UrduPoint:
2025-08-02@16:30:49 GMT

حسینہ کی معزولی کے ایک سال بعد بھی بنگلہ دیش منقسم کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT

حسینہ کی معزولی کے ایک سال بعد بھی بنگلہ دیش منقسم کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) بنگلہ دیش میں سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جلاوطنی کے بعد عبوری حکومت، انتخابی غیر یقینی، انسانی حقوق اور اسلام پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے سے متعلق تحفظات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔

اگست 2024 میں بنگلہ دیش کی طویل عرصے سے برسر اقتدار وزیرِاعظم شیخ حسینہ نے حکومت مخالف پر تشدد احتجاج کے بعد استعفیٰ دیا اور بھارت چلی گئیں۔

ان مظاہروں کی ابتدا سرکاری ملازمتوں میں متنازع کوٹہ نظام کے خلاف ہوئی تھی، مگر یہ وسیع تر عوامی تحریک میں بدل گئے۔ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے رہنما یا تو گرفتار ہوئے یا روپوش ہوگئے، جبکہ اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔

(جاری ہے)

بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا اور دیگر رہنما، جو حسینہ دور میں بدعنوانی اور تشدد جیسے الزامات میں قید تھے، اب آزاد ہیں۔

پارٹی رہنما عبدالسلام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیاسی آزادی بحال ہوئی ہے مگر عام عوام کے لیے حالات اب بھی غیر یقینی ہیں۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں گارمنٹ ورکر امبیہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ طلبہ کی تحریک نے امید پیدا کی، مگر بدامنی اور سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی اب بھی جاری ہے۔

عبوری حکومت کی قیادت نوبل انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں، جنہوں نے ابتدائی طور پر اپریل 2026 میں انتخابات کا وعدہ کیا، لیکن بی این پی اور اتحادی جماعتیں فروری میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

انسانی حقوق کے محاذ پر بہتری کی امیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ اگرچہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم میں کمی آئی ہے مگر اب بھی سیاسی مخالفین کو بلاجواز گرفتار کیا جا رہا ہے اور عدالتی و صحافتی اصلاحات سست روی کا شکار ہیں۔

ایک نئی پیش رفت میں محمد یونس کی حکومت نے سب سے بڑی اسلام پسند جماعت پر سے پابندی ہٹا لی ہے، جس کے بعد ''حفاظتِ اسلام‘‘ جیسی تنظیموں کی عوامی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔

ان گروہوں نے خواتین کے مساوی وراثتی حقوق، تعدد ازدواج پر پابندی اور جنسی کارکنوں کی قانونی حیثیت جیسے مجوزہ اصلاحات کے خلاف ہزاروں افراد پر مشتمل مظاہرے کیے۔

سرکاری ترجمان فویز احمد نے ایچ آر ڈبلیو کی تنقید کو جزوی طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مکمل ختم نہیں ہوئیں لیکن ان کے بقول حسینہ دور کے مقابلے میں ان خلاف ورزیوں میں اب نمایاں کمی آئی ہے۔

ان کے مطابق بند کیے گئے میڈیا ادارے دوبارہ کھل چکے ہیں اور لوگ سرکاری نشریاتی اداروں پر بھی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، جو پہلے ممکن نہ تھا۔

دوسری جانب حسینہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت خود عوامی لیگ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔ عوامی لیگ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے جب تک کہ ایک خصوصی ٹریبیونل گزشتہ سال کے پرتشدد واقعات میں اس کی مبینہ ذمہ داری پر فیصلہ نہ سنا دے۔

سابق وزیرِ اطلاعات محمد عرفات نے الزام عائد کیا ہے کہ یونس اقتدار طول دینے کے لیے اسلام پسندوں اور نیشنل سٹیزنز پارٹی کو خوش کر رہے ہیں، جو عوامی لیگ پر پابندی کے سب سے بڑے حامی ہیں۔

اقتصادی لحاظ سے عبوری حکومت نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن میں نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام اور غیرملکی سرمایہ کاری کی کوششیں شامل ہیں۔

سب سے نمایاں پیش رفت امریکہ سے حاصل کردہ رعایتی 20 فیصد درآمدی ٹیرف ہے، جو سات اگست سے نافذ العمل ہوگا اور بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری کو خطے کے دیگر ممالک کے برابر مقابلے کی سہولت دے گا۔

مجموعی طور پر، حسینہ کی رخصتی کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی آزادی کا تاثر ضرور پیدا ہوا ہے، مگر انسانی حقوق، انتخابی شفافیت اور مذہبی شدت پسندی جیسے چیلنجز اب بھی حل طلب ہیں۔

عرفات اسلام، شکور رحیم

ادارت: عرفان آفتاب

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عبوری حکومت بنگلہ دیش عوامی لیگ حسینہ کی کے بعد اب بھی

پڑھیں:

دکھ اسلام آباد والوں کو سنانا چاہتے ہیں۔ ہمیں کلاشنکوف نہیں، قلم اور کتاب دو، مولانا ہدایت الرحمان

امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمان نے کہا ہے کہ اپنا دکھ اسلام آباد والوں کو سنانا چاہتے ہیں۔ ہمیں کلاشنکوف نہیں، میڈیسن دو، قلم کتاب دو، ہمارے پاس نہ اسپتال ہیں نہ جامعات ہیں، نہ اسکول ہیں نہ موٹر وے ہیں۔

لاہور میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم پُرامن احتجاج کرتے ہیں، پنجاب حکومت سے مذاکرات ہوتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ آپ اسلام آباد نہیں جا سکتے، جبکہ حکومت نے پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے کی اجازت دی ہے۔

امیر جماعت اسلامی بلوچستان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کی ماں کہتی ہے کہ اس کے بچے کو لاپتہ نہ کرو، حکومت ہماری جان، مال اور عزت کی حفاظت کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ چیک پوسٹ دیکھ کر بلوچستان کے لوگ آیت الکرسی پڑھتے ہیں، سوئی گیس جہاں سے نکلتی ہے وہاں کے لوگ لکڑی جلاتے ہیں۔ 

مولانا ہدایت الرحمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام آباد جا کر اپنے مسائل سے انہیں آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ سی پیک بلوچستان میں نہیں ہے یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایک انٹرنیشنل ائیرپورٹ ہے مگر وہاں ہمیں جانے کی اجازت نہیں، ہمارے پاس نہ اسپتال ہیں نہ جامعات ہیں، نہ اسکول ہیں نہ موٹر وے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ملک بھر میں سندھ حکومت کے عوامی فلاحی منصوبوں کی طرز پر اقدامات کی ضرورت ہے، آصفہ بھٹو
  • حکومت سے معاہدہ، جماعت اسلامی کا بلوچستان لانگ مارچ، دھرنا ختم
  • بنگلہ دیشی فوج نے میجر صادق کو حراست میں لے لیا، حکومتی مخالفین کی تربیت کا الزام
  • حق دو بلوچستان تحریک کے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو اسلام آباد مارچ کریں گے: حافظ نعیم
  • دکھ اسلام آباد والوں کو سنانا چاہتے ہیں۔ ہمیں کلاشنکوف نہیں، قلم اور کتاب دو، مولانا ہدایت الرحمان
  • زائرین پر پابندی، علامہ ناظر تقوی نے حل پیش کردیا، خصوصی انٹرویو
  •  نیپرا کی عوامی سماعت مکمل جون کیلئے بجلی سستی ہونے کا امکان 
  • ذوالفقار جونیئر کا سیاسی مستقبل
  • 5 اگست کا احتجاج حکومت کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا، بیرسٹر سیف