Express News:
2025-07-31@16:07:06 GMT

22 اپریل 2025

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا سا شہر ہے‘ یہ دو وجوہات سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ پہلی وجہ امرناتھ یاترا ہے‘پہلگام سے 45 کلومیٹر دور 17000 فٹ بلندی پر امرناتھ کی چوٹی ہے‘چوٹی پر ایک برفانی غار ہے جس میں برف کا ایک بڑا تودا ہے‘ یہ تودا آبشار کے جمنے سے پیدا ہوا‘ یہ غار امرناتھ مندر کہلاتا ہے اور ہندوؤں کے لیے بہت مقدس ہے‘ ہندو روایات کے مطابق بھگوان شیو اپنے بیل پر اننت ناگ آیا‘ بیل وادی میں چھوڑا اور پیدل اس غار میں آگیا ‘ شیو کے بیل کی وجہ سے وادی ’’بیل گاؤں‘‘ بنی اور یہ بعدازاں بگڑ کر پہلگام ہو گئی‘ امرناتھ مندر میں برف کا تودا اپنی شکل اور شباہت کی وجہ سے شیولنگ کہلاتا ہے‘ ہندو روایات کے مطابق یہ چاند کی مختلف تاریخوں میں چھوٹا اور بڑا ہوتا رہتا ہے‘ ہندو یاتری جولائی اور اگست میں شیولنگ کی زیارت کے لیے یہاں آتے ہیں۔

 اس زیارت کو امرناتھ یاترا کہا جاتا ہے اور اس میں عموماً اڑھائی لاکھ سے ساڑھے چھ لاکھ یاتری شامل ہوتے ہیں‘ علاقہ دشوارگزار ہے لہٰذا بے شمار یاتری راستے میں فوت ہو جاتے ہیں لیکن لوگ اس موت کومقدس سمجھتے ہیں‘ پہلگام کی دوسری وجہ شہرت سیاحت ہے‘ شہر کے گرد درجن بھر ایسے مقامات اور چراہ گاہیں ہیں جہاں پورے بھارت سے لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں‘ ان مقامات میں بسیران وادی بھی شامل ہے‘ یہ وادی پہلگام سے سات کلومیٹر دور ہے لیکن سڑک نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پہنچنے کے لیے 45 منٹ لگ جاتے ہیں‘ علاقہ بہت خوب صورت ہے‘ چیڑھ کے گھنے جنگلوں کے درمیان خوب صورت چراہ گاہ ہے جس میں دن بھر گھوڑے اور بھیڑ بکریاں چرتی رہتی ہیں‘ 22 اپریل 2025 کو اس چراہ گاہ کے قریب موجود چیڑھ کے جنگل سے چار نوجوان نکلے‘ انھوں نے فوجی یونیفارم پہن رکھی تھی اور ان کے ہاتھوں میں امریکی ساختہ ایم فور رائفلیں تھیں‘ یہ چاروں سیاحوں کے پاس آئے‘ ان کے شناختی کارڈ چیک کیے اور یہ انھیں گولیاں مارتے چلے گئے‘ 20 منٹ کی اس کارروائی میں 22 سیاحوں کو قتل کر دیا گیا جب کہ 17 کو زخمی کر کے میدان میں پھینک دیا گیا‘ نوجوان اس کے بعد جنگل میں غائب ہو گئے اور بھارت اب تک انھیں تلاش نہیں کرپایا۔

بھارتی میڈیا اس واقعے کو ’’پہلگام اٹیکس‘‘ کا نام دے رہا ہے‘ اس واقعے پر بھارت اور پاکستان کے دو مختلف ’’ورژن‘‘ ہیں‘ بھارت کے مطابق یہ مکمل فوجی آپریشن تھا‘ دہشت گردوں نے ایک ایسا مقام منتخب کیا جہاں سڑک اور موبائل فون سگنل نہیں ہیں‘ قریب ترین فوجی کیمپ بھی گھنٹہ بھر کے فاصلے پر ہے‘ فوج کا ہیلی پیڈ ایک گھنٹے کی فلائیٹ پر ہے‘ اسپتال بھی دور ہیں اور تھانہ بھی‘ دوسرا یہ لوگ دن ڈیڑھ بجے آئے‘ 20 منٹ میں کارروائی کی اور اس کے بعد جنگل کے ذریعے شام کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے‘ دہشت گرد یہ تک جانتے تھے بھارتی فوج اور حکومت کو ایکٹو ہونے میں تین سے چار گھنٹے لگ جائیں گے چناں چہ یہ اطمینان سے واپس پہنچ گئے‘ انھوں نے فوجی وردیاں بھی پہن رکھی تھیں تاکہ یہ پولیس اور فوج سے چھپ سکیں اور یہ مکمل فوجی طریقہ کار ہے۔ تیسرا یہ واردات جعفرایکسپریس جیسی ہے۔

 اس میں بھی دہشت گردوں نے مسافروں سے نام پوچھ کر گولی ماری اور زیادہ تر فوج کے جوان شہید کیے گئے‘ پہلگام میں بھی نام پوچھے گئے اور فوج اور خفیہ اداروں کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا‘ جعفرایکسپریس میں بھی صرف مردوں کو قتل کیا گیا تھا‘ کسی خاتون اور بچے کو شکار نہیں کیا گیا‘ پہلگام میں بھی صرف مردوں کو قتل کیا گیا‘ جعفر ایکسپریس میں بھی 26 لوگ شہید ہوئے‘ پہلگام میں بھی 26 لوگ مارے گئے اور آخری نشانی دونوں واقعات میں وہ رائفلیں استعمال ہوئیں جو امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا‘ بھارت کا خیال ہے ہماری را نے بی ایل اے کے ذریعے 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس کو اغواء کیا تھا اور آئی ایس آئی نے 22 اپریل کو پہلگام میں اس کا بدلہ لے لیا‘ ان کا خیال ہے پاکستان حالات کو 2004 سے پیچھے لے گیاہے‘ جنرل مشرف کے دور تک را پاکستان میں دہشت گردی کرتی تھی تو آئی ایس آئی چند دن میں بھارت میں اس کا بدلہ لے لیتی تھی‘ جنرل مشرف اور واجپائی نے 2004 میں یہ سلسلہ بند کر دیا لیکن جعفر ایکسپریس کے سانحے کے بعد یہ معاہدہ ختم ہو گیا ‘پاکستان نے اب دوبارہ بدلہ لینا شروع کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان کا موقف بالکل مختلف ہے‘ پاکستان کا کہنا ہے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج ہے‘ امرناتھ یاترا کی وجہ سے پہلگام ہر وقت فوج کے ریڈارپر رہتا ہے‘ خوف ناک نگرانی اور سات لاکھ فوج کی موجودگی میں یہ واقعہ ممکن نہیں لہٰذا یہ ان کا اپنا فالس فلیگ آپریشن ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ ان کی خوف ناک نااہلی اور ناقابل برداشت ’’سیکیورٹی فیلیئر‘‘ ہے اور اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے؟ کیا بھارتی شہریوں کی حفاظت بھی ہماری ذمے داری ہے؟ دوسرا پہلگام ایل او سی سے اڑھائی سو سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ کوئی بھی شخص یہ فاصلہ چند گھنٹوں میں طے نہیں کر سکتا‘ بھارت نے ایل او سی پر فینس لگا رکھی ہے اور یہاں 24 گھنٹے نگرانی ہوتی رہتی ہے‘ اتنی کڑی نگرانی میں دہشت گرد پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں اور اگریہ چلے بھی جائیں تو بھی اتنی بڑی واردات کے بعد یہ بچ نہیں سکتے لہٰذا یہ فالس فلیگ آپریشن ہے یا پھر کسی لوکل کا کام ہے‘ پاکستان بار بار بھارت سے یہ بھی کہہ رہا ہے اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو آپ یہ دے دیں‘ ہم بین الاقوامی تفتیش کے لیے بھی حاضر ہیں لیکن بھارت یہ آفر قبول نہیں کر رہا چناں چہ پاکستان اور بھارت 27 فروری 2019 کی طرح ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

 یہ جنگ کسی بھی وقت اسٹارٹ ہو سکتی ہے اور اس بار یہ زیادہ خطرناک ہو گی‘ کیوں؟ کیوں کہ بھارت اور پاکستان کا میڈیااپنی حکومتوں کو پیچھے نہیں ہٹنے دے رہا‘ دوسرا 2019 میں برطانیہ اور امریکا نے درمیان میں آ کر جنگ رکوا دی تھی لیکن اس بار اب تک کوئی ملک درمیان میں نہیں آیا‘ پوری دنیا تماشا دیکھ رہی ہے‘ مجھے محسوس ہوتا ہے دنیا اس بار یہ جنگ دیکھنا چاہتی ہے‘ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں‘ ایک دنیا بھارت اور پاکستان کو روک روک کر تھک چکی ہے‘ یہ دونوں دو تین سال بعد ایٹم بم دھوپ میں رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں‘ دنیا تنگ آ گئی ہے اور اس نے فیصلہ کیا یہ لوگ ایک بار اپنا شوق پورا کرلیں‘ دو‘ یہ جنگ ہو سکتا ہے دنیا کی بڑی قوتوں نے اسٹارٹ کی ہو‘ پہلے جعفرایکسپریس کا واقعہ کرایاگیا ہو اور پھر پہلگام کا اور اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہو تاکہ دنیا کے ہتھیار بھی بک سکیں اور پاکستان اور بھارت دونوں کی معاشی ہڈی بھی ٹوٹ جائے‘ شاید یہی وجہ ہے دنیا ڈھیلی ڈھالی قرار دادیں پاس کر کے سائیڈ پر بیٹھ گئی ہے اور تماشا دیکھ رہی ہے‘ بھارت اور پاکستان کو یہ نقطہ بھی سمجھنا چاہیے۔

پاکستان اور بھارت کی ٹینشن کی ایک اور بڑی وجہ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ)بھی ہے‘ یہ رائیٹ ونگ کی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے‘ آر ایس ایس متعصب ہندوؤں نے 1925 میں غیرہندوؤں کے خلاف بنائی تھی‘ بی جے پی نے 1980 میں اسی آر ایس ایس سے جنم لیا تھا‘ یہ اس کی ’’پولیٹیکل ونگ‘‘ ہے‘ وزیراعظم نریندر مودی 1970 سے1985تک آر ایس ایس کا کارکن رہا‘ یہ اس کے دفتر میں جھاڑو دیا کرتا تھا‘ آر ایس ایس ہندوستان سے مسلمانوں کی جڑیں تک ختم کرنا چاہتی ہے‘ اس سال 27 ستمبر کو اس کے سو سال پورے ہو ں گے‘ ایک تھیوری یہ بھی نریندر مودی پاکستان کے کسی علاقے پر قبضہ کر کے آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات منانا چاہتا ہے‘ یہ تقریب میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہے ہم نے برصغیر سے مسلمانوں کو فارغ کرنا شروع کر دیا ہے اور اگلے سو سال میں برصغیر میں ہندوؤں کے علاوہ کوئی شخص یا مذہب نہیں ہو گا‘ یہ جنگ نریندر مودی کی اس تقریر کی تیاری ہے‘ بہرحال وجہ فالس فلیگ آپریشن ہو‘ آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات ہوں یا پھر عالمی طاقتوں کا کھیل ہو یہ طے ہے پاکستان اور بھارت کے پاس ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں‘ یہ دونوں نیوکلیئر پاور ہیں اور دونوں میں ضد‘ انا‘ بے وقوفی اور جہالت کا غلبہ ہے۔

 دونوںملکوں میں ایسے لوگ بااثر اور طاقتور ہو چکے ہیں جن کی نظر میں جنگ اور ایٹم بم کھلونے ہیں اور یہ لوگ یہ کھیل‘ کھیل کر رہیں گے چناں چہ عقل کا تقاضا ہے دونوں ملک کسی دوسری طاقت کے بغیر اکٹھے بیٹھیں‘ اپنا تنازعے 20 سال کے لیے فریز کریں‘ جنگ نہ لڑنے کا وعدہ کریں‘ سرحدیں اور تجارت کھولیں اورترقی کی دوڑ میں آگے کی طرف دوڑیں‘یہ دونوں یاد رکھیں دنیا کی دس ہزار سال کی تاریخ بتاتی ہے ملک ترقی نہیں کیاکرتے خطے ترقی کرتے ہیں‘ امریکا نے ترقی نہیں کی پورے براعظم امریکا نے ترقی کی‘ برطانیہ اور فرانس نے ترقی نہیں کی پورے یورپ نے ترقی کی‘ بھارت بھی اس وقت ترقی کرے گا جب پورا برصغیر آگے بڑھے گا ورنہ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل ہمیشہ جاری رہے گا چناں چہ امن کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں اور اگر ہم اس طرف نہیں گئے تو پھر یہ یکم مئی اس خطے کی آخری یکم مئی ہو گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت بھارت اور پاکستان پاکستان کا پہلگام میں آر ایس ایس کی وجہ سے ہے اور اس ہیں اور چناں چہ میں بھی نہیں کی یہ جنگ کر دیا اور یہ کے لیے کے بعد

پڑھیں:

وفاقی کابینہ نے حج پالیسی 2026 اور قومی مصنوعی ذہانت پالیسی 2025 کی منظوری دے دی

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حج پالیسی 2026 اور نیشنل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) پالیسی 2025 کی منظوری دی گئی۔ ان پالیسیوں کا مقصد عوامی خدمات کی ڈیجیٹائزیشن، معیشت کی بہتری، اور نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئندہ سال حج آپریشن کی مکمل ڈیجیٹائزیشن خوش آئند اقدام ہے تاکہ حجاج کو بہترین سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ‘حجاج کرام کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی۔’

یہ بھی پڑھیے:  نئی سعودی حج پالیسی کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل

حج پالیسی 2026 کے مطابق 70 فیصد کوٹہ سرکاری اور 30 فیصد نجی شعبے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال نجی شعبے کی کوتاہی سے محروم رہ جانے والے عازمین حج کو آئندہ سال حج میں شامل کیا جائے گا۔

پالیسی کے تحت سرکاری اور نجی کمپنیوں کے لیے تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن متعارف کروائی جائے گی تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ نجی کمپنیوں کے تحت جانے والے حجاج کی ادائیگیوں اور پراسیس کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ کی جائے گی جبکہ ہارڈشپ کیسز کے لیے 1000 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: حج پالیسی 2025 کا اعلان، پچھلے سال کے مقابلے میں ایک لاکھ روپے کا اضافہ

اس کے علاوہ معاونین حج کا انتخاب شفاف طریقے سے ٹیسٹ کے ذریعے کیا جائے گا۔ حکومت موبائل سمز، ڈیجیٹل رسٹ بینڈز، معیاری رہائش و کھانے کی فراہمی اور ہنگامی حالات میں معاوضے کو بھی یقینی بنائے گی۔ پاک حج موبائل ایپ کو مزید مؤثر اور جدید بنایا جائے گا۔

قومی مصنوعی ذہانت پالیسی 2025

مصنوعی ذہانت کے میدان میں وزیراعظم نے نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور معیشت میں بہتری کے لیے قومی پالیسی کی منظوری دی۔ پالیسی کا مقصد عوامی خدمات کی بہتری، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور معاشی شمولیت کو فروغ دینا ہے۔

پالیسی میں خواتین اور خصوصی افراد کے لیے اے آئی کی تعلیم، تربیت، اور رسائی کو آسان بنایا جائے گا۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ 2030 تک عالمی سطح پر اے آئی انقلاب کے بڑے معاشی اثرات متوقع ہیں، جن کی تیاری پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔

یہ بھی پڑھیے: عدالتوں میں 2 شفٹوں اور مصنوعی ذہانت کے اسمتعمال پر غور کیا جارہا ہے، چیف جسٹس

پالیسی کے تحت اے آئی انوویشن فنڈ اور اے آئی وینچر فنڈ کے قیام سے نجی شعبے کو فروغ دیا جائے گا۔ سرکاری شعبے میں اے آئی کے استعمال، سائبر سیکیورٹی، اور ماحولیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی اقدامات شامل ہیں۔

حکومت کا ہدف ہے کہ 2030 تک ملک میں 10 لاکھ تربیت یافتہ اے آئی ماہرین، 3 ہزار سالانہ وظائف، 1 ہزار مقامی اے آئی مصنوعات، اور 50 ہزار اے آئی منصوبے مکمل کیے جائیں۔ پالیسی کے نفاذ کے لیے اے آئی کونسل اور ایکشن پلان بھی قائم کیا جائے گا۔

قدرتی آفات، توانائی معاہدے، اور قومی سلامتی پر گفتگو

وزیراعظم نے حالیہ بارشوں سے ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً پہاڑی علاقوں میں ہونے والے نقصانات پر تشویش کا اظہار کیا اور متعلقہ اداروں کو امدادی اقدامات کی ہدایت کی۔

وزیراعظم نے وفاقی وزیر توانائی اور ان کی ٹیم کی آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کامیاب مذاکرات پر بھی تعریف کی جس کے باعث ملک کو اربوں روپے کی بچت ہوئی۔

مسلح افواج کی خدمات کی تحسین

اجلاس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کی مسلح افواج کی قربانیوں اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے پاکستان کی افواج کو عزت دی ہے۔ اُنہوں نے بھارت کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کی کامیابی کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ قرار دیا۔

وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بھی افواج کے کردار کو سراہا اور ان کی قربانیوں کو قوم کی سلامتی کا ضامن قرار دیا۔

فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی

بین الاقوامی معاملات پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے غزہ میں جاری مظالم کی شدید مذمت کی اور کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت سوز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے خوراک کی امداد غزہ کے عوام کے لیے اردن کے ذریعے روانہ کی جا رہی ہے۔

وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان ریاستِ فلسطین کے حق میں اپنی مکمل حمایت جاری رکھے گا اور مظلوم فلسطینی عوام کو انصاف دلانے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • کشمیر میں رواں برس اب تک 53 شہری، اور 33 عسکریت پسند ہلاک
  • بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 1.6 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے .سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی
  • پاک-امریکا تجارتی ڈیل، ’تیل پاکستان سے نکلا اور بتا ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ رہے ہیں‘
  • وفاقی کابینہ نے حج پالیسی 2026 اور قومی مصنوعی ذہانت پالیسی 2025 کی منظوری دے دی
  • پاکستانی فتح کی گونج بھارتی پارلیمنٹ تک جا پہنچی بھارتی وزیرداخلہ کی عجیب منطق
  • ہم نے 22 اپریل کے حملے کا بدلہ صرف 22 منٹ میں لے لیا
  • پہلگام حملہ پوری انسانیت کا قتل تھا، انجینئر رشید
  • بھارتی وزیر داخلہ کا مضحکہ خیز دعویٰ؛ پہلگام میں حملہ آوروں سے پاکستانی چاکلیٹ ملی تھی
  • ہمارے پاس ثبوت ہے دہشتگردوں کے پاس پاکستانی چاکلیٹ ملی ہے،بھارتی وزیرداخلہ کی عجیب منطق
  • دہشتگردوں سے پاکستانی چاکلیٹ ملی، پہلگام حملے کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کیلئے بھارتی وزیر داخلہ کی عجیب منطق