پہلگام فالس فلیگ؛ ڈراما بے نقاب ہونے پر بھارت بوکھلا گیا، الزامات کی سیاست شروع
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
مودی سرکار کا پہلگام فالس فلیگ کا ڈراما بے نقاب ہونے پر بھارت بوکھلا گیا اور اب اس نے الزامات کی سیاست شروع کردی ہے۔
ذرائع کے مطابق پہلگام واقعے سے متعلق حقائق منظر عام پر آنے اور گمراہ کن پروپیگنڈا بےنقاب ہونے کے بعد بھارت حواس باختہ ہوگیا اور پاکستان کی جانب سےالزامات کے بجائےحقائق بیان کرنےپربھارت شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا۔
پاکستان نے بھارتی ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی کے شواہد پوری دُنیا کے سامنے آشکار کردیے، جس کے بعد جنگی جنون مین مبتلا بھارت حقائق کے بجائےالزامات درالزامات کی سیاست کر رہا ہے۔
ترجمان پاک فوج (ڈی جی آئی ایس پی آر) نے پریس کانفرنس میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے حقائق بیان کیے، جس کے بعد بھارت حقائق کو جھٹلا نے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
دوسری جانب حقائق سامنے آنے کے بعد بی جے پی کے انتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے کانگریس رہنماؤں کو شدید تنقید اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کانگریس لیڈر وجے ودیتیوار نے پہلگام حملے کے بعد بی جے حکومت اور بھارتی فوج کی ناکامی پرشدید تنقید کی تھی۔
ذرائع کے مطابق بھارتی سول سوسائٹی اور کئی اپوزیشن رہنماؤں نے بھارتی فوج کی ناکامی پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ بھارتی میڈیاپہلےبھی حقائق چھپانے کےلیے سچ بولنے والی آوازوں پر پابندیاں لگا چکا ہے۔
پہلگام حملے کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار بھارت نے پاکستان کے کئی چینلز اور سوشل میڈیااکاؤنٹس پر پابندی لگا دی ہے۔ حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے بھارت اختلافی آوازوں پر ظلم و ستم میں مصروف ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی بوکھلاہٹ سے واضح ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حقائق بیان کیے۔ مودی سرکار کوحقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرکے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے بعد
پڑھیں:
پاکستان میں بجٹ کی سیاست
جون کا مہینہ جیسے ہی قریب آتا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی اور بے چینی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجہ وہ اہم دستاویز ہے جسے ’’وفاقی بجٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صرف آمدن اور خرچ کا گوشوارہ نہیں بلکہ حکومت کی ترجیحات، ارادوں اور مسائل کا عکاس ہوتا ہے۔ آئینی طور پر مرتب کردہ اور ضابطہ کار کے مطابق پیش کیا جانے والا یہ بجٹ عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس کے مندرجات کا تجزیہ کریں، اس پر تنقید کریں اور بالآخر اس کی منظوری دیں۔ یہ عمل محض مالی کارروائی نہیں بلکہ جمہوریت کا ایک مظہر ہے جہاں ریاست کا مالی وژن سامنے آتا ہے اور اس پر بحث ہوتی ہے۔
پاکستان کے قیام 1947ء سے اب تک ستر سے زائد وفاقی بجٹ پیش کیے جا چکے ہیں، جن کا انداز، حکمت عملی اور نتائج وقت کے ساتھ مختلف رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد کے سادہ بجٹوں سے لے کر موجودہ دور کے پیچیدہ اور تکنیکی بجٹوں تک، ہر بجٹ اپنے زمانے کی معاشی حقیقتوں کا عکس اور قومی پالیسی کی راہ دکھانے والا نقشہ رہا ہے۔
وفاقی بجٹ پیش کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ سے وزیر خزانہ پر رہی ہے، اگرچہ بعض مواقع پر یہ فریضہ وزیراعظم یا کسی قائم مقام وزیر نے بھی انجام دیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ غلام محمد نے پہلا بجٹ 28 فروری 1948ء کو سندھ اسمبلی چیمبر کراچی میں ڈپٹی صدر تمیز الدین خان کی زیر صدارت پیش کیا۔ اس کے بعد سے لے کر موجودہ دور تک منتخب حکومتوں اور نگران حکومتوں کے وزرائے خزانہ یہ فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ 1985ء میں پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے بعد بجٹ اجلاس زیادہ باقاعدہ، منظم اور قانون سازی میں فعال ہو گئے۔ یہ بجٹ مباحثے پارلیمان کی کارکردگی اور سیاسی بلوغت کا پیمانہ بن گئے۔
1985ء سے اب تک کے بجٹ اجلاسوں کا تقابلی مطالعہ ایک مخلوط تصویر پیش کرتا ہے۔ ضابطہ کار کے مطابق اراکین پارلیمان کو بجٹ کے تمام پہلوؤں پر بات کرنے کی اجازت ہے،جیسے معیشت کی مجموعی صورتحال، ٹیکس تجاویز، ترقیاتی اخراجات، اور مختلف شعبوں کی ترجیحات۔ مگر حقیقت میں بجٹ تقاریر اور مباحثے اکثر ان بنیادی مالی امور سے ہٹ کر سیاسی نکتہ چینی، علاقائی مسائل، انتظامی شکایات اور دیگر موضوعات کی طرف نکل جاتے ہیں۔
17 جون 1975 ء کو بجٹ پر عمومی بحث کے دوران محترمہ ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر عشرت خاتون عباسی نے واضح رولنگ دی کہ ’’بجٹ پر عمومی بحث کے دوران اراکین کسی بھی معاملے پر اظہار خیال کر سکتے ہیں‘‘۔ 1985ء کے بعد کی اسمبلی کارروائیوں کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ اجلاسوں کے دوران ہونے والی تقریر کا اوسطاً صرف 40 فیصد حصہ بجٹ سے متعلقہ موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ باقی 60 فیصد وقت دیگر سیاسی معاملات پر صرف ہو جاتا ہے۔ سیاسی استحکام کے دنوں میں بجٹ پر مرکوز گفتگو کی شرح قدرے بڑھ جاتی ہے، مگر سیاسی بحران یا حکومت کی تبدیلی کے مواقع پر بحث زیادہ جذباتی اور کم پالیسی پر مبنی ہو جاتی ہے۔
سال 1988، 1993، 1999، 2008 اور 2018 ء کے بجٹ اجلاس خاص طور پر سیاسی تبدیلیوں، نگران حکومتوں یا اچانک حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے متاثر ہوئے، جبکہ 2002، 2013، اور 2021 ء کے سیشن زیادہ منظم اور موضوعاتی تھے، جن میں پارلیمانی کمیٹیوں اور حزب اختلاف نے بجٹ دستاویزات پر تفصیل سے کام کیا۔
قائدین اور رہنماؤں کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ وہ اسپیکرز جنہوں نے ضابطوں پر سختی سے عمل درآمد کروایا اور وہ وزرائے خزانہ جو ایوان میں موجود رہے اور سوالات کا جواب دیتے رہے، ان کی موجودگی نے بحث کو مالیاتی مواد پر مرکوز رکھا۔ جب قیادت کمزور ہوئی اور نظم و ضبط میں نرمی آئی، تو بجٹ بحث بھی متاثر ہوئی۔ مزید یہ کہ بیشتر اراکین پارلیمان کے پاس بجٹ کے تکنیکی پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے مطلوبہ سہولتیں اور معاونت موجود نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ان کی شرکت محدود رہتی ہے۔
ان رکاوٹوں کے باوجود، بجٹ پر بحث پارلیمانی تقویم کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اپوزیشن حکومت کے دعوؤں کو چیلنج کرنے کا موقع حاصل کرتی ہے اور حکومت اپنی کارکردگی کا دفاع کرتی ہے۔ اسی موقع پر پارلیمان عوام کو ٹیکس، سبسڈی، سرکاری سرمایہ کاری اور اقتصادی اصلاحات کے معاملات پر براہ راست پیغام دیتی ہے۔ اس لحاظ سے، اگرچہ بعض اوقات گفتگو موضوع سے ہٹ جاتی ہے، تب بھی وہ جمہوری مقصد کی تکمیل کرتی ہے، اگرچہ تکنیکی گہرائی کی قیمت پر۔
جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالی خسارے، عوامی قرضوں کے دباؤ، اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی اصلاحات کی شرائط کا سامنا ہے، تو بجٹ پر زیادہ باخبر اور سنجیدہ بحث کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اراکین پارلیمان کو یہ سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بجٹ صرف سیاسی دستاویز نہیں بلکہ ہر پاکستانی شہری کی زندگی پر اثر انداز ہونے والا ایک مالیاتی میثاق ہے۔ ہمیں سیاسی تھیٹر کے رجحان کو مالیاتی شعور، تحقیق اور احتساب سے بدلنا ہوگا۔ تب ہی قومی اسمبلی اپنی آئینی ذمہ داری ، عوام کے وسائل کی نگہبان بننے،کا صحیح معنوں میں حق ادا کر سکے گی۔
1985 ء سے اب تک کے سفر کو دیکھا جائے تو پارلیمان میں تدریجی ارتقاء ضرور ہوا ہے،اکثر راستے سے ہٹنے کے باوجود وہ لمحات بھی آئے جب اسمبلی نے اپنے مالیاتی فرائض سنجیدگی سے نبھائے۔ اگر بجٹ اجلاس کو دوبارہ سنجیدہ گفت و شنید کے ایک مؤثر فورم میں بدلا جا سکے، تو یہ نہ صرف معیشت بلکہ قوم کی مجموعی سمت کے تعین کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مسئلہ قواعد و ضوابط میں نہیں بلکہ ان نمائندوں کے ارادے، تیاری اور سنجیدگی میں ہے جو عوام کے نام پر ایوان میں بولنے آتے ہیں۔