UrduPoint:
2025-05-04@12:26:49 GMT

نئے امریکی ٹیرف پاکستان کے لیے خطرہ یا سنہری موقع؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

نئے امریکی ٹیرف پاکستان کے لیے خطرہ یا سنہری موقع؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مئی 2025ء) سن 2024 میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 7.3 ارب ڈالر رہا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے بعد، اگرچہ اس فیصلے کو 90 روز کے لیے مؤخر کر دیا گیا، لیکن تمام ممالک کے لیے 10 فیصد کا بنیادی ٹیرف برقرار ہے۔

امریکی دفتر برائے تجارت کے مطابق پاکستان نے سن 2024 میں 5.

1 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور کپاس، امریکہ برآمد کیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ نئے امریکی ٹیرف کے نفاذ سے پاکستانی برآمدات میں 20 سے 25 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ فوری اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

ماہر معاشیات ڈاکٹر احمد اعجاز ملک کے مطابق امریکی برآمدات پر فوری طور پر کوئی بڑا اثر متوقع نہیں ہے۔

(جاری ہے)

تاہم عالمی معاشی سست روی کی صورت میں پاکستانی صنعت اور معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔

معاشی تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ آن لائن کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجر زیادہ تر مصنوعات چین سے درآمد کرتے ہیں تو فی الحال اس کا اثر صارفین تک منتقل نہیں ہو گا۔

لیکن امریکی مارکیٹ میں مہنگائی سے قوتِ خرید کم ہونے کی صورت میں عالمی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے چینی سمارٹ فونز اور الیکٹرانک مصنوعات کو نئے امریکی محصولات سے مستثنیٰ رکھنا تجارتی معاہدوں میں گنجائش کی طرف اشارہ ہے۔

تاجر برادری کو درپیش مشکلات

راولپنڈی کے تاجر محمد خرم شہزاد کے مطابق پاکستانی تاجر دو بڑے چیلنجز سے نبردآزما ہیں: ایک طرف امریکی پالیسیوں سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں (جیسے سخت کسٹمز ضوابط، وقت کی پابندیاں اور انوینٹری پر انحصار) اور دوسری طرف بڑھتے ہوئے لاجسٹکس اخراجات ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مصنوعات کی تیاری کے مقام کی لازمی نشاندہی، جیسے عوامل میکسیکو جیسے ممالک کو پاکستان پر برتری دلا سکتے ہیں۔ سستی چینی مصنوعات کی ممکنہ یلغار

اس صورت حال میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے چیئرمین محمد جاوید حنیف خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر چین کی امریکی برآمدات کم ہوئیں تو وہ پاکستان جیسے ممالک کی منڈیوں کی طرف رخ کر سکتا ہے اور اس سے سستی چینی مصنوعات کی یلغار مقامی صنعت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

انہوں نے حکومت سے اس کے خلاف پیشگی حکمتِ عملی تیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ متبادل شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت

ڈاکٹر احمد اعجاز ملک نے زور دیا کہ پاکستان کو معاشی پالیسیوں کا جائزہ لے کر متبادل شعبوں، خصوصاً آئی ٹی اور خدمات، کو فروغ دینا چاہیے۔ فی الحال ٹیکسٹائل مصنوعات پاکستان کی سب سے بڑی برآمدات ہیں لیکن کم قیمت کی وجہ سے مستقبل میں چین یا دیگر ممالک اس کی جگہ لے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکی منڈی میں خدمات، خاص طور پر آئی ٹی اور انٹیلی جنس، کی بڑی طلب موجود ہے، جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

محمد جاوید حنیف نے بھی برآمدات کے معیار اور مسابقتی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ای-کامرس اور نئی حکمتِ عملی کی ضرورت

محمد خرم شہزاد نے تجویز دی کہ پاکستان کو ایک جامع ای-کامرس حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں سپلائرز کے تنوع، برآمدی فنانسنگ، ڈیجیٹل مہارتوں، لاجسٹکس کی بہتری اور عالمی معیار کی کسٹمز اصلاحات کو شامل کیا جائے۔

ان کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ''میک اِن پاکستان‘‘ برانڈ کی عالمی سطح پر پذیرائی اور پبلک-پرائیویٹ شراکت داری سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

سفارتی و تجارتی توازن ضروری

راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے صدر عثمان شوکت کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کاروباری ادارے امریکی حکام سے منصفانہ تجارت کی درخواست کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کو ٹیرف فہرست سے خارج کیا جائے۔

اسی طرح بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر سعدیہ سلمان نے تجویز دی کہ پاکستان امریکہ اور چین کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرتے ہوئے عالمی برادری کے سامنے خود کو ایک مستحکم اور اصلاح پسند معیشت کے طور پر پیش کرے۔

ادارت: امتیاز احمد

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہ پاکستان سکتے ہیں کی ضرورت کے لیے

پڑھیں:

چین پر ٹیرف، امریکہ میں اشیا کی قلت کا خدشہ، امریکی مارکیٹس کا کیا حال ہونیوالا ہے ؟تہلکہ خیز رپورٹ آگئی

امریکہ میں چین سے درآمد ہونے والی اشیاء پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے 145 فیصد ٹیرف کے اثرات آئندہ ہفتے سے نمایاں ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ان ٹیرفس کے اطلاق سے قبل چین سے روانہ ہونے والے آخری کارگو جہاز امریکی بندرگاہوں پر پہنچ رہے ہیں لیکن آئندہ دنوں میں نہ صرف جہازوں کی تعداد کم ہو جائے گی بلکہ وہ کم سامان لے کر آئیں گے۔

سی این این کے مطابق پورٹ آف لاس اینجلس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جین سیروکا کے مطابق 9  اپریل  کے بعد لوڈ کیے گئے کارگو پر ٹیرف لاگو ہوگا اور اس کے نتیجے میں بندرگاہ پر آنے والا مال گزشتہ سال کے مقابلے میں 35 فیصد کم ہو جائے گا۔ نیشنل ریٹیل فیڈریشن کے مطابق 2025 کے دوسرے نصف میں مجموعی درآمدات میں کم از کم 20 فیصد کمی متوقع ہے جبکہ جے پی مورگن کے تجزیے کے مطابق چین سے درآمدات میں 75 سے 80 فیصد تک کی گراوٹ ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر چین سے آنے والی اشیاء کو متبادل ممالک سے بروقت پورا نہ کیا گیا تو نہ صرف قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگا بلکہ سپلائی چین بھی شدید متاثر ہو گی۔ بڑے درآمد کنندگان نے چھ سے آٹھ ہفتوں کے سٹاک کا بندوبست کر رکھا ہے لیکن اس کے بعد مارکیٹ میں بعض اشیاء نایاب یا بہت مہنگی ہو سکتی ہیں۔

پورٹ آف شنگھائی میں کئی بڑے کارگو جہاز کھڑے ہیں کیونکہ شپنگ کمپنیوں نے کم طلب کے باعث اپنی روانگیاں منسوخ کر دی ہیں۔ اپریل کے دوران چین سے امریکہ جانے والی شپمنٹس میں 60 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ادھر پورٹ آف نیویارک اینڈ نیوجرسی، جو مارچ میں ملک کی مصروف ترین بندرگاہ بن گیا تھا، نے مئی میں کارگو کی مقدار میں نمایاں کمی کی پیش گوئی کی ہے۔

اگرچہ بڑے ریٹیلرز نے متبادل ممالک جیسے ویتنام، ملائیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے اشیاء منگوانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، لیکن سی این این کے مطابق اتنی جلدی نئے سپلائرز سے وہ مقدار پوری کرنا ممکن نہیں۔ نیشنل ریٹیل فیڈریشن کے مطابق خاص طور پر بچوں کی اشیاء کے لیے معیار، ٹیسٹنگ اور انفراسٹرکچر جیسے مسائل درپیش ہیں، جنہیں حل ہونے میں مہینے یا سال لگ سکتے ہیں۔

گارٹنر کی ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق 45 فیصد سپلائی چین لیڈرز اضافی لاگت صارفین پر منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ پالیسیوں میں تبدیلی نہ کی گئی تو گرمیوں تک مارکیٹ میں قلت، مہنگائی اور محدود اشیاء کا سامنا ہوگا۔

پورٹ آف لاس اینجلس جو اپنی 45 فیصد کاروباری سرگرمیاں چین سے کرتا ہے، وہاں مزدوروں، ٹرک ڈرائیوروں اور گوداموں کے عملے کے کام کے اوقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ امریکن ٹرکنگ ایسوسی ایشنز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چین سمیت کلیدی تجارتی شراکت داروں سے معاہدے کیے جائیں تاکہ شعبے میں بے روزگاری سے بچا جا سکے۔

صورتحال کا سب سے بڑا اثر صارفین، درآمد کنندگان اور چھوٹے تاجروں پر پڑے گا، جن کے پاس ٹیرف کی لاگت برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں۔ کئی اہم اشیاء جیسے ٹی وی، ملبوسات، جوتے، بچوں کے کھلونے اور دیگر روزمرہ مصنوعات کی قلت اور مہنگائی کا سامنا اب یقینی ہوتا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی چیمبر آف کامرس کا  وائٹ ہاؤس کو خط،   ٹیرف میں فوری کمی کا مطالبہ
  • مشہور امریکی فٹ ویئر برانڈز کا  وائٹ ہاؤس سے ٹیرف استثنیٰ کا مطالبہ
  • صحافیوں پر حملے عالمی جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں، مراد علی شاہ
  • امریکی چیمبر آف کامرس کا  وائٹ ہاؤس کو خط،   ٹیرف میں فوری کمی کا مطالبہ
  • مشہور امریکی فٹ ویئر برانڈز کا  وائٹ ہاؤس سے ٹیرف استثنیٰ کا مطالبہ
  • عالمی سطح پر ناکامی کے بعد بھارت میں پاکستانی مصنوعات پر پابندی
  • پاک-بھارت کشیدگی، بابا وانگا کی عالمی جنگوں کی پیشگوئی زیر بحث
  • چین پر ٹیرف، امریکہ میں اشیا کی قلت کا خدشہ، امریکی مارکیٹس کا کیا حال ہونیوالا ہے ؟تہلکہ خیز رپورٹ آگئی
  • امریکی پیشکش کا جائزہ لے رہیں، بیجنگ کا دروازہ کھلا ہے، چین