوں اور خواتین کا بہت ہی کم مقدار میں غذا حاصل کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہو جانا عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور انسانی معاشروں کے لیے شرم کا باعث ہے۔"
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا: "غزہ کی پٹی میں فلسطینی مجاہدین نے گذشتہ دو ہفتے سے اعلیٰ درجہ شجاعت اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ القسام بٹالینز نے صیہونی فوجیوں کے خلاف اسپشل آپریشنز کا ایک سلسلہ انجام دیا ہے۔" انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: "غزہ میں فلسطینی مجاہدین کی کارروائیوں نے غاصب صیہونی فورسز کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے اور صیہونی فوج کی چیف آف آرمی اسٹاف پر کاری ضرب لگائی ہے۔ فلسطینی مجاہدین نے فرنٹ لائن پر جو مزاحمتی کارروائیاں انجام دی ہیں، ان کا مطلب یہ ہے کہ اگر صیہونی فوج شہر کی جانب پیشقدمی کریں تو انہیں کہیں زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔" انصاراللہ یمن کے سربراہ نے کہا: "اسرائیلی دشمن غزہ جنگ کے بارے میں شدید تذبذب کا شکار ہوچکا ہے اور یہ اسلامی مزاحمت کے مجاہدین کی اعلیٰ درجہ استقامت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے، جن میں قسام بٹالینز، القدس بریگیڈز اور دیگر فلسطینی مجاہد گروہ شامل ہیں۔"
لبنان کی طاقت مزاحمت میں ہے
قائد انصاراللہ یمن سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا: "اسرائیلی دشمن نے لبنان پر جارحانہ اقدامات اور عام شہریوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے اور اس ہفتے لبنان کے بارے میں جو چیز توجہ کے قابل ہے، وہ دشمن کا نیا موقف ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کی شدید خلاف ورزی کر رہا ہے اور صحیح معنی میں غاصب طاقت ہے۔" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لبنان حکومت کی جانب سے کمزور موقف اس بات کی واضح دلیل ہے کہ لبنان کی طاقت کا انحصار اسلامی مزاحمت پر ہے اور لبنان میں اسلامی مزاحمت اب بھی اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں ایک حقیقی ڈیٹرنس طاقت کا کردار ادا کر رہی ہے۔ سید عبدالملک الحوثی نے کہا: "ہم حزب اللہ میں اپنے عزیز بھائیوں اور اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل جنہوں نے بہت ہی موثر تقریر کی، درود بھیجتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حزب اللہ کے ساتھ ہیں اور اسرائیلی دشمن کی جانب سے حملوں میں شدت کی صورت میں اس کی حمایت میں عملی اقدامات انجام دیں گے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سید عبدالملک بدرالدین انصاراللہ یمن اسرائیلی دشمن اسلامی مزاحمت الحوثی نے کا شکار ہے اور اور اس اس بات نے کہا
پڑھیں:
اسرائیل پاکستان کا سب سے بڑا دشمن
ریاض احمدچودھری
پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے اور اس کی ایران کے ساتھ ایک طویل اور غیر محفوظ سرحد ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں حکام نے امریکی سفارت خانے اور دیگر شہروں میں امریکی قونصل خانوں کی سکیورٹی بھی ممکنہ احتجاج یا تشدد کے خدشے کے پیش نظر مزید سخت کر دی ہے۔اسرائیل کی جانب سے ایران میں فضائی حملوں کے بعد پاکستان نے جمعے کے روز اپنے ایئر ڈیفنس سسٹمز فعال کرتے ہوئے ایران سے ملحقہ سرحد اور جوہری تنصیبات کے قریب جنگی طیارے الرٹ کر دیے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ اقدام احتیاطی تدبیر کے طور پر کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری اور اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری اقدامات اٹھائیں تاکہ اس کشیدگی کو روکا جاسکے، جو علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے بھی اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یہ حملے اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایران سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ان حملوں کو ”ناجائز” اور ”ایرانی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی” قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ایران میں موجود ہزاروں پاکستانی زائرین کی فوری واپسی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں ہے، جہاں اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ جھڑپوں نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔اسرائیل کے ایران پر وسیع پیمانے پر کیے گئے حملوں کے بعد عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔چونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور حالیہ دنوں میں بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران اسرائیلی ساختہ ڈرونز کو کامیابی سے تباہ کرچکا ہے، تو اب عوامی سطح پر یہ سوال شدت سے ابھر رہا ہے کہ کیا پاکستان موجودہ تنازع میں کوئی مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے؟
پاکستان مضبوط قوم و فوج رکھتا ہے اسرائیل کی جرات نہیں پاکستان پر حملہ کرے، اسرائیل بھارت سے مل کر بلوچستان اور کے پی میں سازشیں ہی کر سکتا ہے،پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے، امت مسلمہ متحد ہو جائے تو فلسطین آج آزاد ہو سکتا ہے۔ گریٹر اسرائیل پلان کا حصہ ہے شام لبنان یمن ترکی و سعودی عرب پر حملہ کررہا ہے تو اسے صرف اتحاد سے روکا جا سکتا ہے۔ سچ بڑا تلخ ہے چھتیس اسلامی ممالک ہیں جس کے اسرائیل سے تعلقات ہیں تین نے اپنے سفیر واپس بلائے ہیں، حق اس کو ملتا ہے جو قانون کو مانتا ہے۔
اسرائیل نے ہمیشہ پاکستان کی مخالفت کی۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ہی عرب ممالک پر اسے تسلیم نہ کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل پاکستان کے خلاف بننے والے ہر اتحاد کا سر گرم رکن ہے۔ پاکستان نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اسرائیل اور پاکستان کے درمیان فاصلے کی زیادتی اسرائیل کو براہ راست پاکستان کے خلاف اقدام سے روکے ہوئے ہے۔ اس کا توڑ اس نے یہ نکالا ہے کہ اسرائیل، بھارت جو کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور جس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا، کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف منصوبے بنارہا ہے۔ کشمیر کے جنگ آزادی کے خلاف بھارت کی فوجی اور افرادی امداد کر رہا ہے۔ تاکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلا جا سکے۔ اس سے پاکستان پر برا اثر پڑے گا۔ اسی طرح بھارت کو طیارے اور اب جدید ترین فالکن میزائل دے کر پاکستان کے خلاف اس کی مدد کر رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان کو وجود خدانخواستہ مٹ جائے تو وہ اسلامی دنیا بالخصوص عرب دنیا کو اپنے زیر اثر کر لے گا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے۔
پاکستان یہودیوں کی آنکھوں میں شروع دن سے کھٹکتا رہا ہے 1956ء میں نہر سویز پر اسرائیل ، برطانیہ اور فرانس کے حملے سے لے کر اب تک عرب دنیابالخصوص اہل فلسطین کے خلاف بین الاقوامی صیہونیت نے جتنی کارروائیاں کیں پاکستان نے خود عرب ملک نہ ہونے کے باوجود ان کارروائیوں کو اپنے خلاف سرگرمیاں سمجھا بلکہ عربوں کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی کیونکہ وہ ان کے ساتھ اسلام کے اس رشتے سے منسلک ہے جو گزشتہ پندرہ صدیوں سے مسلمانوں کو آپس میں پروئے ہوئے ہے اور وہ عربوں پراحسان کرکے نہیں بلکہ اپنا دینی فریضہ سمجھ کر اپنا اسلامی کردار ادا کرتا ہے جواباً عربوں کا طرز عمل بھی ایسا ہی تھا وہ پاکستان کے اس کردار کو دلی طور پر پسند کرتے رہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیاتو انہوں نے پاکستان کی اس کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھا اور اس روز اپنے طور پر بے حد خوشی کا اظہار کیا بعض عرب ملکوں نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو سیاسی طور پر تسلیم بھی کرلیا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا اور امریکہ ، برطانیہ وغیرہ کے سخت دباؤ اور ترغیب کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہا اسرائیل کی اس دشمنی کا ایک سبب اور بھی ہے وہ یہ کہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد اسلام ہے یہود کا اسلام کے ساتھ دشمنی صدیوں پرانی ہے۔