کسی مقدمے میں ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ کسی مقدمے میں محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
شناختی کارڈ اور ڈومیسائل پر رہائشی ایڈریس میں تضادات پر پرائمری اسکول ٹیچر کے تقرر سے انخراف کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی ریگولر بینچ کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن آفیسر چارسدہ بنام سونیا بیگم کیس میں اصول طے کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں اصول طے کر چکی، خیبرپختوا قانون کے تحت رہائشی ثبوت ڈومیسائل سے ثابت ہوتا ہے، آئی ڈی کارڈ سے نہیں۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ جب کسی قانونی نقطے پر فیصلہ ہو جائے تو اسے دوبارہ نہیں سنا جاسکتا۔ نظرثانی آرٹیکل 188 اور رولز کے تحت ہی ہو سکتی ہے۔ نظرثانی کے لیے فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی لازم ہے۔ محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ نظرثانی کیس میں فریق پہلے سے مسترد ہوچکا نکتہ دوبارہ نہیں اٹھا سکتا۔ نظرثانی کی بنیاد یہ بھی نہیں بن سکتی کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظربھی شامل ہوسکتا تھا۔
فیصلے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ اور سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں۔ ان زیر التواکیسز میں بڑا حصہ نظرثانی درخواستوں کا بھی ہے۔ من گھڑت قسم کی نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی نظرثانی 13 دن زائد المیعاد ہے۔ نظرثانی میرٹس پر اور زائد المیعاد ہونے پر خارج کی جاتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جسٹس محمد علی مظہر کا اضافی نوٹ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 29 فروری 2022 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی دائر کی گئی تھی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نظرثانی کی بنیاد سپریم کورٹ فیصلے میں
پڑھیں:
سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دے دیا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کردیں۔
عدالت نے تین، دو کے تناسب سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں، جب تک صدر مملکت سینارٹی طے نہیں کرتے قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے۔
نجی چینل کے مطابق جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
وقفے کے بعد سماعت کے آغاز میں آئینی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستوں کو مسترد کردیا۔
عدالت نے تین، دو کے تناسب سے سنائے گئے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ جب تک صدر مملکت سینارٹی طے نہیں کرتے، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے، عدالت نے ججز کی سینارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس ریمانڈ کردیا۔
جمعرات کو سماعت کے آغاز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں سیاسی تبادلے کیے گئے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور سینئر قانون دان منیر اے ملک نے جواب الجواب میں دلائل دیے، تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا تھا کہ ججز ٹرانسفر کے خلاف کیس کا مختصر فیصلہ آج سنائیں گے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے دیگر ہائی کورٹس سے ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیے جانے کے بعد عدالت عالیہ کے 5 ججز نے سنیارٹی کے معاملے پر رواں سال 20 فروری کو سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر 49 صفحات پر مشتمل درخواست میں استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ میں ججز کے عہدوں کو کم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے گزشتہ فیصلوں پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، جس میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی شامل ہے جس میں تقرریوں سے تبادلوں کو الگ کیا گیا تھا۔
نجی چینل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔
یہ فیصلہ ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق آئینی دفعات اور عدالتی مثالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب وزارت قانون و انصاف نے یکم فروری کو ایک نوٹی فکیشن جاری کیا جس میں 3 موجودہ ججز جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا ان کے متعلقہ ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا تھا۔