تعلقات نچلی سطح پر، بنگلہ دیش اور بھارت کے تجارت اور کھیل سے متعلق سخت فیصلے
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مسلسل خرابی دیکھی جارہی ہے اور دونوں نے نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کردی ہیں، جس کے سبب دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر کاروبار متاثر ہوگا بلکہ بھارتی میڈیا کے مطابق بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) رواں برس اگست میں بنگلہ دیش کا شیڈول دورہ کرنے کے حوالے سے بھی غور کررہی ہے۔
گزشتہ ماہ بنگلہ دیش نے بھارت سے سوتی دھاگے کی زمینی راستے سے درآمد محدود کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ مقامی صنعتوں کو غیر ملکی سستی مصنوعات کے اثرات سے تحفظ دیا جا سکے۔
بنگلہ دیش نے ایک ایسے وقت میں یہ فیصلہ کیا جب انڈیا نے اچانک بنگلہ دیش کو فراہم کردہ وہ سہولت ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت بنگلہ دیشی مصنوعات انڈیا کی بندرگاہوں اور ایئر پورٹس کے راستے بیرون ملک برآمد کی جاتی تھیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے اقدامات عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس کے حالیہ دورہ چین کے دوران کیے گئے تبصروں کا ردعمل ہیں۔
اس وقت ہندوستانی ٹیکسٹائل کی صنعتیں بنگلہ دیشی ملبوسات کی درآمدات پر روک لگانے کے لیے زور دے رہی ہیں، اور سفارتی تعطل کے نتیجے میں بنگلہ دیشیوں کو کم ہندوستانی ویزے دیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈھاکہ ان ٹرانزٹ معاہدوں کا جائزہ لے رہا ہے جو موجودہ حکومت نے بھارت کو دیے۔
ادھر ایک طویل وقفے کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کردیے ہیں، جس سے علاقائی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے وقت ڈھاکہ اور اسلام آباد میں دوستی پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے، چاہے بھارت نے باضابطہ طور پر کسی قسم کے خدشات کا اظہار نہ کیا ہو۔
دوسری طرف بھارتی میڈیا کے مطابق جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے بھارتی کرکٹ بورڈ رواں برس اگست میں بنگلہ دیش کا شیڈول دورہ کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
ڈھاکہ اور چٹگرام میں 3 ون ڈے اور 3 ٹی20 میچز کی سیریز اب بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین کشیدہ تعلقات سمیت خطے میں بھارت اور پاکستان کے مابین جنگی صورتحال سے پیدا ہونے والے وسیع تر علاقائی خدشات کے درمیان خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی کرکٹ ٹیم مذکورہ دورہ آئی سی سی کے فیوچر ٹورز پروگرام کا حصہ تھا، لیکن کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے، موجودہ منظر نامے کو دیکھتے ہوئے، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہندوستانی ٹیم بنگلہ دیش کا سفر کرے گی۔
تناؤ کا ایک بڑا ذریعہ مبینہ طور پر ریٹائرڈ بنگلہ دیشی میجر جنرل اے ایل ایم فضل الرحمان کی ایک حالیہ فیس بک پوسٹ بھی بتائی جاتی ہے، جس میں انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو بنگلہ دیش کو شمال مشرقی بھارت کی 7 ریاستوں پر قبضہ کرلینا چاہیے، اس ضمن میں انہوں نے چین کے ساتھ مشترکہ فوجی نظام پر بات چیت پر زور دیا ہے۔
تاہم، بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ (بی سی بی) کے ڈائریکٹر نظم العابدین فہیم نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں تک وہ جانتے ہیں، سب کچھ شیڈول کے مطابق ہے۔ ’بی سی سی آئی کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ بھارت منصوبہ بندی کے مطابق آئے گا۔‘
اس وقت 2009 کے بی ڈی آر بغاوت پر قومی آزاد تحقیقاتی کمیشن کے چیئرمین اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل فضل الرحمان کے ریمارکس نے مبینہ طور پر سفارتی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے، جس سے بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورے سے وابستہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے فضل الرحمان کے تبصروں سے خود کو الگ کرتے ہوئے ایک رسمی بیان میں واضح کیا ہے کہ ریٹائرڈ میجر جنرل اے ایل ایم فضل الرحمان کے خیالات مکمل طور پر ذاتی ہیں اور یہ حکومت بنگلہ دیش کی پالیسیوں یا پوزیشن کی عکاسی نہیں کرتے۔
بنگلہ دیشی وزارت خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ بنگلہ دیش پرامن بقائے باہمی، باہمی احترام اور علاقائی استحکام کے لیے پرعزم ہے۔
پھر بھی، تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ دورے میں بی سی سی آئی کی گھٹتی ہوئی دلچسپی فضل الرحمان کے متنازعہ ریمارکس اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ جارحانہ سفارتی انداز سے ہندوستان کی وسیع تر تبدیلی کی مرہون منت ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کا تختہ الٹنے کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں دراڑ آگئی ہے۔ شیخ حسینہ واجد اس وقت بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش میں انسانیت کے خلاف جرائم، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے بھارت سے شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ہندوستان نے اس کا سرکاری سطح پر کوئی جواب نہیں دیا۔
بھارت نے بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت پر مبینہ حملوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہندو رہنما کا حالیہ قتل عبوری حکومت کے تحت منظم ظلم و ستم کے نمونے کی عکاسی کرتا ہے۔
دوسری جانب بنگلہ دیش اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے اور ایسے واقعات کو سیاسی محرکات یا عام جرائم قرار دیتا ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فضل الرحمان کے بنگلہ دیش کے بنگلہ دیشی بھارت اور کے مطابق کے ساتھ
پڑھیں:
بلاول بھٹو نے فیلڈ مارشل کی ٹرمپ سے ملاقات کو پاک امریکا تعلقات میں مثبت پیشرفت قرار دے دیا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کو پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مثبت پیشرفت قرار دے دیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہورہی جب ٹرمپ نے جنگ بندی میں ثالثی کا کردارادا کیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج فیلڈ مارشل سید عاصم منیر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دوپہر کے کھانے پر ملاقات کریں گے، یہ ملاقات پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مثبت پیشرفت ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہورہی ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے، حالیہ 5 روزہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کی۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت نے بدقسمتی سے مستقل امن کوششوں اور امریکی سفارت کاری کو مسترد کیا۔
Today, Pakistan’s Chief of Army Staff, Field Marshal Asim Munir, will meet with @realDonaldTrump over lunch, a positive step in Pakistan US relations. Especially given the president’s role in mediating a ceasefire.
Following Pakistan’s decisive victory in the recent five-day…
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) June 18, 2025
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان نہ توتصادم کاخواہاں ہے اور نہ ہی مذاکرات کا طلب گار، ہم تسلیم کرتے ہیں امن دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے تنازعات کا کوئی عسکری حل نہیں، بھارت کی آبی وسائل کو ہتھیار بنانے کی پالیسی اور کشمیر میں جبر ناقابل قبول ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت کا دہشت گردی کو سیاسی رنگ دینا بھی ناقابل برداشت طرز عمل ہے، آگے کا راستہ دیانت دارانہ سفارت کاری سے ممکن ہے، انکار اور تاخیر سے نہیں۔
مزیدپڑھیں:ایران سے 800 چینی شہریوں کومحفوظ مقام پر منتقل کردیا، چین