ایک اہم پیش رفت میں، پاکستان نے بحیرہ عرب میں اپنے علاقائی پانیوں اور فضائی حدود کے استعمال پر بھارتی پرچم بردار جہازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق ہوای پابندی کے بعد پاکستان کی یہ ایک اور کاری ضرب ہے۔ ان کےمطابق یہ اقدام پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سامنے آیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان پیچیدہ اور اکثر متنازعہ تعلقات ہیں، تاہم کچھ ناقدین ہندوستانی پرچم والے جہازوں پر پابندی کو ایک انتقامی اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اور اس کو کشیدگی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ کہتے ہیں، ہندوستان کی طرف سے پاکستانی طیاروں پر لگائی گئی اسی طرح کی پابندیوں کے بعد پاکستان کا یہ جوابی قدم ہندوستان کی معیشت پر کاری ضرب ہوسکتی ہے۔

بحری تجارت پر اثرات

اس پابندی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی اور جہاز رانی کی سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے، جس کے ممکنہ نتائج دونوں ممالک کی معیشت اور کاروبار پر پڑسکتے ہیں۔ ہندوستانی جہازوں کو سفر کے اوقات اور اخراجات میں اضافہ کرتے ہوئے متبادل راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان کی سمندری حدود

پاکستان کا خصوصی اقتصادی زون (EEZ) بحیرہ عرب میں تقریباً 290,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ بحیرہ عرب (بحر ہند) میں پاکستان کی سمندری حدود تقریباً: بیس لائن سے 12 سمندری میل (22.

2 کلومیٹر) اور خصوصی اقتصادی زون (EEZ): بیس لائن سے 200 سمندری میل (370.4 کلومیٹر) اور   EEZ

 سے آگے، 350 سمندری میل (648.2 کلومیٹر) یا اس سے زیادہ تک پھیلا ہوا ہے۔

بحیرہ عرب کے ساتھ پاکستان کی ساحلی پٹی کی کل لمبائی تقریباً 1,046 کلومیٹر (650 میل) ہے۔

بحر ہند میں پاکستانی علاقے سے روزانہ گزرنے والے جہازوں کی صحیح تعداد عوامی طور پر دستیاب نہیں ہے۔ تاہم، یہ بات قابل غور ہے کہ بحیرہ عرب، جس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے، ایک اہم جہاز رانی کا علاقہ ہے، جس میں سیکڑوں جہاز اس خطے سے گزرتے ہیں۔

اسی طرح پاکستانی سمندری حدود سے گزرنے والے ہندوستانی جہازوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا دونوں ممالک کے درمیان پیچیدہ سمندری حدود کے تنازعات کی وجہ سے مشکل ہے، خاص طور پر سر کریک کے علاقے کے ارد گرد۔  سر کریک تنازعہ نہ صرف علاقائی دعووں کو متاثر کرتا ہے بلکہ ماہی گیری کی سرگرمیوں، تیل اور گیس کی تلاش اور سمندری تجارت کو بھی متاثر کرتا ہے۔

سمندری حدود کے تنازعات

سر کریک تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سمندری حدود کی تشریح کرتا ہے اس issue, پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

تنازعہ میں خصوصی اقتصادی زونز (EEZs) اور براعظمی شیلف کا تعین بھی شامل ہے۔

بحری جہازوں پر اثرات

دونوں ممالک کی طرف سے ہر سال سیکڑوں ماہی گیروں کو علاقائی پانی عبور کرنے پر گرفتار کیا جاتا ہے۔ چھوٹے ماہی گیروں کے لیے فزیکل باؤنڈری کی عدم موجودگی اور نیوی گیشن ٹولز کی کمی ان واقعات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سفارتی تناؤ نے جہاز رانی پر پابندیاں عائد کی ہیں، جس میں ہندوستان کی طرف سے پاکستان اور پاکستانی بحری جہازوں کی درآمدات پر حالیہ پابندی بھی شامل ہے۔

 ہندوستان اور پاکستان کی سمندری حدود کے ارد گرد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور تناؤ کے پیش نظر، ریئل ٹائم ڈیٹا یا سرکاری اعدادوشمار تک رسائی کے بغیر پاکستانی پانیوں سے گزرنے والے ہندوستانی جہازوں کی مخصوص تعداد فراہم کرنا مشکل ہے۔

پاکستان بحیرہ عرب میں اپنے علاقائی پانی اور خدمات کا استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی جہازوں کے لیے فیس وصول کرتا ہے، جس میں

پائلٹ کی فیس ٹوویج فیس پورٹ واجبات نیویگیشن فیس شامل ہوتی ہے۔

یہ فیس سامان  کی قسم، سائز اور استعمال کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ پاکستان کے میری ٹائم حکام اس کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔

  اس کے علاقے سے گزرنے والے بین الاقوامی بحری جہازوں یا جہازوں کے لیے پاکستان کے فیس چارجز کئی عوامل پر منحصر ہو سکتے ہیں، بشمول کارگو کی قسم، شپنگ لائن، اور راستہ۔

اگرچہ مجھے ہندوستانی جہازوں سے وصول کی جانے والی فیس کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں مل سکی، لیکن یہاں کچھ عمومی چارجز ہیں جو لاگو ہوسکتے ہیں:

ڈیمریج فیس: یہ چارجز اس وقت لاگو ہوتے ہیں جب ایک کنٹینر پورٹ ٹرمینل پر اجازت شدہ فارغ وقت سے زیادہ ٹھہرتا ہے۔  فیس عام طور پر فی کنٹینر اور فی دن بل کی جاتی ہے، مقام اور سامان کی قسم کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔

نظر بندی کی فیس: ڈیمریج فیس کی طرح، حراستی چارجز لاگو ہوتے ہیں جب ایک کنٹینر کو پورٹ ٹرمینل کے باہر اجازت شدہ فارغ وقت سے زیادہ رکھا جاتا ہے۔ یہ فیسیں مقام، کیریئر اور کنٹینر کی قسم کے لحاظ سے بھی مختلف ہوتی ہیں۔

اسٹوریج چارجز: یہ فیسیں ٹرمینلز، گوداموں، یا کنٹینر یارڈز پر کنٹینرز کے زیر قبضہ اسٹوریج کی جگہ کے استعمال کا احاطہ کرتی ہیں۔

پاکستان کے اپنے سمندری علاقے کو ہندوستانی جہازوں کے لیے بند کرنے کے مالیاتی اثرات ممکنہ طور پر دونوں ممالک کے لیے اہم ہوں گے، جس سے تجارت، جہاز رانی اور معیشت متاثر ہوگی۔ یہاں کچھ ممکنہ مضمرات ہیں:

تجارتی خلل: پاکستان اور ہندوستان کو تجارت کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے، شپنگ کے اخراجات اور وقت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس سے اشیا کی قیمتوں پر اثر پڑسکتا ہے اور معیشت پر اثر پڑسکتا ہے۔

آمدنی کا نقصان: پاکستان شپنگ فیس، بندرگاہ کے واجبات، اور ہندوستانی جہازوں کو فراہم کردہ دیگر خدمات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے محروم ہوسکتا ہے۔

بحری تجارت پر اثر: بندش سے علاقائی تجارت میں خلل پڑسکتا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان اور ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک بھی متاثر ہوں گے جو ان جہاز رانی کے راستوں پر انحصار کرتے ہیں۔

معاشی نتائج: تجارت کے لیے بڑھتی ہوئی لاگت اور وقت اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، جس سے دونوں ممالک میں صارفین اور کاروبار متاثر ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کےمعاشی امورکے ماہر شہزاد افضل کہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی یقیناً ہندوستان کے لیے اہم معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔ جن میں دوسرے ممالک کے ساتھ ہندوستان کی تجارت جو پاکستانی بندرگاہوں یا جہاز رانی کے راستوں پر انحصار کرتے ہیں بڑی طرح متاثر ہوگی، جس کی وجہ سے لاگت اور پیچیدگی بڑھ جائے گی۔

ان کے مطابق اسی طرح ہندوستانی بحری جہازوں کو طویل راستے اختیار کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے، جس کے نتیجے میں ایندھن کے زیادہ اخراجات، دیکھ بھال، اور طویل سفر کے اوقات کی وجہ سے ممکنہ نقصانات ہوتے ہیں۔

شہزاد  افصل  مزید کہتے ہیں کہ پاکستان سے درآمدات پر پابندی اور شپنگ پر پابندیاں اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور ان درآمدات پر انحصار کرنے والی صنعتوں کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

مبصرین کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سمندری تجارت محدود ہے، 2024 میں صرف 10 پاکستانی پرچم والے جہاز ہندوستانی بندرگاہوں پر آئے، اور 4 ہندوستانی پرچم والے جہازوں نے پاکستانی بندرگاہوں کا دورہ کیا۔ اسی طرح دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑے پیمانے پر تیسرے ممالک یا اٹاری واہگہ جیسی زمینی سرحدوں سے ہوتی ہے، جو اس وقت کشیدگی کی وجہ سے بند ہے۔

 دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ دو طرفہ تعلقات کے پیش نظر، یہ پیشرفت تجارتی اور سفارتی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

بحیرہ عرب بھارت پاکستان جہاز سمندر فضائی حدود

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارت پاکستان جہاز ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان ہندوستانی جہازوں بحری جہازوں ہندوستان کی پاکستان اور پاکستان کی گزرنے والے پر پابندی جہازوں کی والے جہاز جہاز رانی کی وجہ سے کرتا ہے ہوتی ہے حدود کے کی قسم کے لیے

پڑھیں:

تاریخ کی نئی سمت

ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔

پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔

نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔ 

لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔

اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔

نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔

ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔

ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔

افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔

پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔

فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔

اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔

ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔

مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔

گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔

افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔

اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔

نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔

پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔

نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • تاریخ کی نئی سمت
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان
  • برطانیہ اور قطر کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط
  • پاکستان نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو لیکر اسلامی تعاون تنظیم کے ریمارکس کو مسترد کر دیا