آپ جتنے بھی ٹریکٹر دے دیں اگلے سال کسان گندم نہیں اگائے گا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 02 مئی2025ء) لاہور ہائیکورٹ نے خبردار کیا ہے کہ آپ جتنے بھی ٹریکٹر دے دیں اگلے سال کسان گندم نہیں اگائے گا، 1 من گندم پر 2 ہزار سے یا 2500 سے کم خرچ ممکن ہی نہیں ہے، کسانوں کو مڈل مین کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز لاہور ہائیکورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس سلطان تنویر احمد نے ریمارکس دیئے کہ ایک من گندم پر خرچ 2000 یا 2500 سے کم ممکن ہی نہیں ہے، اس وقت کسان کتنے کی گندم بیچ رہا ہے ؟ آپ لوگ انہیں مڈل مین کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں، جس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے، اگلے سال کسان پاکستان میں گندم نہیں اگائے گا، آپ انہیں جتنے بھی ٹریکٹر دے دیں۔
اپنے مؤقف میں وکیل حکومت پنجاب نے بتایا کہ ہم وئیر ہاوس بنا رہے ہیں، جہاں کسان حکومتی خرچ پر 4 ماہ تک گندم رکھ سکتے ہیں۔(جاری ہے)
جسٹس سلطان تنویر احمد نے پوچھا کہ کیا آپ ان سے گندم خریدیں گے ؟ اس پر وکیل پنجاب حکومت نے جواب دیا کہ نہیں، ہم ان کو اپنے خرچ پر ایک وئیر ہاوس مہیا کریں گے جہاں یہ گندم رکھ سکتے ہیں، یہ لوگ اوپن مارکیٹ میں گندم بیچ سکتے ہیں۔
فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ اوپن مارکیٹ خرچ سے بھی کم پیسوں پر گندم خرید رہی ہے، آپ نے ایک کمپین چلائی تھی کہ کسان گندم اگائے اور اب آ کر ان کا ساتھ چھوڑ دیا، آپ کو چاہئے کہ حساب لگائیں کہ گندم پر کتنا خرچ آ رہا ہے، اس سے کچھ زیادہ پیسوں میں گندم خرید لیں۔ وکیل محکمہ پرائس کنٹرول نے بتایا کہ حکومت کی پالیسی ڈی ریگولیشن کی ہے جبکہ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ساڑھے بارہ ایکڑ تک اراضی رکھنے والے چھوٹے کسان کی 5 ہزار روپے امداد کی جا سکتی ہے، وئیر ہاوس میں موجود گندم کی مالیت کے 70 فیصد کے برابر کسان قرض لے سکتا ہے۔ جسٹس سلطان تنویر احمد نے حکومت پنجاب کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ اس حوالے سے اپنی پالیسی مزید واضح کریں، اس پر وکیل محکمہ پرائس کنٹرول نے تیاری کیلئے مزید مہلت مانگی جس پر عدالت نے تیاری کیلئے مہلت دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ یاد رہے کہ درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ عدالت حکومت کو گندم کی قیمت تعین کرنے کا حکم دے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
اگلے امریکی ایرانی جوہری مذاکرات ملتوی، ٹرمپ کی نئی دھمکی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مئی 2025ء) صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے تیل خریدنے والے ہر خریدار پر پابندیوں کی دھمکی دی۔ ان کی طرف سے یہ انتباہ جمعرات کے روز ایران کے تیزی سے آگے بڑھنے والے جوہری پروگرام پر تہران اور واشنگٹں کے مابین طے شدہ مذاکرات کے ملتوی کر دیے جانے کے بعد سامنے آیا۔
ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا نیا دور
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''ایرانی تیل یا پیٹروکیمیکل مصنوعات کی تمام خریداری ابھی بند ہو جانا چاہیے۔
‘‘ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک یا شخص جو ایران سے یہ مصنوعات خریدے گا، وہ امریکہ کے ساتھ ''کسی بھی طرح، یا کسی بھی شکل میں کاروبار نہیں کر سکے گا۔‘‘ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت
یہ واضح نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس طرح کی پابندی کو کیسے نافذ کریں گے کیونکہ انہوں نے پہلے بھی ایرانی تیل درآمد کرنے والے ملکوں پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔
(جاری ہے)
لیکن ان کے تازہ بیان نے ایرانی تیل کے اہم خریدار ملک چین اورامریکہ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ امریکی چینی تجارتی روابط صدر ٹرمپ کی طرف سے بھاری محصولات عائد کیے جانے کے بعد سے پہلے ہی سخت تناؤ کا شکار ہیں۔ اگلے جوہری مذاکرات ملتویڈونلڈ ٹرمپ کی تازہ دھمکی اس وقت سامنے آئی جب خلیجی عرب ریاست عمان نے اعلان کیا کہ رواں ہفتے کے آخر کے لیے طے شدہ جوہری مذاکرات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں یہ اعلان عمانی وزیر خارجہ بدر ابو سعیدی نے کیا تھا۔ابو سعیدی نے لکھا، ''لاجسٹک وجوہات کی بنا پر ہم ہفتہ تین مئی کے لیے طے شدہ امریکی ایرانی مکالمت کو عارضی طور پر دوبارہ ترتیب دے رہے ہیں۔ نئی تاریخوں کا اعلان باہمی اتفاق رائے کے بعد کیا جائے گا۔‘‘
بدر ابو سعیدی، جنہوں نے اب تک دونوں ممالک کے مابین ہونے والے تین مذاکراتی ادوار میں ثالثی کی ہے، اس التوا کی مزید وضاحت نہیں کی۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی مذاکرات کے اگلے دور کے التوا کے لیے ''لاجسٹک اور تکنیکی وجوہات‘‘ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔
التوا پر ایرانی ردعملایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''جہاں تک ایران کا معاملہ ہے، مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کے ہمارے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
‘‘انہوں نے مزید لکھا، ''ہم ایک منصفانہ اور متوازن معاہدے کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم ہیں: جس کا مقصد پابندیوں کے خاتمے کی ضمانت دینا اور یہ اعتماد پیدا کرنا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام ہمیشہ پرامن رہے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایران کے ریاستی حقوق کا مکمل احترام کیا جائے۔‘‘
اسی دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے، جو امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار کے طور پر اپنے موجودہ کردار کے ساتھ ساتھ اب قومی سلامتی کے مشیر کی ذمہ داریاں بھی سنبھال رہے ہیں، اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اگر ایران جوہری بجلی گھر بنانا چاہتا ہے، تو وہ افزودہ یورینیم درآمد کر سکتا ہے۔
روبیو نے جمعرات کی رات فوکس نیوز چینل کے ایک پروگرام میں کہا، ''ایران کو صرف یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ اب وہ یورینیم کی مزید افزودگی نہ کرنے کو تیار ہے۔ یہ وہ بہترین موقع ہے، جو اسے مل رہا ہے۔‘‘
ایران اور امریکہ کے مابین لفظی جنگاس سے قبل جمعرات ہی کے روز ایران نے امریکہ پر ''متضاد رویے اور اشتعال انگیز بیانات‘‘ کا الزام بھی لگایا، جب واشنگٹن نے ایرانی تیل کی فروخت سے متعلق نئی پابندیاں عائد کیں اور تہران کو یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرنے کے نتائج سے خبردار کیا۔
ایرانی موزیر خارجہ عراقچی نے یہ بھی کہا کہ جوہری مذاکرات کے دوران ایران پر امریکی پابندیاں فریقین کو سفارتی طریقے سے جوہری تنازع حل کرنے میں مدد نہیں دے رہیں۔
دوسری طرف امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے ایران کو حوثیوں کی پشت پناہی کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔
حوثی باغیوں نے 2023ء کے اواخر سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے قریبی پانیوں میں تجارتی بحری جہازوں پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔
ایرانی امریکی مذاکرات سے باخبر ایک ذریعے نے کہا کہ امریکہ نے روم میں ہونے والی بات چیت کے چوتھے دور میں ''کبھی بھی اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی تھی‘‘ تاہم اس ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کو توقع ہے کہ ایران کے ساتھ ''مستقبل قریب میں‘‘ مزید مذاکرات ہوں گے۔
سیاسی ذرائع کے مطابق مذاکرات کے اگلے دور کا وقت اور مقام ابھی تک طے نہیں لیکن توقع ہے کہ ایسا جلد ہی ہو جائے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سال فروری سے تہران پر ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی اپنی پالیسی بحال کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے دور صدارت میں 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ادارت: مقبول ملک