تربت: بھاری ہتھیاروں سے مسلح ڈاکو مرکزی بازار میں بینک لوٹ کر فرار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
بلوچستان کے شہر تربت کے مرکزی بازار میں بھاری ہتھیاروں سے مسلح ڈاکوؤں نے بینک لوٹ لیا ہے۔
ڈاکوؤں نے بینک عملے کو یرغمال بنایا اور کیش تھیلوں میں بھر کر باآسانی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر فرار ہوگئے۔
تربت پولیس کا کہنا ہے کہ لوٹی گئی رقم کا تعین کیا جا رہا ہے، ڈاکوؤں کی تلاش اور تحقیقات جاری ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
ایران پر حملے کی تیاری یا مذاکرات سے فرار؟ٹرمپ نے ’’بہت دیر ہوچکی‘‘ کہہ کر اشارہ دیدیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اب ایران سے مذاکرات کرنے کا وقت ختم ہو چکا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ایران کو بات چیت ہی کرنی تھی تو وہ 2 ہفتے پہلے کرتا، اب دیر ہوگئی، لہٰذا اس عمل اک اب کوئی فائدہ نہیں۔
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ تہران کی جانب سے ان سے رابطے کی کوشش کی گئی ہے، مگر انہوں نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ وقت گزر چکا ہے۔ امریکا برسوں سے ایران کی دھمکیوں کا سامنا کر رہا ہے اور اس کے باوجود جوہری مذاکرات کا حصہ بنا رہا، لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
ٹرمپ نے ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ وقت ضائع کرتا رہا اور جب بات چیت کے لیے مناسب لمحہ تھا، تب خاموشی اختیار کی، اب جب کہ ایران کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے اور اسے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے، وہ بات چیت کی میز پر آنا چاہتا ہے، مگر اب دیر ہو چکی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے یہ بیان ایسے وقت میں جاری کیا، جب وہ جی سیون سربراہ اجلاس کے دوران اچانک کینیڈا سے واپس چلے ّئے تھے اور اُن کی اس غیر متوقع روانگی نے عالمی میڈیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ بعدازاں انہوں نے خود اس فیصلے کو کسی بڑی پیش رفت سے جوڑا تھا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ وہ پیش رفت ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق ہی کوئی فیصلہ ہے، جو اگر جنگ کی جانب اشارے ہے تو اس کے مزید سنگین نتائج ہو سکتے ہیں خطے کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ نے وطن واپسی پر اپنی نیشنل سکیورٹی ٹیم سے ہنگامی اجلاس منعقد کیا، جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر ممکنہ حملے سے متعلق امور تھے اور اس حوالے سے اسرائیل کی ممکنہ شمولیت بھی زیر غور آئی ہے۔ اگرچہ اس اجلاس کے بعد کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا، تاہم صدر ٹرمپ کے بیانات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ امریکا اب ایران سے بات چیت کے بجائے جنگ کے پر تول رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے سخت بیانات محض الفاظ نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہیں جو تہران کے لیے دھمکی کے معنی رکھتے ہیں۔امریکا، جو پہلے بھی ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا چکا ہے، اب ممکنہ طور پر عسکری راستہ اختیار کرنے پر غور کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایران کی حکومت اپنے بیانات میں امریکی دباؤ کو مسترد کرتی رہی ہے، تاہم اسے مگر اندرونی و بیرونی سطح پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔
خراب ہوتی صورت حال مشرق وسطیٰ میں پہلے سے جاری عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ اگر امریکا واقعی ایران کے جوہری مراکز کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس کے اثرات صرف ایران اور امریکا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اسرائیل کی جنگ میں امریکی ممکنہ شمولیت اور ایران کے جوابی اقدامات ایک خطرناک جنگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی سیاست میں ٹرمپ کی پالیسی ہمیشہ جارحانہ رہی ہے، خاص طور پر ایران کے حوالے سے۔ انہوں نے نہ صرف جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی بلکہ مسلسل دباؤ بڑھایا،اور اب اسرائیلی جارحیت کی کھلی حمایت کرتے ہوئے جنگ میں شمولیت کے اشارے دینا بھی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ کے تازہ ترین بیانات کے بعد عالمی برادری میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپی طاقتیں جو ہمیشہ مذاکرات کی حامی رہی ہیں، اب مشکل صورت حال میں ہیں۔ اس تمام منظرنامے میں یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ امریکا واقعی ایران کے خلاف عسکری اقدام کرے گا یا پھر یہ بیانات محض دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
ٹرمپ کی سیاست میں غیر متوقع اقدامات کوئی نئی بات نہیں، مگر جو بات واضح ہے وہ یہ کہ اب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی دروازے تقریباً بند ہوتے جا رہے ہیں۔