اسرائیل کے ساتھی یمن کے نشانے پر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یمن کی مسلح افواج کا صیہونی رژیم کے خلاف سمندری محاصرے کا چوتھا مرحلہ محض ایک فوجی آپریشن ہی نہیں بلکہ ایک ایسی محروم لیکن طاقتور قوم کے انقلابی ارادے کی علامت ہے جو صیہونی رژیم کے ظلم کے خلاف گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں ہے۔ حوثی مجاہدین کے اس اقدام نے غاصب صیہونی رژیم کی معیشت اور سلامتی کو متزلزل کر ڈالا ہے اور اس کے حامی مشکل حالات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے سامنے سخت انتخاب ہے: تل ابیب سے تعاون جاری رکھنا یا اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں شکست قبول کر لینا۔ یمن اپنے ایمان، شجاعت اور اسلامی مزاحمت میں اتحاد کی بنیاد پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہے اور یہ جدوجہد انشاءاللہ فلسطین کاز کے مکمل حصول اور قدس شریف کی آزادی تک جاری رہے گی۔ تحریر: رسول قبادی
یمن کی مسلح افواج نے اسرائیل کے خلاف سمندری محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب اس کے چوتھے مرحلے کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں حوثی مجاہدین نے ایک بار پھر فلسطین کاز سے وفاداری اور غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس مرحلے میں انصاراللہ یمن نے اعلان کیا ہے کہ ایسے تمام بحری جہاز جو کسی بھی طرح سے مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں سے مربوط ہوں گے چاہے وہ کسی بھی اسلامی یا عرب ملک کے ہی کیوں نہ ہوں روک دیے جائیں گے۔ یمن کی مسلح افواج نے سمندری محاصرے کو غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں پر دباو ڈالنے کا ذریعہ قرار دے رکھا ہے۔ یہ حکمت عملی مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کی خاطر اور اسلامی مزاحمت کی ہم آہنگی سے تشکیل پائی ہے اور اب تک اس کے چار مراحل مکمل ہو چکے ہیں جو درج ذیل ہیں:
پہلا مرحلہ: اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بنانا (اکتوبر 2023ء)
غزہ پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے پہلے ہفتے میں ہی تقریباً 10 ہزار کے قریب عام فلسطینی شہری شہید ہو گئے تھے۔ اس کے بعد یمن نے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیلی بحری جہازوں یا اسرائیلی پرچم کے حامل بحری جہازوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ اس سلسلے میں حوثی مجاہدین کا پہلا آپریشن "گیلکسی لیڈر" کے خلاف انجام پایا۔ یہ کشتی ایک صیہونی تاجر کی ملکیت تھی اور 19 نومبر 2023ء کے دن یمن کی مسلح افواج نے ہیلی برن کے ذریعے اس کشتی کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ آپریشن انتہائی اعلی سطحی اور درست انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر انجام پایا جس نے اسرائیلی حکمرانوں کے چھکے چھڑا دیے اور ثابت کر دیا کہ یمن انتہائی اہم تجارتی راہداریوں پر اسرائیلی بحری جہازوں کی آمدورفت معطل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ایلات بندرگاہ کی جانب بحری جہازوں کی آمدورفت میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی اور صیہونی رژیم سے مربوط بحری جہازوں کی انشورنس اخراجات میں اضافہ ہو گیا۔
دوسرا مرحلہ: آپریشن کا دائرہ وسیع ہو جانا (جنوری 2024ء)
غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کا ظالمانہ محاصرہ جاری رہنے پر یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ نے اپنے فوجی آپریشنز کا دائرہ بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیلی بحری جہازوں کے علاوہ ایسے تمام ممالک کے بحری جہازوں کو بھی بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب سے آمدورفت کی اجازت نہیں ہو گی جو کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے رابطے میں ہیں اور اس کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ یمن نے خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کو وارننگ جاری کر دی۔ اس مرحلے میں مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں کی جانب جانے والے بحری جہازوں کو کروز میزائلوں، ڈرون طیاروں اور خودکش تیز رفتار کشتیوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ حوثی مجاہدین کے حملوں کا نشانہ بننے والے بحری جہازوں میں سے ایک یو ایس ایس کارنی تھا جسے 2 جنوری 2024ء کے دن بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔
تیسرا مرحلہ: صیہونی بندرگاہوں سے تعاون کرنے والی کمپنیوں کو نشانہ بنانا (مارچ 2024ء)
اس مرحلے میں انصاراللہ یمن نے اپنی حکمت عملی کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہر ایسی کمپنی کو نشانہ بنایا جائے گا جو صیہونی بندرگاہوں میں صیہونی رژیم سے تعاون کرنے میں مصروف ہے، چاہے وہ کسی بھی ملک کی ہو۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ یمن کی بارہا وارننگ کے باوجود متحدہ عرب امارات سمیت کچھ بین الاقوامی کمپنیوں نے مقبوضہ فلسطین میں صیہونی بندرگاہوں سے تعاون جاری رکھا۔ 9 اپریل 2024ء کے دن "ایم ایس اورین" نامی بحری جہاز پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ یہ بحری جہاز سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی کی ملکیت تھا جو مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہ ایلات کی جانب گامزن تھا۔ اس حملے میں جدید ڈرون طیاروں کا استعمال کیا گیا۔ اس مرحلے کے بعد ایلات بندرگاہ کی آمدن میں 80 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔
چوتھا مرحلہ: صیہونی رژیم کا جامع محاصرہ (جولائی 2025ء)
اس مرحلے کے آغاز کا اعلان حال ہی میں یمن کی مسلح افواج کے ترجمان کرنل یحیی سریع نے کیا ہے۔ یہ مرحلہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف سمندری محاصرے پر مشتمل حکمت عملی کا عروج ہے جس میں ایسی تمام کمپنیوں کے بحری جہازوں کو روکا جائے گا جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں میں سرگرمیاں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اس مرحلے کو "جامع محاصرہ" کا مرحلہ قرار دیا گیا ہے جس میں حتی ان بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا جو دور دراز بندرگاہوں جیسے بحیرہ روم یا بحر ہند میں فعالیت انجام دے رہے ہیں اور ان کے مالکین غاصب صیہونی رژیم سے رابطہ برقرار کیے ہوئے ہیں۔ اس مرحلے کی اہم خصوصیت اعلی سطح کی انٹیلی جنس کے حصول اور جدید ترین جنگی ہتھیار استعمال کرنے پر مشتمل ہے۔
یمن کی مسلح افواج کا صیہونی رژیم کے خلاف سمندری محاصرے کا چوتھا مرحلہ محض ایک فوجی آپریشن ہی نہیں بلکہ ایک ایسی محروم لیکن طاقتور قوم کے انقلابی ارادے کی علامت ہے جو صیہونی رژیم کے ظلم کے خلاف گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں ہے۔ حوثی مجاہدین کے اس اقدام نے غاصب صیہونی رژیم کی معیشت اور سلامتی کو متزلزل کر ڈالا ہے اور اس کے حامی مشکل حالات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے سامنے سخت انتخاب ہے: تل ابیب سے تعاون جاری رکھنا یا اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں شکست قبول کر لینا۔ یمن اپنے ایمان، شجاعت اور اسلامی مزاحمت میں اتحاد کی بنیاد پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہے اور یہ جدوجہد انشاءاللہ فلسطین کاز کے مکمل حصول اور قدس شریف کی آزادی تک جاری رہے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی بحری جہازوں غاصب صیہونی رژیم کی یمن کی مسلح افواج مقبوضہ فلسطین کی بحری جہازوں کو کے خلاف سمندری کرنے میں مصروف اسلامی مزاحمت حوثی مجاہدین نشانہ بنایا اس مرحلے سے تعاون کی جانب ہے اور اور اس
پڑھیں:
انسانی حقوق کا خون آلود طنز
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ میں انسانی امداد کے ذمہ دار ٹام فیلچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: "اتوار کے دن غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے تناظر میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ وہاں موجود انسانی المیے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور ایک سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "یہ انسانی امداد صرف ایک آغاز تھا اور اس سے اہل غزہ کی ضروریات بالکل پوری نہیں ہوتیں۔" انہوں نے کہا کہ جب غزہ میں 42 روزہ جنگ بندی ہوئی تھی تو اس دوران 600 سے 700 کے درمیان امدادی سامان سے لدے ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوتے تھے لیکن کل صرف 120 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔ دوسری طرف الجزیرہ چینل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 43 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 9 فلسطینی امداد وصول کرتے وقت صیہونی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے ہیں۔ تحریر: سید رضا حسینی
جس وقت آسمان سے پیراشوٹس کے ذریعے غزہ میں انسانی امداد فراہم کی جا رہی تھی تو بھوکے فلسطینی تیزی سے گرتے ہوئے پیکٹس کی جانب بھاگتے تھے۔ افراد کی بھیڑ اور امدادی سامان کی قلت کے باعث میڈیا کے کیمرے آخرالزمان والے مناظر ریکارڈ کر رہے تھے۔ اخبار گارجین کے رپورٹر نے امداد کی فراہمی مکمل ہو جانے کے بعد کچھ فلسطینی شہریوں سے انٹرویو لیا۔ محمد المساری ایک کمزور لیکن پختہ عزم کا مالک فلسطینی شہری تھا۔ اس نے کہا: "اس قسم کی امداد رسانی بہت ہی خطرناک ہے اور اپنے عزیزواقارب کی وجہ سے اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوں۔" اس نے مزید کہا: "جب میرے بھانجے مجھ سے کہتے ہیں کہ ماموں ہمیں بھوک لگی ہے تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔" اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے غزہ میں امداد رسانی سرگرمیاں ختم کر دینے کے بعد فلسطینیوں کی بڑی تعداد اپنی جان گنوا بیٹھی ہے۔
عالمی دباو پر پسپائی
غاصب صیہونی رژیم اپنی فوجی ڈاکٹرائن کے تناظر میں حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز کے مکمل خاتمے کے بغیر غزہ سے نکلنے کو اپنی شکست تصور کرتی ہے۔ دوحہ میں کئی دور مذاکرات ناکام ہو جانے کے بعد حماس کے لیے ثابت ہو چکا ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ جنگ بندی نہیں چاہتی اور حتی اس کے لیے اپنے یرغمالیوں کی جان کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں نیتن یاہو بھی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ حماس کو میدان جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ لہذا تل ابیب نے غزہ میں امداد کی فراہمی روک کر بھوک اور قحط کے ذریعے فلسطینی عوام پر دباو ڈالنے کا فیصلہ کیا تاکہ شاید اس طرح حماس کو اس کے انقلابی اہداف سے دستبردار ہونے پر مجبور کر سکے۔ لیکن جب غزہ میں بھوکے بچوں کی ابتر صورتحال عالمی رائے عامہ کی توجہ کا مرکز بننے لگی تو صیہونی رژیم اور اس کے حامی عالمی دباو کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ یوں فضا سے امداد رسانی کے ذریعے فیس سیونگ کی کوشش شروع ہو گئی۔
سمندر میں ایک قطرہ
اقوام متحدہ میں انسانی امداد کے ذمہ دار ٹام فیلچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: "اتوار کے دن غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے تناظر میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ وہاں موجود انسانی المیے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور ایک سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "یہ انسانی امداد صرف ایک آغاز تھا اور اس سے اہل غزہ کی ضروریات بالکل پوری نہیں ہوتیں۔" انہوں نے کہا کہ جب غزہ میں 42 روزہ جنگ بندی ہوئی تھی تو اس دوران 600 سے 700 کے درمیان امدادی سامان سے لدے ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوتے تھے لیکن کل صرف 120 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔ دوسری طرف الجزیرہ چینل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 43 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 9 فلسطینی امداد وصول کرتے وقت صیہونی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے ہیں۔
غزہ میں اعلانیہ نسل کشی
غزہ میں بھوکے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کی دو بڑی تنظیموں "یتسلیم" اور "ڈاکٹرز فار ہیومن رائٹس" نے اپنی سرکاری رپورٹس میں اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی ہے اور اس کے حامی مغربی ممالک قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ان مجرمانہ اقدامات کی روک تھام کے ذمہ دار ہیں۔ انسانی حقوق کی ان دو تنظیموں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ گذشتہ دو سال کے دوران صیہونی فوج نے صرف فلسطینی ہونے کی خاطر غزہ میں عام شہریوں کو براہ راست حملوں کا نشانہ بنایا ہے اور وسیع پیمانے پر انفرااسٹرکچر تباہ کر کے شہری علاقوں کو ناقابل ازالہ نقصان پہنچایا ہے۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی انسانی حقوق کی دسیوں عالمی تنظیمیں غزہ میں صیہونی فوج کے جنگی جرائم کی تصدیق کر چکی ہیں۔
فلسطینی بچے، صیہونی محاصرے کا اصل نشانہ
ایسے وقت جب بین الاقوامی تنظیمیں یکے پس از دیگرے فلسطینی بچوں کی بھوک اور غذائی قلت کے بارے میں وارننگ جاری کر رہے ہیں، لیکن غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف مجرمانہ محاصرہ بدستور جاری ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت سے پیدا ہونے والا بحران شدید حد تک خطرناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی آسمان کے ذریعے انتہائی محدود پیمانے پر امدادی سامان کی فراہمی شروع کی گئی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بقول صرف گذشتہ ماہ میں غزہ میں بھوک کے باعث 63 اموات واقع ہوئی ہیں جن میں 24 ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم تھی۔ اس ادارے نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر پانچ بچوں میں سے یک شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سرکاری بیانیے میں آیا ہے: "یہ بحران پوری طرح متوقع تھا کیونکہ گذشتہ چند سالوں سے غزہ کا محاصرہ جاری تھا اور عمدی طور پر غذائی اشیاء اور ادویہ جات کی ترسیل روکی گئی تھی۔ اس وجہ سے بڑی تعداد میں فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔" اس رپورٹ کی روشنی میں غزہ میں خاموش موت کے سائے چھائے ہوئے ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم ہر قسم کی انسانی امداد غزہ پہنچنے سے روک رہی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی غزہ میں شدید بحران کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ 90 ہزار بچے اور خواتین غذائی قلت کے باعث خطرے میں ہیں اور انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت ہوا ہے جب اکثر مغربی ذرائع ابلاغ غزہ میں بحرانی صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور یوں عالمی رائے عامہ کی نظروں سے غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ محاصرے اور جنگی جرائم کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔