’محفوظ پنجاب ایکٹ 2025‘ کیا ہے اور کن مقاصد کے لیے استعمال ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر محکمہ داخلہ کا تاریخ ساز اقدام سامنے آیا ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے “محفوظ پنجاب ایکٹ 2025” کا مسودہ تیار کر لیا گیا جسے منظوی کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کو بھجوایا جائے گا۔
محفوظ پنجاب ایکٹ امن و امان کے قیام کے لیے شرپسند عناصر کے گرد گھیرا تنگ اور صوبائی، ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹیوں کو اجتماعی فیصلہ سازی میں مدد دیگا۔ “محفوظ پنجاب ایکٹ” میں قیام امن کیلئے ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹیوں کو اضافی اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔
ایکٹ کے تحت ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹیوں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) 1960 کے متبادل اختیارات تفویض ہوں گے۔ امن و امان کیلئے خطرہ سمجھے جانے والے افراد کو 90 روز کیلئے حفاظتی تحویل میں لیا جاسکے گا۔
امن و امان کیلئے خطرہ بننے والوں کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کیے جاسکیں گے اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کے نام نو فلائی لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی جائے گی۔ امن و امان کیلئے خطرہ بننے والوں کی غیر منقولہ جائیداد ضبط کی جاسکے گی اور ایسے افراد کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کی سفارش وفاقی حکومت کو بھجوائی جاسکے گی۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز کی انڈیا سے واپس آنے والے مریضوں کے پنجاب میں مفت علاج کی ہدایت
ضلعی انٹیلیجنس کمیٹیوں کو کالعدم تنظیموں کے ممبران کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ ایکٹ کے مطابق انٹیلیجنس کمیٹیوں کے احکامات کی خلاف ورزی پر 3 سے 5 سال قید اور 5 سے 10 لاکھ تک جرمانہ ہوگا۔
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے بتایا کہ کسی شخص کی 3 ماہ سے زیادہ حفاظتی تحویل کی اجازت “صوبائی ریویو بورڈ” دیگا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ صوبائی ریویو بورڈ تشکیل دیں گے جس کے سربراہ اور دو ممبران ہائیکورٹ کے موجودہ یا سابقہ ججز ہوں گے۔
ایکٹ میں ضلع کی سطح تک انٹیلیجنس، کوآرڈینیشن اور عوامی رابطہ کمیٹیوں کی تشکیل کا خاکہ موجود ہے۔ سیکرٹری داخلہ پنجاب صوبائی انٹیلیجنس کمیٹی کے سربراہ ہوں گے جبکہ کمیٹی ممبران میں آئی جی پولیس، سپیشل سیکرٹری داخلہ، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، ایڈیشنل آئی جی CTD اور وفاقی حساس اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں 11 لاکھ آؤٹ آف اسکول بچوں کی انرولمنٹ کا منفرد ریکارڈ
اسی طرح ڈویژنل انٹیلیجنس کمیٹی کے سربراہ ڈویژنل کمشنر جبکہ ممبران میں سی سی پی او/ آر پی او، ایس پی سپیشل برانچ، ڈویژنل آفیسر CTD اور وفاقی حساس اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔ ایکٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹیوں کے سربراہ ڈپٹی کمشنر جبکہ ممبران میں ڈی پی او، ڈی ایس پی سپیشل برانچ، ڈسٹرکٹ آفیسر CTD اور وفاقی حساس اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔
انٹیلیجنس کمیٹیاں ضلعی امن کمیٹیوں کی تشکیل کریں گی۔ امن و امان کے قیام کیلئے بروقت فیصلے اور عملی اقدامات اٹھانا انٹیلیجنس کمیٹیوں کی ذمہ داری ہوگی۔ صوبائی امن اور عوامی تحفظ کیلئے خطرہ پیدا کرنے والے عناصر کیخلاف ایکشن لینا انٹیلیجنس کمیٹیوں کی ذمہ داری ہے۔
انٹیلیجنس کمیٹیاں نفرت انگیز مواد قبضے میں لے سکیں گی۔ ایکٹ کے تحت دہشت گردی اور سنگین جرائم کے کیسز میں ’’فیس لیس ٹربیونلز‘‘ قائم ہوں گے۔ ان فیس لیس کورٹس کے قیام کا مقصد پراسیکیوشن میں شامل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندگان، گواہان اور ٹربیونل کے ججز کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔
خصوصی ٹربیونلز کے سربراہ ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہونگے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ترجمان محکمہ داخلہ کا کہنا تھا کہ اس ایکٹ کا مقصد سیاسی جماعتوں کے خلاف نہیں ہوگا یہ دہشتگردوں اور شرپسند عناصر کے خلاف یہ قانون سازی کی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں: بے گھر افراد کے لیے پنجاب میں ہر روز مزید 300 گھر بننے لگے، ‘اپنی زمین اپنا گھر’ اسکیم کا اجرا
اپوزیشن کو اس بل پر کیا اعتراضات ہیں؟محفوظ پنجاب ایکٹ 2025″ کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھیچر کا کہنا ہے کہ اس بل کا اس وقت لانے کا ایک مقصد ہے کہ اپوزیشن کو مزید تنگ کیا جائے گا ،ہم پر پہلے ظلم ڈھانے کے لیے پہلے بھی وفاق اور پنجاب میں اسطرح کی قانون سازیاں کی گئی ہیں ،یہ قانون سازی شر دہشت گرد یا پسند عناصر کے خلاف کم بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ محفوظ پنجاب ایکٹ بھی اب اس لیے لایا جا رہا ہے کہ مزید سیاسی کارکنان اور سیاسی لیڈران کو ڈاریا جائے ،جب یہ بل اسمبلی کے اندر آئے ہم اس کے خلاف بھر ہور آواز بلند کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محفوظ پنجاب ایکٹ 2025 مریم نواز شریف ملک احمد خان بھیچ وزیراعلٰی پنجاب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: محفوظ پنجاب ایکٹ 2025 مریم نواز شریف محفوظ پنجاب ایکٹ 2025 محکمہ داخلہ کمیٹیوں کی کیلئے خطرہ اداروں کے کے سربراہ ایکٹ کے کے خلاف ہوں گے کے لیے
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔