Express News:
2025-05-03@10:37:00 GMT

مدبر سیاستدانوں کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

1971 پاکستان کی تاریخ کا ہنگامہ خیز سال تھا۔ حکمران جنرل یحییٰ خان نے انتخابات شفاف کرائے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے قطعی اکثریت حاصل کرلی۔ سندھ اور پنجاب سے پیپلزپارٹی، بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے اکثریت حاصل کر لی۔

جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1971میں ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ جنرل یحییٰ خان اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو عوامی لیگ کو مکمل اقتدار دینے پر تیار نہیں تھے، اس بناء پر پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ میں آئین کے بارے میں کوئی سمجھوتہ نہ ہوا۔ جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔

عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ جنرل یحییٰ خان نے لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقررکیا اور مشرقی پاکستان میںآپریشن شروع ہوا۔ نومبر 1971کے آخری ہفتے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کا اختتام 16 دسمبر 1971کو ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکا میں ہوا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور ملک کے صدر بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو جدید ڈپلومیسی کے عالمی شہرت یافتہ ماہرین میں شمار ہوتے تھے، یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی شروع ہوئی۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے معاونین میں عزیز احمد نمایاں شخصیت تھے۔ وہ طویل عرصہ وزارت خارجہ کے سیکریٹری رہے۔ انھیں خارجہ اور دفاعی امورکا وزیر مملکت بنایا گیا۔ بھٹو صاحب کی آخری کابینہ میں عزیز احمد پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے۔

عزیز احمد کا شمار پاکستان کے بہترین سفارت کاروں میں ہوتا تھا۔ بھارت کے تجربہ کار سیاستدان سورن سنگھ بھارت کے وزیر خارجہ تھے۔ بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کے معاونین میں سے ایک Durea Prasad Dhar شامل تھے، ڈی پی دھرکا تعلق کشمیر سے تھا۔ انھوں نے کشمیر ی رہنما شیخ عبداللہ کی قیادت میں کشمیرکو ڈوگرہ راج سے نجات دلانے کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈی پی دھر نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی جنگ میں بھارتی فوج کی خاصی مدد کی تھی۔ ڈی پی دھر کے بارے میں یہ بھی تحریرکیا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھارت کی فوجی مداخلت اور بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کی خارجہ پالیسی کے بانی شمار کیے جاتے تھے، یوں دونوں ممالک کے سینئر سفارت کاروں اور سیاست دانوں کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطے بحال ہوئے۔

بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کو بھارت آنے کی دعوت دی اور مذاکرات کا مقام ہما چل ریاست کے صدر مقام شملہ طے پایا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ جانے سے پہلے حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں کو اعتماد میں لیا۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں ولی خان، مفتی محمود، غوث بخش بزنجو وغیرہ نے بھٹو صاحب کے اس مشن کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا، یوں صدرذوالفقار علی بھٹو ایک وفد کے ہمراہ شملہ گئے۔

اس وفد میں بھٹو صاحب کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں، یہ بے نظیر بھٹوکی پہلی دفعہ کسی عوامی تقریب میں شرکت تھی۔ وہ اس وقت برطانیہ میں زیرِ تعلیم تھیں۔ اس وقت کے اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق 28 جون سے 2 جولائی 1972تک شملہ میں مذاکرات ہوئے۔ برطانوی خبررساں ایجنسی بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی ایک رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے مرحلے میں دونوں ممالک کی مذاکراتی ٹیمیں کسی فیصلے پر متفق نہ ہوسکیں اور صحافیوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔

ایک صحافی نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا تھا کہ تمام لوگوں نے واپسی کے لیے اپنا سامان پیک کر لیا تھا کہ رات گئے، یہ پیغام ملا کہ صحافی راج بھون پہنچ جائیں۔ اس صحافی نے لکھا کہ راج بھون میں ذوالفقارعلی بھٹو اور مسز اندرا گاندھی ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے مذاکرات کے بعد فیصلہ ہوا کہ معاہدہ ہوگا اور ابھی ہوگا، یوں دونوں رہنماؤں نے رات 12 بج کر 40 منٹ پر معاہدے پر دستخط کیے۔ دونوں رہنماؤں کے پاس اس وقت قلم بھی نہیں تھا۔ کسی صحافی نے معاہدے پر دستخط کے لیے قلم فراہم کیا۔

 اس معاہدے کے خاص خاص نکات یہ تھے۔ اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں اور مقاصد کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات استوار ہوں گے۔ دونوں ممالک اپنے باہمی اختلافات کو پرامن طریقے سے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں یا کسی دوسرے پرامن طریقے سے جس پر ان کے درمیان باہمی اتفاق ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی مسئلے کے حتمی تصفیے تک کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر صورتحال کو تبدیل نہیں کرے گا اور دونوں ممالک، امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نقصان دہ کارروائیوں میں ملوث تنظیموں کی مدد یا حوصلہ افزائی کو روکیں گے۔

مفاہمت، اچھی ہمسائیگی اور پائیدار امن کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے پر امن بقائے باہمی کا عہد کرتے ہیں۔ نیز بنیادی مسائل اور تنازعات کے اسباب جنھوں نے گزشتہ 25 برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بگاڑ پیدا کیا ہے، ان کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔

دونوں ممالک، ہمیشہ ایک دوسرے کی قومی یکجہتی، علاقائی سالمیت، سیاسی آزادی اور خود مختاری کا احترام کریں گے۔ اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق، ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت یا آزادی کے خلاف دھمکیوں اور طاقت کے استعمال سے پرہیز کریں گے۔ دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گی۔ دونوں ممالک ایسی معلومات کی ترسیل کی حوصلہ افزائی کریں گے جس سے ان کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ ملے گا۔

’’ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ مواصلات، ڈاک، ٹیلی گرافک، سرحدی چوکیوں سمیت، سمندری، زمینی اور فضائی رابطوں کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے سفری سہولیات کو فروغ دینے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے اقتصادی اور تجارتی تعاون کو دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے وفود گاہے بگاہے ملاقات کر کے ضروری تفصیلات طے کریں گے۔‘‘ پائیدار امن کے قیام کے عمل کو شروع کرنے کے لیے دونوں حکومتیں متفق ہیں کہ بھارتی اور پاکستانی افواج کو مقبوضہ علاقوں سے واپس بین الاقوامی سرحدوں پر بلا لیا جائے گا۔

جموں اورکشمیر میں 17 دسمبر 1971 کی جنگ بندی کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کا بلا تعصب احترام کیا جائے گا۔ کوئی بھی فریق باہمی اختلافات اور قانونی تشریحات سے قطع نظر یکطرفہ طور پر اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ فریقین، اس لائن کی خلاف ورزی میں دھمکی یا طاقت کے استعمال سے باز رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقوں سے فوجوں کی واپسی اس معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے 30 دنوں کے اندر مکمل ہو جائے گی۔

اس معاہدے کی بنیاد پر 28 اگست 1973کو پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ کے تحت پاکستان کے 90 ہزار فوجی بھارت نے رہا کردیے۔ پہلگرام میں ہونے والی دہشت گردی اور 26 بے گناہ افراد کے قتل کے بعد پاکستان اور بھارت میں تعلقات انتہائی پست سطح تک دھکیل دیے گئے ہیں۔ کبھی کبھی دونوں طرف کے میڈیا کے بیانیے سے محسوس ہوتا ہے کہ جنگ قریب ہے۔

پاکستان اور بھارت میں ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ آباد ہیں۔ دونوں ممالک میں غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد شمار نہیں ہوئی۔ دونوں ممالک میں محدود جنگ ہو یا طویل جنگ جیسی صورتحال یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے خطرناک ہے۔ اس وقت شملہ معاہدہ پر اتفاق کرنے والے جیسے مدبر سیاستدانوں کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کی قیادت براہِ راست مذاکرات کرے ۔ دونوں ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لیے حقیقی لائحہ عمل طے ہونا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور بھارت کے درمیان پاکستان اور بھارت ذوالفقار علی بھٹو دونوں ممالک کے مشرقی پاکستان پاکستان کے جنرل یحیی عوامی لیگ ایک دوسرے ہونے والی بھارت کی کریں گے جائے گا کے لیے

پڑھیں:

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

جاوید محمود

موجودہ صورتحال میں دنیا دیکھ رہی ہے کہ انڈیا کھلے عام معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کے نتیجے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان آنے والے ہر لمحے میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک اہم دو طرفہ معاہدہ شملہ معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ 1971کی جنگ کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف ایک اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دو جولائی 1972کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اورانڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ ایک امن معاہدہ تھا جو انڈین ریاست ہما چل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں ہوا تھا ۔اسی وجہ سے اسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے ۔اس کے اہم نکات میں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا پرامن تصفیہ اور کسی فریق ثالث کی مداخلت کے بغیر دو طرفہ اور پرامن طریقے سے تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر حل کرنے پر اتفاق کرنا علاقائی خودمختاری اور سالمیت کا احترام سیاسی آزادی اور داخلی معاملات میں عدم مداخلت کا احترام کرنا شامل تھا۔ اس معاہدے میں جموں اور کشمیر میں سرحدی لائن کو ایل او سی کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ دونوں فریقوں نے یکطرفہ طور پر اسے تبدیل نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔اسی معاہدے کے تحت انڈیا نے بنگلہ دیش جنگ کے دوران 93000پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور پائیدار امن کے قیام کی کوشش کرنے پر اتفاق کیا تھا جوہری تنصیبات کے حوالے سے ایک اور معاہدے پر31 دسمبر 1988کو دستخط کیے گئے تھے اور 27جنوری 1991کو یہ نافذ العمل ہوا۔ اس کے کلیدی نکات میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات اورسہولیات پر حملہ یا تباہ نہ کرنے پر اتفاق کرنا ہر سال یکم جنوری کو اپنی جوہری تنصیبات اور سہولیات کی فہرستوں کا تبادلہ کرنے جوہری ری ایکٹر فیول فریکشن ریپروسیسنگ اور تحقیقات تحقیقی سہولیات کے ساتھ ساتھ دیگر تنصیبات کا احاطہ کیا گیا جہاں جوہری مواد موجود ہے۔ اس معاہدے کا مقصد جوہری تصادم کے خطرے کو کم کرنا اور جوہری تنصیبات کے حوالے سے یقین دہانی اور شفافیت فراہم کر کے خطے میں استحکام کو فروغ دینا ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی مشقوں اور عسکری نقل و حرکت پر پیشگی اطلاعات پر معاہدے کا مقصد شفافیت کو بڑھانا اور فوجی سرگرمیاں کی غلط تشریح کے خطرے کو کم کرنا ہے۔ یہ معاہدہ چھ اپریل 1991میں کیا گیا تھا اور اس کے اہم نکات میں دونوں ممالک سرحد کے قریب یا حساس علاقوں میں فوجی مشقوں اور عسکری ساز و سامان کی نقل و حرکت کے بارے میں پیشگی اطلاع فراہم کرنے پر متفق ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی مشقوں یا مخصوص حد سے تجاوز کرنے والے عسکری دستوں کی نقل و حرکت کی دوسرے ملک کو پیش کی اطلاعات دینے کے پابند ہیں ۔انڈیا اور پاکستان کے درمیان فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کی روک تھام اور عسکری طیاروں کو اوور فلائٹس اور لینڈنگ کی اجازت دینے کے معاہدے کا مقصد حادثاتی یا غیر مجاز اورز فلائٹس کو روکنا اور محفوظ ہوا بازی کے طریقوں کو فروغ دینا ہے ۔یہ معاہدہ بھی چھ اپریل 1991کو ہوا تھا ۔بیلسٹک میزائل کے حوالے سے تین اکتوبر 2005 میں معاہدہ ہوا اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کا بیلسٹک میزائل تجربات کی پیشگی اطلاعات فراہم کرنے پر اتفاق میزائل کی قسم لانچ کی جگہ اور متوقع متاثر علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کرنا شامل ہے ۔یہ اہم معاہدہ 21فروری 2007کو طے پایا تھا اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کسی بھی جوہری حادثے یا غیر ارادی ایٹمی دھماکے کی صورت میں فوری طور پر ایک دوسرے کو مطلع کرنے پر متفق ہیں ۔اس معاہدے کے تحت معلومات اوراطلاعات کے تبادلے کے لیے خصوصی رابطہ چیلنجز قائم کرنا دونوں ممالک جوہری حادثات کو روکنے اور غیر مجاز جوہری استعمال کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کرتے ہیں ۔اس معاہدے کے تحت کسی بھی ایسے حادثے کی صورت میں تابکاری کے اثرات کو محدود رکھنے سے متعلق اقدامات کے متعلق معلومات کا دو طرفہ تبادلہ کرنا شامل ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے دو طرفہ تعلقات میں ایک اہم پیش رفت لاہور اعلامیہ یا لاہور معاہدہ بھی ہے ۔یہ دو طرفہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے مابین 21فروری 1999کو طے پایا۔ لاہور اعلامیہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک میں ایٹمی تجربات کے بعد ہونے والا معاہدہ تھا جو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بڑی پیشرفت قرار دیا گیا۔ اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان امن اور استحکام کو فروغ دینا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو پر امن بات چیت اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذہبی مقامات پر زائرین کے دورے کے معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان مذہبی مقاصد کے لیے سفر کو آسان بنانا تھا۔ یہ دو طرفہ معاہدہ 14ستمبر 1974میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹریزکی سطح پر کیا گیا تھا ۔اس معاہدے کے اہم نکات میں زائرین کوویزا کے بغیر یا مخصوص مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے خصوصی ویزا جاری کرنے کے انتظامات کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دینا دونوں ممالک میں نامزد مذہبی مقامات تک زائرین کو رسائی فراہم کرنا ثقافتی اور مذہبی تبادلے کو فروغ دینا شامل ہے۔
اس کے علاوہ 8اپریل 1950کو انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا جس میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق اتفاق کیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کی جانب سے اقلیتوں کی جان و مال اور عزت کے تحفظ پر اتفاق کرنا مذہب یا نسل سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق اور روزگار سمیت دیگرمواقع فراہم کرنے پر زور دینا مذہب نسل ذات یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو ختم کرنا اور انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ طور پر عبادت کرنے کی اجازت دینے کا عہد شامل تھا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960میں سندھ طاس معاہدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت انڈیا کے وزیراعظم جو اہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے اور یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔ دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 72 برس سے اپنی جگہ قائم رہا۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس ،راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا ۔اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کی منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا ۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس کے حتمی معاہدے تک پہنچنے سے قبل 1959، 1957 ،1955 میں بھی دریاؤں کے پانی کو تقسیم سے متعلق ایڈہاک بنیادوں پر مختلف معاہدات ہوئے اور انہیں معاہدات نے سندھ طاس معاہدے کو جنم دیا تھا۔ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے جواب میں پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کرے گا ۔اور یہ کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت دیگر تمام دو طرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مودی اپنی انتہا پسند طبیعت کا سہارا لیتے ہوئے معاہدوں کو توڑ رہے ہیں جس کے نتیجے میں جنگ کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت نے پاکستان سے درآمدات پر پابندی عائد کر دی
  • پاکستان بھارت جنگ روکنا ہوگی
  • خدا نہ کرے کہ کوئی ایٹمی تصادم ہو لیکن پاک بھارت کشیدگی میں یہ خطرہ رہتاہے، بلاول بھٹو
  • پاکستان و بھارت ایٹمی طاقت ہیں، خدا نہ کرے کہ کوئی ایٹمی تصادم ہو، بلاول بھٹو
  • بھارت کیساتھ کسی قسم کا تصادم جوہری جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے، بلاول بھٹو
  • غرور کی قیمت، جنگ کی گونج
  • انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب
  • پاک بھارت کشیدگی، سعودی وزارت خارجہ کا اہم بیان آگیا
  • وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے امریکی ناظم الامور کی ملاقات، پاک بھارت کشیدہ صورتحال پر تبادلہ خیال