اسٹیو ویٹکاف کی وائٹ ہاؤس میں سلامتی مشیر کے طور پر تعیناتی میں عدم دلچسپی
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اپنی ایک رپورٹ میں فاکس نیوز کا کہنا تھا کہ مائیکل والٹز اور ان کے نائب کی وائٹ ہاؤس کے اہم عہدوں سے برطرفی کا تعلق سیگنل گیٹ لیک اسکینڈل سے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ CNN نے دو آگاہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر کے خصوصی نمائندے "اسٹیو ویٹکاف" اس بات میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ انہیں وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے عہدے سے ہٹائے جانے والے "مائیکل والٹز کی جگہ تعینات کیا جائے۔ رویٹرز کے مطابق، امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ "کرس لینڈو" بھی اس عہدے کے ممکنہ امیدواروں میں شامل ہیں تاہم بعض میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پوزیشن پر اسٹیو ویٹکاف کی تعیناتی کا امکان اب بھی موجود ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کو کچھ گھنٹے پہلے ہی اس عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
ان کی برطرفی کے حوالے سے وال اسٹریٹ جرنل نے مطلع ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مائیکل والٹز، ایران اور یوکرین کے حوالے سے سخت موقف رکھتے تھے جس کی وجہ سے وائٹ ہاؤس کے دیگر عہدیداروں سے وہ متصادم رہتے تھے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مائیکل والٹز کو اہم معاملات بالخصوص ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات پر غیر ضروری گفتگو کی وجہ سے برطرف کیا گیا ہے۔ فاکس نیوز کے مطابق، مائیکل والٹز اور ان کے نائب کی وائٹ ہاؤس کے اہم عہدوں سے برطرفی کا تعلق سیگنل گیٹ لیک اسکینڈل سے ہے۔ جہاں انہوں نے غلطی سے ایک رپورٹر کو ایسے پرائیویٹ گروپ میں شامل کر لیا تھا جس میں امریکی سینئر اہلکار موجود تھے اور وہ سیکورٹی معاملات پر گفتگو کر رہے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وائٹ ہاؤس کے ذرائع کا
پڑھیں:
اگر حشد الشعبی نہ ہوتی تو ہم شام کے علویوں کیطرح مارے جاتے، سابق عراقی وزیراعظم کے مشیر
اپنے ایک بیان میں ایوب الربیعی کا کہنا تھا کہ حشد الشعبی صرف ایک رسمی سیکورٹی ادارہ نہیں بلکہ قربانی اور بہادری کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق عراقی وزیراعظم "نوری المالکی" کے مشیر "عباس الموسوی" نے رضاکار عراقی دفاعی فورس الحشد الشعبی کے خلاف مشکوک پراپیگنڈہ مہم کے بارے میں کہا کہ اگر حشد الشعبی نہ ہوتی تو ہم بھی شام کے علویوں کی طرح قتل عام کا شکار ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ حشد الشعبی کو ختم کرنے کے لیے کسی قانونی سازی کو شیعہ رہنماؤں نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں حشد الشعبی کے تشخص کو مجروح کرنے کے لیے ایک منظم مہم چلائی جا سکتی ہے۔ عباس الموسوی نے واضح کیا کہ کوآرڈینیشن فریم ورک میں شیعہ جماعتوں کا موقف کسی تنگ نظری پر مبنی نہیں بلکہ ان کا مقصد قومی مفادات اور عراق کی حفاظت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حشد الشعبی نے شام میں ہونے والے خونریز واقعات کی تکرار کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ "مارکو روبیو" کے عراقی وزیر اعظم "محمد شیاع السوڈانی" سے حالیہ رابطے کے بارے میں کہا کہ وہ گزشتہ کوششوں میں ناکامی کے بعد محمد شیاع السوڈانی کے ذریعے اپنی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قابل غور ہے کہ گزشتہ ہفتے، عراقی پارلیمنٹ میں سیکورٹی اور دفاعی کمیٹی کے سابق رکن "ایوب الربیعی" نے کہا کہ حشد الشعبی کو نشانہ بنانے کی امریکی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
ایوب الربیعی نے کہا کہ حشد الشعبی صرف ایک رسمی سیکورٹی ادارہ نہیں بلکہ قربانی اور بہادری کی علامت ہے۔ یاد رہے کہ یہ فورس جون 2014ء میں افراتفری کے واقعات کے بعد شیعہ مذھبی قیادت کے فتویٰ پر وجود میں آئی جس نے عراق کو اس سازش سے بچایا جس میں اس ملک کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک دہشت گرد گروپ کے حوالے کرنا تھا۔ یہ وہ دہشت گرد گروپ تھا جسے کئی خفیہ ایجنسیوں کی مدد حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے اس نے موصل، صلاح الدین، الانبار اور دیگر علاقوں میں اپنے کنٹرول شدہ علاقوں میں قتل عام کیا۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کی حشد الشعبی کو نشانہ بنانے کی کوششیں تین وجوہات کی بنا پر ناکام ہوں گی۔
1. عراقی عوام کی بیداری
2. عوام کا حشد الشعبی پر اعتماد جو تمام طبقات کی نمائندگی کرتا ہے
3. اس فورس پر مکمل بھروسہ جس نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے قربانیاں دیں اور اب بھی عراق کی سلامتی و استحکام کے لیے کام کر رہا ہے۔
ایوب الربیعی نے کہا کہ یہ کوششیں اُن مشکوک منصوبوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو کمزور کرنا ہے تا کہ صہیونی رژیم کو فائدہ پہنچے جو مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ کی حمایت سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف خوفناک جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 170,000 سے زائد فلسطینیوں کے شہید یا زخمی ہونے کے باوجود کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا۔