’’اپنی عزت نفس کا خیال رکھیں‘‘، عروہ حسین کی تنقید کا نشانہ کون؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں جہاں دونوں ممالک کے تعلقات مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر بھی اس کا اثر نمایاں طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حال ہی میں، اداکارہ عروہ حسین نے انسٹاگرام پر ایک اسٹوری شیئر کی، جس میں انہوں نے عزت نفس اور قومی وقار کے حوالے سے بات کی۔
اگرچہ عروہ حسین نے اپنی پوسٹ میں کسی کا نام نہیں لیا، لیکن ان کے الفاظ سے یہ تاثر ملا کہ ان کا اشارہ اداکارہ ہانیہ عامر کی جانب ہے، جن کا انسٹاگرام اکاؤنٹ بھارت میں بلاک ہونے کے بعد وہ بھارتی مداحوں کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔
عروہ حسین نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ’’پروپیگنڈا ایک ایسا ہتھیار ہے جو جنگوں میں استعمال ہوتا ہے، اور بدقسمتی سے ہم اسے دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔ جب جنگ ہوتی ہے تو آپ کو اپنی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔‘‘
انہوں نے مزید لکھا ’’اپنے گھر کا سب سے پہلے خیال رکھنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘ ان کا یہ پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، اور صارفین نے فوراً ہانیہ عامر کا نام لے کر کہا کہ یہ پیغام انہی کےلیے ہے۔
یاد رہے کہ ہانیہ عامر نے بھارتی مداحوں کی جانب سے وی پی این کے ذریعے ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔ ایک بھارتی مداح نے لکھا، ’’ہیلو ہانیہ، وی پی این کا سبسکرپشن لیا صرف تمہارے لیے، لَو فرام انڈیا‘‘، جس کے جواب میں ہانیہ نے لکھا، ’’لَو یو‘‘۔ ایک اور مداح نے لکھا، ’’ہم آپ کی پوسٹس مریخ سے بھی دیکھ لیں گے‘‘، جس پر ہانیہ نے جواب دیا، ’’صدقے‘‘۔
تاہم، بھارت میں انسٹاگرام کی بندش کے بعد ہانیہ عامر کی پوسٹس پر لائیکس اور کمنٹس کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جہاں پہلے ان کی پوسٹس پر لاکھوں لائیکس آتے تھے، اب وہ چند ہزار تک محدود ہو گئے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف ہانیہ عامر بلکہ دیگر پاکستانی فنکاروں کی مقبولیت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
یہ تمام صورتحال اس وقت سامنے آئی جب بھارت نے پاکستانی فنکاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کرنا شروع کیا، جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا اکاؤنٹ بھی بھارت میں بند کردیا گیا۔ ان اقدامات پر پاکستانی حکومت اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
عروہ حسین کے ہانیہ عامر پر اس بالواسطہ طنز نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جہاں ایک طرف قومی وقار اور عزت نفس کی بات کی جا رہی ہے، وہیں دوسری طرف فنکاروں کی عالمی مقبولیت اور مداحوں سے تعلقات کو بھی زیر بحث لایا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا ہانیہ عامر عروہ حسین
پڑھیں:
کیا خطے میں ایک نیا ورلڈ آرڈر لکھا جا رہا ہے؟
70 کی دہائی اور خاص طور پر اس کے اواخر میں ہونے والے واقعات کا پاکستان، پاکستان کے ہمسایہ ممالک اور اس خطے پر بہت گہرا اثر تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اس وقت ایک نیا ورلڈ آرڈر لکھا گیا جس نے دنیا کی شناخت، ہیئت اور حیثیت ہی کو تبدیل کر دیا۔ ان سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کے اثرات زیادہ تر منفی رہے۔ لیکن پاکستان، ایران، بنگلہ دیش، افغانستان میں 70 کی دہائی کے آخر تک بہت کچھ بدل گیا تھا۔ آج مڑ کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ کسی نے دنیا کو نقشے پر لال رنگ کے دائرے لگا کر ملکوں کے نصیب بدل دیے تھے۔ پہلے ہم بات کریں گے کہ 70 کی دہائی میں کس ملک کےساتھ کیا ہوا اور پھر معروضی حالات کی مدد سے آج کے نئے ورلڈ آرڈر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ بھٹو دور کے آخری دن تھے۔ حکومت کے خلاف 9 ستارے گردش میں آ چکے تھے۔ ملک بھر میں یورش تھی۔ انتخابات کے نتائج پر کسی کو اعتماد نہیں تھا۔ دھاندلی، دھاندلی کا شور مچ رہا تھا۔ بھٹو صاحب حالات کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر یوں لگتا تھا کہ کوئی نادیدہ ہاتھ حالات کو پہلے سے زیادہ خراب کر رہا تھا۔ ہر آنے والا دن افواہوں، خدشات سے بھرا تھا۔ اسی اثنا میں اچانک خود ساختہ مرد مومن مرد حق نے 5 جولائی 1977 کو بھٹو حکومت کی بساط الٹ دی۔ تب 9 ستاروں کو پتہ چلا کہ وہ استعمال ہوئے ہیں۔
ضیاءالحق کے آنے کے بعد پاکستان بدل گیا۔ اس سے پہلے پاکستان ایک ترقی کرتا ملک تھا۔ دنیا ہماری معیشت کی تعریف کرتی تھی مگر پھر ہم افغان جنگ میں استعمال ہوئے، اپنے ملک کو برباد کیا۔ کلاشنکوف کلچر، دہشتگردی، لسانی سیاست اور ہیروئن کو اپنے ملک میں بسایا۔ سماج کو تباہ کیا گیا۔ اور جب یہ کام حضرت ضیاء الحق نے تسلی بخش طریقے سے کر دیا تو ایک دن ان کا جہاز پھٹ گیا۔ لیکن اس دور میں آنے والی تبدیلیوں کے اثرات اب تک پاکستان کو چاٹ رہے ہیں۔
دوسری جانب ایران کے حالات دیکھیں۔ اسی دہائی میں ایران میں شاہ کی حکومت کمزور پڑ رہی تھی۔ امام خمینی کے ظہور کا زمانہ قریب آ رہا تھا۔تہران کی ہر دیوار پر ’مرگ بر امریکا ‘ اور ’درود بر خمینی‘ کے نعرے لکھے تھے۔ پاسداران انقلاب کا بیج رکھا جا چکا تھا۔ شاہ کا تخت لرز رہا تھا۔ پھر ایک دن وہی ہوا جس کا شاہ کو ڈر تھا۔ انقلاب لانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ شاہ ایران نے 16 جنوری 1979 کو فرار ہونے ہی کو غنیمت جانا۔
امام خمینی نے پہلوی دور اقتدار کو ختم کر کے ’اسلامی‘ حکومت کی بنیاد ڈالی۔ یہ وہ تبدیلی تھی جس کا ایران پر آج تک اثر ہے۔ اس تبدیلی سے پہلے ایران ایک امیر، ترقی یافتہ ملک تھا۔ اس کی معیشت مثالی تھی۔ دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات قابل فخر تھا مگر انقلاب کے بعد ایران بہت بدل گیا۔
خواتین کے لیے مشکلات پیدا ہو گئیں، پردہ لازم قرار دیا گیا، انقلاب بسا اوقات جنون کی حد سے آگے گزر گیا۔ ایران نے اپنے آپ کو عراق جنگ میں جھونک دیا۔ بین الاقوامی پابندیوں سے عوام غریب تر ہوتے گئے اور معیشت بدحال ہو گئی۔ آج ایران اسرائیل سے دست و گریبان ہے۔ سب مسلمان ممالک کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ ہیں مگر ایران اس جنگ میں خود اپنا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی جانب توجہ کریں تو شیخ مجیب الرحمان جس کو لوگ ’قوم کا باپ‘ کہتے تھے اس کو قتل کر دیا۔ جنرل ضیاالرحمان نے مارشل لا لگا دیا۔ یہ بنگلہ دیش کے لیے بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس کو پاکستان سے الگ ہوئے 4 سال ہی ہوئے تھے کہ اختلافات نے پوری قوم کو گھن کی طرح چاٹ لیا۔ اگست 1975 میں شیخ مجیب کے خاندان کے ایک ایک فرد کو چن چن کر قتل کر دیا گیا تھا۔
جنرل ضیا الرحمان نے اقتدار سنبھالا اور خود ساختہ ترامیم کے ذریعے 5 جولائی 1977 کو صدر بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی معیشت کو بہت سنبھالا دیا۔ لیکن ان کے قتل کے بعد جنرل حسین ارشاد کا دور آیا جو 90 تک چلا۔ لیکن جو کچھ بنگلہ دیش میں70 کی دہائی میں ہوا، اس کے اثرات بہت دیرپا رہے۔ اور آج بھی بنگلہ دیش بحرانوں کا مرکز ہے۔
70کی دہائی میں خطے میں سب سے بڑی تبدیلی افغانستان میں آئی۔ نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کی حکومتیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔ روس نے 24 دسمبر 1979 کو افغانستان پر حملہ کر دیا۔ پاکستان اس لڑائی میں امریکی تائید سے کود پڑا۔ دنیا کی ایک بڑی جنگ اس خطے میں لڑی گئی۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کو شرمناک شکست ہوئی۔ جنگ کے بعد افغانستان طالبان کے قبضے میں آ گیا اور پوری دنیا کے لیے خطرے کی علامت بن گیا۔ اس سے پہلے کا افغانستان پرامن بھی تھا اور ماڈرن بھی۔ یہاں ترقی بھی ہو رہی تھی اور عوام بھی خوشحال تھے۔ جنگ نے پورا ملک اور خطہ ہی برباد کر دیا۔
70 کی دہائی گزر گئی اور اب 2025 ہے لیکن دنیا میں کچھ ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو بتا رہے ہیں کہ 70 کی دہائی کے زخموں پر مرہم رکھا جا رہا ہے۔ افغانستان میں ایک ایسی حکومت آ گئی ہے جو در پردہ طالبان سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ بنگہ دیش میں حسینہ واجد کا ظالمانہ دور بیت گیا۔ ایران میں رجیم چینج کی آوازیں آ رہی ہیں اور اگر ایران اسی طرح اسرائیل سے شکست کھاتا رہا تو موجودہ ایرانی حکومت کو اپنے لیے قائم رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ پاکستان میں بھی بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ طالبان کے ہمدرد عمران خان نے جو کچھ اس ملک کےساتھ 2011 سے کیا، اس بدامنی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ایک مستحکم حکومت وجود میں آ چکی ہے۔ معیشت کی بحالی کا سفر جاری ہو چکا ہے۔
یوں لگتا ہے 70 کی دہائی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر دنیا کو ایک نیا ورلڈ آرڈر دیا جا رہا ہے جس میں معیشت اور عوام کی بحالی بنیادی جزو ہے۔ شدت پسندی اور دہشتگردی کے خلاف سب اکھٹے ہو رہے ہیں۔
یاد رکھیں! اگر دنیا اسی طرح ظلم سے نفرت کرتی رہی تو یاد رکھیے اسرائیل کا ظلم بھی نہیں رہے گا اور اس دفعہ تبدیلی بھارت میں بھی ہو گی اور مودی کی نفرت انگیز سیاست تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جائے گی۔ جس طرح 70 کی دہائی نے دنیا تبدیل کر دی تھی اسی طرح اس دہائی میں ہونے والے واقعات سے لگتا ہے دنیا اب بھی بدلے گی لیکن اس دفعہ تاریخ کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہو گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم عمار مسعود