پانامہ کے جزیرے پر بندروں نے ساتھی بندروں کے بچوں کو اغوا کرنا شروع کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
پانامہ کے جِکارون جزیرے پر نوجوان نر کیپچن بندروں میں ایک پریشان کن رجحان دیکھنے میں آیا ہے جسے ماہرین نے تشویش ناک قرار دیا ہے۔ ان بندروں نے حالیہ عرصے میں دوسری قسم یعنی ہولر بندروں کے بچوں کو اغوا کرنا شروع کر دیا ہے اور بظاہر اس کا کوئی مقصد نہیں بلکہ تفریح کے طور پر ایسا کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جب ایک شرارتی بندر نے سیکیورٹی اہلکاروں کی دوڑ لگوا دی
جرمن ماہر برینڈن بیریٹ اور ان کی ٹیم نے کیمرہ فوٹیج کی مدد سے اس عجیب رجحان کا انکشاف کیا۔ اس رجحان کا آغاز ایک نوجوان بندر ‘جوکر’ نے کیا جو ہولر بندر کے بچوں کو اپنے کندھے پر اٹھائے پھرتا نظر آیا۔ کچھ بچوں کو 9 دن تک اغوا رکھا گیا حالانکہ وہ بغیر دودھ کے زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان بچوں کی حالت بگڑتی گئی اور کچھ کی موت کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔
مزید 4 نوجوان بندروں نے ‘جوکر’ کی نقل کرتے ہوئے 7 مختلف ہولر بچوں کو اغوا کیا۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یہ عمل خوراک یا رحم دلی کے تحت نہیں بلکہ صرف تفریح، تجسس یا بیزاری دور کرنے کی غرض سے کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پُر اسرار جنگلی جانور کی پارلیمنٹ ہاؤس میں توڑ پھوڑ : عملہ پریشان
ماہرین اس واقعے کو جانوروں میں سیکھنے اور نقالی کے رجحان کی ایک مثال قرار دے رہے ہیں۔ ان بندروں کی ثقافتی عادات میں پہلے بھی بے مقصد حرکتیں دیکھی گئی ہیں جیسے پتھر سے کھانے کا سامان توڑنا یا دوسروں کی آنکھوں میں انگلی ڈالنا۔
تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ رجحان ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ ہولر بندر کم بچے پیدا کرتے ہیں اور کیپچن بندروں کے اس خطرناک عمل سے ان کی آبادی کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اغوا بندر جنگل.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
قزاقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آستانہ (نٹرنیشنل ڈیسک) قزاقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی کا قانون نافذ ہوگیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اب کسی کو زبردستی شادی پر مجبور کرنے پر 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔پولیس کے بیان میں کہا گیا کہ یہ قانون جبری شادیاں روکنے اور کمزور طبقوں، خاص طور پر خواتین اور نوجوانوں کے تحفظ کے لیے نافذ کیا گیا۔اس کے علاوہ دلہنوں کے اغوا پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق اس سے پہلے اگر کوئی اغوا کار متاثرہ خاتون کو اپنی مرضی سے چھوڑ دیتا تو اس کا قانونی کارروائی سے بچنے کا امکان ہوتا تھا تاہم اب یہ سہولت ختم کر دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قزاقستان میں جبری شادیوں کے کیسوں کے قابلِ اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ اس سے متعلق کرمنل کوڈ میں کوئی الگ شق موجود نہیں تھی۔ تاہم ایک رکن پارلیمان نے رواں سال کہا تھا کہ 3 سالوں میں پولیس کو اس نوعیت کی 214 شکایات موصول ہوئی ہیں۔یاد رہے کہ قزاقستان میں خواتین کے حقوق کا مسئلہ 2023 ء میں اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب ایک سابق وزیر نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا۔