انسٹاگرام پر ایک معمولی سی حرکت نے سوشل میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا، جب بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی نے اداکارہ اور انفلوئنسر اونیت کور کی ایک تصویر کو غلطی سے لائیک کردیا۔

ویرات کوہلی نے اس لائیک کو ’الگورتھم کی غلطی‘ قرار دیا، مگر اس چھوٹے سے واقعے نے اونیت کور کی قسمت کو ایسا پلٹا دیا کہ وہ راتوں رات انٹرنیٹ سنسیشن بن گئیں۔

یہ واقعہ 30 اپریل کو اُس وقت منظر عام پر آیا جب اونیت نے انسٹاگرام پر کچھ دلکش تصویریں پوسٹ کیں۔ لیکن جو بات عام فالوورز کی نظروں سے نہ چھپ سکی، وہ یہ تھی کہ ویرات کوہلی کا ’لائیک‘ بھی ان تصاویر میں شامل تھا۔ اگرچہ کچھ دیر بعد یہ لائیک ہٹا دیا گیا، مگر تب تک اسکرین شاٹس گردش میں آچکے تھے، اور #ViratLikedAvneet کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔

بھارتی اسٹار کرکٹر کی اس غلطی کے بعد سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ فین پیجز میمز سے بھر گئے، کچھ صارفین نے مذاق بنایا تو کچھ نے سنجیدہ سوالات بھی اٹھائے۔ انوشکا شرما کا نام بھی بیچ میں گھسیٹا جانے لگا اور اونیت کور کو ’Accidental Viral Queen‘ کا لقب مل گیا۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں جیسے سب کی نظریں ایک ہی طرف مرکوز ہوگئیں۔

اس سارے ہنگامے کے بعد ویرات کوہلی کو بھی صفائی دینا پڑی۔ انہوں نے انسٹاگرام اسٹوری میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی فیڈ کلیئر کر رہے تھے اور غالباً الگورتھم کی وجہ سے کسی تصویر پر غلطی سے انٹریکشن ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر نہ پیش کیا جائے اور غیر ضروری قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔

مگر ویرات کی یہ وضاحت اونیت کی بڑھتی ہوئی شہرت کو روک نہ سکی۔ ان کے انسٹاگرام فالوورز کی تعداد میں حیران کن رفتار سے اضافہ ہوا، جو 30 ملین سے بڑھ کر 31.

8 ملین تک جاپہنچا۔ صرف یہی نہیں، ان کی ہر پوسٹ کی مارکیٹ ویلیو بھی بڑھ گئی، اور 2 لاکھ روپے سے اب یہ 2.6 لاکھ روپے فی پوسٹ تک جا پہنچی ہے۔

اونیت کو صرف 72 گھنٹوں میں 12 نئے برانڈز کی طرف سے پرکشش تشہیری آفرز موصول ہوئیں، جن میں بیوٹی، فیشن اور فنٹیک کمپنیاں شامل ہیں۔ ان کے فالوورز نے اس لمحے کو ’مین کیریکٹر مومنٹ‘ قرار دیا، اور میڈیا میں ان کا نام مسلسل زبان زد عام ہے۔

یہ وہی اونیت کور ہیں جنہوں نے شوبز میں قدم ڈانس ریئلٹی شوز سے رکھا تھا، اور اب وہ ایک مکمل سوشل میڈیا آئیکون بن چکی ہیں۔ ان کی موجودہ نیٹ ورتھ 41 کروڑ روپے (یعنی تقریباً 5 ملین ڈالر) سے تجاوز کرگئی ہے، اور ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ان کا گراف یوں ہی بلند رہا تو یہ رقم دگنی بھی ہوسکتی ہے۔

ادھر، کوہلی کی طرف سے ’الگورتھم کی غلطی‘ والی وضاحت کے بعد مارک زکربرگ بھی تنقید کی زد میں آگئے۔ بھارتی صارفین نے ان کے انسٹاگرام کمنٹ سیکشن کو میدانِ جنگ بنا دیا اور مطالبہ کیا کہ وہ کوہلی سے معافی مانگیں اور انسٹاگرام کے الگورتھم کو ’کنگ کوہلی‘ کے وقار کے مطابق درست کریں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ویرات کوہلی سوشل میڈیا اونیت کور اونیت کو

پڑھیں:

عالمی مالیاتی خاندانوں کا بازار، میڈیا اور جامعات پر کنٹرول

اسلام ٹائمز: ​یہ صرف مالیاتی اداروں یا میڈیا کی طاقت کا معاملہ نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ چند خاندانوں نے سرمائے، علم اور ابلاغ کے تمام اہم ذرائع پر ایسی گرفت قائم کر رکھی ہے کہ دنیا کے بیشتر لوگ ان کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو اپنی مرضی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظر نہ آنے والا جال ہے جہاں مارکیٹس کو کنٹرول کرنے سے زیادہ خطرناک کام انسانوں کے شعور کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہی آج کے عالمی مالیاتی نیٹ ورکس کی اصل حکمت عملی ہے۔ ​یہ ایک ایسا پیچیدہ منظر نامہ ہے جہاں ہر عمل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، اور بظاہر آزاد نظر آنے والے ادارے درحقیقت ایک ہی مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ) 

​جب بھی ہم عالمی معیشت یا سرمایہ داری پر بات کرتے ہیں، ہماری سوچ اکثر بڑے اداروں، معروف کمپنیوں اور سٹاک ایکسچینج تک محدود رہتی ہے۔ لیکن ان دیکھے پردوں کے پیچھے کچھ ایسی خاندانی قوتیں موجود ہیں جو نہ صرف مارکیٹس کو کنٹرول کرتی ہیں بلکہ عالمی رائے عامہ، تعلیمی شعور اور پالیسی سازی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان خاندانوں میں راتھشائلڈ اور واربرگ خاندان سر فہرست ہیں، جن کے زیر اثر ایسے ادارے اور نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں جن کے نام ہم روز سنتے ہیں، مگر ان کے پس منظر سے ناواقف ہیں۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ جال ہے جس میں سرمائے، علم، اور ابلاغ کو ایک ہی قوت کے تحت رکھا گیا ہے۔ ​یہ خاندان براہِ راست اور بالواسطہ طریقوں سے عالمی معیشت پر اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے ہیں۔

​انویسٹمنٹ کنٹرول کے ذریعے
BlackRock، Vanguard Group، اور State Street جیسے بڑے سرمایہ کاری ادارے، جو مجموعی طور پر $10 ٹریلین سے زیادہ کے اثاثوں کا انتظام کرتے ہیں، دنیا کی تقریباً تمام بڑی کمپنیوں (Apple، Microsoft، Amazon، Pfizer، Coca-Cola) میں بڑے شیئر ہولڈرز ہیں۔ ان اداروں کی ملکیت یا "beneficial ownership" کا ڈھانچہ پیچیدہ اور اکثر خفیہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، Vanguard کی ملکیت ایک "ٹرسٹ اسٹرکچر" کے ذریعے چھپائی گئی ہے، جہاں مالیاتی خاندانوں کا اثر براہِ راست نہ ہونے کے باوجود ان کے گہرے روابط اور اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ڈالر اور سونے پر اثر
1800ء کی دہائی سے راتھشائلڈ خاندان نے عالمی سونے کے معیار (London Gold Fix) کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آج بھی ڈالر کی قدر کو کنٹرول کرنے والے اداروں جیسے IMF، World Bank، اور Federal Reserve میں ان خاندانوں کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ یہ ادارے عالمی معیشت کی نبض تھامے ہوئے ہیں اور ان کے فیصلوں پر ان خاندانوں کے نمائندوں کی چھاپ واضح نظر آتی ہے۔

مالیاتی اداروں کے ذریعے دنیا کو قرض دینا
​IMF اور World Bank جیسے ادارے ترقی پذیر ممالک کو قرض دیتے ہیں لیکن ان کے ساتھ "Structural Adjustment Programs" کی شرائط مسلط کرتے ہیں۔ ان شرائط میں اکثر نجکاری، سرکاری سبسڈی کا خاتمہ، اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ملکی منڈیوں کو کھولنا شامل ہوتا ہے۔ ان اداروں میں فیصلہ سازی پر امریکہ کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے اور امریکہ میں Federal Reserve کے پس پردہ واربرگ خاندان کا تاریخی کردار رہا ہے۔ یوں، قرض کی صورت میں مالیاتی امداد کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی معاشی پالیسیوں کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔

​ میڈیا اور تعلیم پر گرفت،فہم و ادراک کی تشکیل
​مالیاتی خاندانوں نے صرف معیشت ہی نہیں، بلکہ رائے عامہ کی تشکیل کو بھی اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ Bloomberg، Reuters، The Economist، اور Financial Times جیسے بڑے میڈیا ہاؤسز میں یا تو ان خاندانوں کی براہِ راست شراکت ہے یا ان کے مشیران کا گہرا اثر موجود ہے۔ مثال کے طور پر، The Economist کے ایڈیٹوریل بورڈ میں ماضی میں راتھشائلڈ خاندان کا اثر ثابت شدہ ہے۔ یہ ادارے خبروں اور معلومات کی ترسیل کے ذریعے رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت دیتے ہیں۔

​خبروں کی زبان اور زاویہ
اگر کوئی ترقی پذیر ملک مغربی مالیاتی ایجنڈے سے ہٹ کر اپنی پالیسیاں بناتا ہے تو یہی میڈیا اسے "پاپولسٹ، کرپٹ یا آمر" جیسے القابات سے نوازتا ہے۔ اس کے برعکس، جو حکومتیں ان مالیاتی اداروں کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتی ہیں، انہیں "اصلاح پسند، معتدل اور جمہوری" قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح خبروں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں ایک مخصوص تصویر بنائی جاتی ہے جو ان طاقتور خاندانوں کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔

جامعات: ذہن سازی کے مراکز
​Yale، Harvard، Oxford، اور Cambridge جیسی دنیا کی بہترین جامعات وہ مراکز ہیں جہاں عالمی ماہرین معاشیات، بینکار اور پالیسی ساز تیار ہوتے ہیں۔ ان اداروں میں ہونے والی تحقیق اور ریسرچ پروگرامز کو اکثر انہی خاندانوں کی فاؤنڈیشنز سے فنڈنگ ملتی ہے۔ یہ تھنک ٹینکس جیسے Council on Foreign Relations (CFR) اور Chatham House براہِ راست عالمی پالیسی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے بانی یا فنڈنگ ذرائع بھی انہی سرمایہ دار خاندانوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ یوں، علم اور فکری رہنمائی کے ذریعے ایک ایسی سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے جو ان مالیاتی قوتوں کے مقاصد کو پورا کرتی ہے

ایک نظر نہ آنے والا جال 
​یہ صرف مالیاتی اداروں یا میڈیا کی طاقت کا معاملہ نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ چند خاندانوں نے سرمائے، علم اور ابلاغ کے تمام اہم ذرائع پر ایسی گرفت قائم کر رکھی ہے کہ دنیا کے بیشتر لوگ ان کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو اپنی مرضی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظر نہ آنے والا جال ہے جہاں مارکیٹس کو کنٹرول کرنے سے زیادہ خطرناک کام انسانوں کے شعور کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہی آج کے عالمی مالیاتی نیٹ ورکس کی اصل حکمت عملی ہے۔ ​یہ ایک ایسا پیچیدہ منظر نامہ ہے جہاں ہر عمل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، اور بظاہر آزاد نظر آنے والے ادارے درحقیقت ایک ہی مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ہماری دنیا آزادانہ فیصلوں پر چل رہی ہے، یا یہ ایک طے شدہ ایجنڈے کا حصہ ہے؟

متعلقہ مضامین

  • حارث رؤف کا ’فارمنگ اورا‘ کی طرز پر جشن موضوع بحث بن گیا، یہ کہانی کیا ہے؟
  • تمنا بھاٹیا کا ویرات کوہلی اور عبدالرزاق سے منسوب افواہوں پر ردعمل
  • تمنا بھاٹیا نے کوہلی اور عبدالرزاق سے تعلقات کی خبروں پر خاموشی توڑ دی
  • اسرائیل نے 22 ہزار امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا
  • غزہ میں صرف 36 امدادی ٹرک داخل، بچوں میں قحط شدت اختیار کر گیا
  • اخبارات اور سوشل میڈیا
  • اکبر ایس بابر کا بیرسٹر گوہر کی آسٹریلیا کے ہائی کمشنر سے ملاقات پر خط، غلطی تسلیم کرنے کا مطالبہ
  • عالمی مالیاتی خاندانوں کا بازار، میڈیا اور جامعات پر کنٹرول
  • ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن ایک ہتھیار بن چکا ہے: بلاول
  • انسٹاگرام نے صارفین کو بڑی سہولت سے محروم کردیا