’’ کب سے چنگ چی کے انتظار میں کھڑی تھی، آ کے ہی نہیں دے رہی، پھر کسی نے بتایا کہ اماں انتظار تو فضول ہے، وہ تو بند ہو گئی۔‘‘
بزرگ خاتون پھولتے سانس کے دوران بولتی کنٹریکٹ کی بس میں چڑھتے بول رہی تھیں۔
’’ارے کوئی تو اس کے لیے لکھے کہ یہ کیوں بند کیے ہیں، کتنی آسانی تھی اس سے، ہماری طرف تو کوئی بس ویگن بھی نہیں جاتی۔‘‘
دفتر میں کام کرنے والی خاتون کا گلہ۔
’’اگر مجھے پتا ہوتا کہ یہ مسئلہ ہے تو میں گھر سے ہی نہ نکلتی۔‘‘
گھریلو خاتون کی شکایت۔
چنگچی رکشہ کراچی میں بھاگتا دوڑتا نظر آتا، تین پہیوں پر مشتمل رکشہ جو سات آٹھ سواریوں کو باآسانی بٹھا کر مقررہ اسٹاپ پر یا اسٹاپ سے آگے پیچھے جہاں کہا جاتا اُتار دیتا تھا، شکایتیں تو مسافروں کو اس سے بھی بہت تھیں، پر وہ نعمت اب…
چین کمپنی ’’چنگچی‘‘ نے موٹرسائیکلوں کی طرز پر ایک سواری شروع کی تھی۔ یہ ایک عام سی سواری تھی جس میں انجینئرنگ کا خاص عمل دخل نہ تھا، یہ مقامی کاریگروں اور مکینکوں نے تیارکی تھی۔ پاکستان میں اس کی آمد 2000 میں ہوئی۔ اس کے بعد یہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور پشاور میں مقبول ہوتے گئے، یوں آٹو رکشے کی جگہ یہ آئے اور چھا گئے۔ یہ ایک سستی سواری ہے جسے تین پہیوں پر گھسیٹا جاتا ہے۔
بظاہر یہ ایک غیر مستحکم سواری ہے جس کی وجہ سے آئے دن ملک بھر میں حادثات دیکھنے کو ملتے رہے تھے لیکن عوامی طور پر اسے بہت سراہا گیا، یہ شہروں میں ان مقامات تک پہنچنے لگی جہاں بڑی بسیں، ویگنیں نہیں جا سکتی تھیں، یوں شہر میں ٹرانسپورٹ کی کمی کو بھی پورا کیا جانے لگا لیکن دیکھا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان تین پہیوں کے رکشوں کا اژدھام بڑھتا ہی گیا۔ بس اسٹاپ اس کے رش سے بھرے رہتے، مسافروں کو بٹھانے کے چکر میں تلخ کلامی اور قتل و غارت گری کے واقعات بھی سننے کو ملے لیکن کراچی میں ان رکشوں کی وجہ سے اور کمی سے مسائل نظر آئے۔
’’ یہ پولیس والے ان کم بخت رکشے والوں کو کچھ نہیں کہتے، انھوں نے ٹریفک کا حشر کر رکھا ہے، سڑک گھیرکر رکھتے ہیں۔‘‘
ایک کنٹریکٹ بس کے سینئر ڈرائیور نے احتجاج کیا تھا۔
’’ ہم ہر دن ایک رقم اوپر تک پہنچاتے ہیں تاکہ ہمارا کوئی بھی معاملہ ہو تو سنبھال لیا جائے۔‘‘
مخصوص اسٹاپ پر چنگچی رکشہ والوں سے مخصوص نمبر کے رکشوں سے وصولی کرنے والے صاحب کا بیان (چھ سات مہینے پہلے)۔
’’کتنے اوپر؟‘‘
(مسکرا کر) ’’بہت اوپر تک۔ کیا کریں کوئی مسئلہ ہو تو یہ لوگ سنبھال لیتے ہیں۔‘‘
خدمت عوام کے لیے، مسائل عوام کے لیے،کرپشن عوام سے اور عذاب میں رہتی ہے عوام۔ جو ایک ایسی بھینس کی مانند ہے جو منتظر ہی رہتی ہے پر اس بھینس سے فائدے تو اٹھا لیے جاتے ہیں لیکن اس کے چارے کے بندوبست کے لیے آناکانی ہوتی رہتی ہے۔پندرہ اپریل سے چودہ جون 2025 تک کراچی کی بڑی شاہراہوں جیسے شاہراہ فیصل، آئی آئی چندریگر روڈ، شاہراہ قائدین اور راشد منہاس روڈ وغیرہ شامل تھے لیکن یہ پابندیاں کہیں کم اورکہیں زیادہ نظر آتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام مسائل کے درپیش کیا حکومتی سطح پر عوامی خدمت کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا یا اس پابندی سے پہلے باقاعدہ طور پر منصوبہ بندی کی گئی تھی؟ شہر سے دور پارکے وہ علاقے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات ویسے ہی کمیاب تھیں، ایسے میں چنگچی رکشوں نے گلی کوچوں اور محلوں سے بڑی سڑکوں تک دور دراز کے مقامات تک رسائی کو آسان بنا دیا تھا۔
وہ بھی کم کرائے میں۔ تیز رفتار ہونے کے علاوہ بیٹھنے کی سہولیات کے ساتھ یہ سہولت جب شروع ہوئی تو اسے عوامی حلقوں نے قبول کر لیا اور پھر ایک کے بعد ایک نئے نئے نمبرکی نئے روٹس کی چنگچی سروس کا آغاز ہو گیا تھا۔بہت سی آسانیوں کے ساتھ اس قسم کے رکشوں میں کئی خامیاں بھی ہیں، لاہور کے رکشے کراچی کے مقابلے میں خاصے ناتواں ثابت ہوئے ہیں۔
مہنگائی کی چکی میں پستے غریب لوگ جن مسائل سے نمٹ رہے تھے، اب سفری مشکلات ان میں اپنا مقام بنا چکی ہیں۔’’ ہر صبح آفس جانے سے پہلے سوچنا پڑتا تھا کہ آج کیسے جائیں گے، ہمارا گھر مین روڈ سے بہت دور ہے اور جو روڈ پہلے ملتا ہے وہاں بھی ایک ویگن چلتی ہے جو آدھے گھنٹے بعد آتی ہے اوپر سے اتنی رینگ رینگ کر چلتی ہے، اس کی حالت بھی مخدوش ہے۔ اس پر وقت کی بربادی اس کے بعد مین روڈ پر جا کر مطلوبہ ویگن کو پکڑنا۔ یہ سب آسان نہ تھا۔ چنگچی کے باعث آسانی یہ تھی کہ گھر کے نزدیک سے رکشے میں بیٹھ کر چالیس روپے میں مین روڈ پر پہنچ کر وہاں سے اسی روپے میں ویگن میں آفس پہنچ جاتے ہیں۔ روز کے دو سو چالیس روپے۔‘‘
’’اور آپ کی تنخواہ؟‘‘
’’ تیس ہزار روپے۔‘‘ کھسیانی سی ہنسی۔ ماسٹرز کرنے کے باوجود۔ ہماری پاکستانی عوام جن مسائل میں زندگی گزار رہی ہے وہاں بجلی، پانی، گیس، ٹریفک کے مسائل، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کے مسائل نہ جانے کتنی پریشانیوں سے گزرکر ایک پرسکون زندگی گزارنے کے خواب دیکھتے ہیں، کیا انھیں کبھی اپنے خوابوں کی تعبیر مل سکے گی؟
کیا چنگچی رکشوں کی پابندی ختم کر دینی چاہیے؟
سوال پابندی کا نہیں بلکہ ان ڈھیروں مسائل کا ہے جن کی وجہ سے چنگچی رکشوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ ڈھیروں این جی اوز اور مخیر حضرات کی امداد نے ان کی تعداد میں اضافہ ہی کیا، دس گیارہ سال بعد اب اس بپھرے ہوئے طوفان پر ایک دم بند باندھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس بند سے پہلے مسائل کے تدارک کے لیے پلاننگ ضروری تھی۔
لال اور گلابی بسیں یقینا عوام کے لیے ایک اچھا اضافہ ہے لیکن اس کی محدود تعداد کے علاوہ بلند کرائے تکلیف دہ ہیں، گویا ایک اسٹاپ کے بھی 80 روپے اور کئی اسٹاپ کے بھی 80 روپے، ورنہ طویل سفر کے اور آخری حد 120 روپے۔ بہرحال چنگچی رکشوں پر پابندی جو اب کچھ کھلی،کچھ بند سی چل رہی ہے، لال بسوں میں رش جو بڑھتے کرائے کے باعث کم ہوگیا تھا، اب بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
عدالتوں میں کیا فیصلے ہو رہے ہیں،کیسے ہو رہے ہیں، یہ عام عوام کی دسترس سے باہر ہے، لیکن اپنی روزی روٹی کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرتے غریب لوگ منتظر ہیں کہ ان کی آسانی کے لیے متبادل ذرایع میسر ہوں۔پرانے زمانے کی بلیک اینڈ وائٹ انگریزی فلموں میں سڑکوں پر گھوڑا گاڑیوں کا دوڑنا بار بار ذہن میں ابھرتا ہے، ویسے وہ زمانہ بھی برا نہ تھا، کیا خیال ہے!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چنگچی رکشوں کے لیے
پڑھیں:
حکومت آزادی صحافت اور اخبارات کے کردار کی معترف ہے، شرجیل میمن
ملاقات میں صوبائی وزیر نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے وفد سے کہا کہ اخباری صنعت کے تمام جائز مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے وفد نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران اخباری صنعت کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا گیا، پرنٹ میڈیا کے حجم میں اضافے اور علاقائی و لسانی پریس کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ شرجیل میمن نے وفد سے گفتگو کے دوران کہا کہ سندھ حکومت آزادی صحافت اور اخبارات کے کردار کی معترف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخباری صنعت کے تمام جائز مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے۔