تصوف کیا ہے؟ علمِ سلوک اور احسان کا جامع تصور
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
اسلام نہ صرف ایک ظاہری طرزِ حیات سکھاتا ہے بلکہ انسان کے باطنی پہلو کی بھی تربیت کرتا ہے۔ اسی باطنی پہلو کی تربیت کو تصوف، سلوک یا علمِ احسان کہا جاتا ہے۔ تصوف کوئی نئی شریعت یا دین نہیں، بلکہ قرآن و سنت کے مطابق دل کو پاک کرنے، نیت کو خالص کرنے اور اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کا راستہ ہے۔
تصوف کی تعریف:تصوف عربی لفظ ’صفا‘ (پاکیزگی)سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے دل کی صفائی، نیت کی خلوص، اور ظاہر و باطن کی ہم آہنگی۔ امام قشیری فرماتے ہیں: تصوف، حقیقتِ دین کی طلب اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش کا نام ہے۔
قرآن میں تصوف کا تصور:قرآن مجید میں تصوف کو بطور علمِ احسان، اخلاص اور باطنی تطہیر کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اخلاص‘احسان‘ تزکیہ نفس۔
حدیث میں تصوف کا تصور(علمِ احسان) حضرت جبرائیل علیہ السلام کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔(صحیح مسلم)
تصوف کے بنیادی ارکان:-1اخلاص (خالص نیت)-2عبادت میں خشوع-3 معاملات میں اخلاق-4امانت و دیانت-5ادب –
تصوف اور اخلاقی کردار: رسول اللہﷺ کا مقصدِ بعثت اخلاق کی تکمیل ہے، جو تصوف کا بنیادی جوہر ہے۔(موطا امام مالک)
تصوف اور معاملات:یعنی حسنِ سلوک، دیانت، اور انصاف ہی دین ہے۔(البیہقی)
تصوف اور انسانیت کی خدمت:بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ یہی صوفی کا کمال ہے۔(معجم کبیر)
تصوف اور حسنِ ظن:صوفی بدگمانی سے بچتا ہے اور دل کو پاک رکھتا ہے۔(الحجرات 49:12)
نتیجہ:تصوف، اسلام کا وہ روحانی پہلو ہے جو انسان کو نہ صرف اللہ کا سچا بندہ بناتا ہے بلکہ مخلوق کا خیر خواہ، نفع رساں اور بااخلاق انسان بھی بناتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تصوف کا مطلب ہے: اخلاص، حسنِ ظن، خدمتِ خلق، حسنِ معاملات، اور اعلی اخلاق۔
تصوف کا تقاضا یہ ہے کہ:اللہ تعالیٰ کی کامل و مطلق توحید اور محمد ﷺ کی رسالت و ختم نبوت پر کامل یقین اور اخلاص ہو۔ عبادات میں خلوص اور مکمل توجہ ہو۔ تکبر، سوِ ظن، خودپسندی اور ریاکاری سے مکمل اجتناب ہو۔اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت اور دل سے ایمان ہو۔ مسلمانوں کو بھائی سمجھنا، پوری انسانیت اور تمام مخلوقات سے ہمدردی اور شفقت رکھنا۔کسی کا برا نہ چاہنا، نہ ہی کسی کے خلاف جج بننا یا اپنی پارسائی پر فخر کرنا۔ہمیشہ متواضع اور منکسرالمزاج رہنا۔
جیسا کہ احادیث اور علاماتِ آخر الزمان سے ثابت ہے، دورِ فتن میں نئے نئے فتنے ظاہر ہوں گے۔ خیر الامور اوسطہا کے اصول سے ہٹ کر، شدت پسندی اور انتہاپسندی کو فروغ دیا جائے گا۔ تصوف، جو کہ سلوک اور احسان کا راستہ ہے، اصحابِ صفہ کی زہد و تقوی پر مبنی عملی سنت ہے، جسے قرآنی اصولوں پر استوار کیا گیا۔
خلافتِ عثمانیہ اسلامی تعلیم و تربیت کے ذریعے اس تصوف کو مضبوط کرتی رہی، لیکن بعد میں ایک نیا فرقہ پیدا ہوا جس نے تصوف کو شرک و بدعت کا نام دے کر امت کو برطانوی سامراج کی Divide and Rule پالیسی کے تحت تقسیم کر دیا۔
اس فکری تقسیم نے اتحادِ امت کو پارہ پارہ کر دیا اور اسلام کی رحم، درگزر اور حسنِ اخلاق کی پالیسی کو سوِ ظن، فتوئوں اور شدت پسندی میں بدل دیا۔ سامراجی ایجنڈے کے تحت چند لوگ قتل و فساد کو جہاد کا نام دے کر اسلام کو بدنام اور مسلم دنیا کو کمزور کرتے رہے۔
مگر اب وہی اصلی اسلام، جو اخوت، محبت، اخلاص اور احسان کا پیغام ہے، دوبارہ ظاہر ہو رہا ہے۔ اور ان شا اللہ، علمِ آخر الزمان کی تعبیرات کے مطابق، یہی اسلام اپنی اصل صورت میں امت مسلمہ کی وحدت اور غالبیت کا ذریعہ بنے گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں تصوف تصوف اور تصوف کا تصوف کو
پڑھیں:
دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کا تصور نہیں کیا جاسکتا: امریکا
ویب ڈیسک: امریکا کے رکن کانگریس لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ کیتھ سیلف نے کہا ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستانی امریکن تنویر احمد سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بار جنگ شروع ہوجائے تو اسے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔
اس موقع پر ڈیموکریٹک رکن کانگریس لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جیک برگمین نے کہا کہ امریکا کو ہم خیال آزاد ممالک کے ساتھ مل کر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ناکامیوں سے بچا جائے۔
قصور : پسند کی شادی نہ ہونے پراپنےہی گھر کا صفایا کرنے والی لڑکی پکڑی گئی
دونوں اراکین کانگریس نے یہ بات پاکستانی امریکن تنویر احمد کے اس سوال پر کہی کہ پہلگام واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگانے والا بھارت تاحال ثبوت دینے میں ناکام ہے۔