UrduPoint:
2025-11-03@00:34:28 GMT

حسینہ کی معزولی کے ایک سال بعد بھی بنگلہ دیش منقسم کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT

حسینہ کی معزولی کے ایک سال بعد بھی بنگلہ دیش منقسم کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) بنگلہ دیش میں سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جلاوطنی کے بعد عبوری حکومت، انتخابی غیر یقینی، انسانی حقوق اور اسلام پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے سے متعلق تحفظات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔

اگست 2024 میں بنگلہ دیش کی طویل عرصے سے برسر اقتدار وزیرِاعظم شیخ حسینہ نے حکومت مخالف پر تشدد احتجاج کے بعد استعفیٰ دیا اور بھارت چلی گئیں۔

ان مظاہروں کی ابتدا سرکاری ملازمتوں میں متنازع کوٹہ نظام کے خلاف ہوئی تھی، مگر یہ وسیع تر عوامی تحریک میں بدل گئے۔ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے رہنما یا تو گرفتار ہوئے یا روپوش ہوگئے، جبکہ اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔

(جاری ہے)

بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا اور دیگر رہنما، جو حسینہ دور میں بدعنوانی اور تشدد جیسے الزامات میں قید تھے، اب آزاد ہیں۔

پارٹی رہنما عبدالسلام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیاسی آزادی بحال ہوئی ہے مگر عام عوام کے لیے حالات اب بھی غیر یقینی ہیں۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں گارمنٹ ورکر امبیہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ طلبہ کی تحریک نے امید پیدا کی، مگر بدامنی اور سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی اب بھی جاری ہے۔

عبوری حکومت کی قیادت نوبل انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں، جنہوں نے ابتدائی طور پر اپریل 2026 میں انتخابات کا وعدہ کیا، لیکن بی این پی اور اتحادی جماعتیں فروری میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

انسانی حقوق کے محاذ پر بہتری کی امیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ اگرچہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم میں کمی آئی ہے مگر اب بھی سیاسی مخالفین کو بلاجواز گرفتار کیا جا رہا ہے اور عدالتی و صحافتی اصلاحات سست روی کا شکار ہیں۔

ایک نئی پیش رفت میں محمد یونس کی حکومت نے سب سے بڑی اسلام پسند جماعت پر سے پابندی ہٹا لی ہے، جس کے بعد ''حفاظتِ اسلام‘‘ جیسی تنظیموں کی عوامی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔

ان گروہوں نے خواتین کے مساوی وراثتی حقوق، تعدد ازدواج پر پابندی اور جنسی کارکنوں کی قانونی حیثیت جیسے مجوزہ اصلاحات کے خلاف ہزاروں افراد پر مشتمل مظاہرے کیے۔

سرکاری ترجمان فویز احمد نے ایچ آر ڈبلیو کی تنقید کو جزوی طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مکمل ختم نہیں ہوئیں لیکن ان کے بقول حسینہ دور کے مقابلے میں ان خلاف ورزیوں میں اب نمایاں کمی آئی ہے۔

ان کے مطابق بند کیے گئے میڈیا ادارے دوبارہ کھل چکے ہیں اور لوگ سرکاری نشریاتی اداروں پر بھی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، جو پہلے ممکن نہ تھا۔

دوسری جانب حسینہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت خود عوامی لیگ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔ عوامی لیگ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے جب تک کہ ایک خصوصی ٹریبیونل گزشتہ سال کے پرتشدد واقعات میں اس کی مبینہ ذمہ داری پر فیصلہ نہ سنا دے۔

سابق وزیرِ اطلاعات محمد عرفات نے الزام عائد کیا ہے کہ یونس اقتدار طول دینے کے لیے اسلام پسندوں اور نیشنل سٹیزنز پارٹی کو خوش کر رہے ہیں، جو عوامی لیگ پر پابندی کے سب سے بڑے حامی ہیں۔

اقتصادی لحاظ سے عبوری حکومت نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن میں نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام اور غیرملکی سرمایہ کاری کی کوششیں شامل ہیں۔

سب سے نمایاں پیش رفت امریکہ سے حاصل کردہ رعایتی 20 فیصد درآمدی ٹیرف ہے، جو سات اگست سے نافذ العمل ہوگا اور بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری کو خطے کے دیگر ممالک کے برابر مقابلے کی سہولت دے گا۔

مجموعی طور پر، حسینہ کی رخصتی کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی آزادی کا تاثر ضرور پیدا ہوا ہے، مگر انسانی حقوق، انتخابی شفافیت اور مذہبی شدت پسندی جیسے چیلنجز اب بھی حل طلب ہیں۔

عرفات اسلام، شکور رحیم

ادارت: عرفان آفتاب

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عبوری حکومت بنگلہ دیش عوامی لیگ حسینہ کی کے بعد اب بھی

پڑھیں:

تناؤ میں کمی کیلئے پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری

کراچی:

پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت میں کمی کیلئے پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھانا ہوگا۔

فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ملک میں سیاسی تناؤ کی وجہ سے پاکستان کو حاصل ہونے والی حالیہ بین الاقوامی کامیابیوں کا کوئی فائدہ نہیں مل سکا۔ سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس میں کم ازکم بات چیت کا راستہ کھلے، شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری اور دیگر رہنماؤں سے ملاقاتوں میں یہی نقطہ نظر انکے سامنے رکھا اور وہ بھی اس بات کے حامی ہیں کہ سیاسی ماحول بہتر ہونا چاہئے۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ہماری اگلے ہفتے مسلم لیگ (ن) کے سینئر وزرا اور مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات ہوگی۔ ہم انکے سامنے بھی یہی مدعا رکھیں گے کہ پاکستان میں سیاسی ماحول کو بہتر رکھنے کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ اس کیلئے اقدامات ہوں گے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ سیاسی قیدیوں کو ریلیف دے کر ماحول میں بہتری لائی جاسکتی ہے، شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں بغیر وجہ کے نہیں ہورہیں۔

انہوں نے کہا کہ اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر چیمہ، میاں محمود الرشید سمیت جتنے بھی سیاسی کارکن اور خواتین جیلوں میں قید ہیں ضمانت ملنا انکا حق ہے۔ جب یہ سب معاملات ہوں گے تو اس سے سیاسی فضا بہتر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی کو ممکن بنانا ہمارا بنیادی کام ہے۔ فی الحال میں (فواد چوہدری)، عمران اسماعیل اور محمود مولوی مل رہے ہیں اور ہماری اگلی ملاقاتوں میں پی ٹی آئی کی سینئر لیڈر شپ بھی نظر آئے گی اور آپ دیکھیں گے کہ سیاسی ماحول بہتری کی طرف جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جمعیت علماء اسلام کے تحت عوامی حقوق کیلئے لانگ مارچ
  • شیخ حسینہ واجد بغاوت کیس میں مفرور قرار،اخباروں میں نوٹس
  • کشمیر:بے اختیار عوامی حکومت کے ایک سال
  • پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ایک مشکل کا سامنا
  • تناؤ میں کمی کیلئے پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
  •  حکومت یا عسکری قیادت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی چیئرمین
  • نیدرلینڈ پارلیمانی انتخابات، اسلام مخالف جماعت کو شکست، روب جیٹن ممکنہ وزیر اعظم
  • ساحر لودھی کی اہلیہ عوامی سطح پر نظر کیوں نہیں آتیں؟