اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مئی 2025ء) جرمنی میں تیئیس فروری کو ہوئے پارلیمانی الیکشن میں کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور باویریا میں اس کی ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کا سیاسی اتحاد سب سے بڑی پارلیمانی طاقت بن کر ابھرا تھا۔

اس الیکشن کے بعد نو منتخب ایوان میں تیسری سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے ساتھ مخلوط حکومتی مذاکرات کی کامیابی کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ قدامت پسندوں کے رہنما فریڈرش میرس آسانی سے نئے جرمن چانسلر منتخب کر لیے جائیں گے۔

تاہم 69 سالہ میرس منگل چھ مئی کو چانسلر بننے کے لیے پارلیمان سے مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جرمن ایوان زیریں یعنی بنڈس ٹاگ میں ہوئی اس خفیہ رائے دہی میں انہیں 310 ووٹ ملے، جو کہ قطعی اکثریت سے چھ ووٹ کم تھے۔

(جاری ہے)

اس کا مطلب ہے کہ کم از کم 18 حکومتی اراکین پارلیمان نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

میرس کی یہ ناکامی حتمی نہیں

اگرچہ فریڈرش میرس کی یہ ناکامی حتمی نہیں ہے تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ چانسلرشپ کا کوئی امیدوار پہلی ہی کوشش میں پارلیمانی ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہ کر سکا۔

میرس کے لیے یہ پیش رفت شرمندگی کا باعث بھی قرار دی جا رہی ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پر پائی جانے والی سیاسی بے یقینی کے اس دور میں جرمن معیشت کی بحالی کے دعویدار ہیں۔

جرمن ایوان زیریں کی اسپیکر جولیا کلؤکنر کے مطابق نو اراکین پارلیمان نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا جبکہ 307 نے میرس کے خلاف ووٹ دیا۔

میرس کی پارٹی نے کل پیر کے روز اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ میرس اکثریتی حمایت حاصل کر لیں گے۔

کلؤکنر نے اجلاس ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی سیاسی گروپ اب یہ طے کریں گے کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔ یہ تصدیق کر دی گئی ہے کہ آج بروز منگل اس ووٹنگ کا دوسر مرحلہ عمل میں نہیں آئے گا۔

اس خبر کے بعد جرمن اسٹاک مارکیٹ میں مندی دیکھی جا رہی ہے۔ فروری کے انتخابات کے بعد میرس نے دفاع اور بنیادی ڈھانچے پر مشتمل بڑے قرضے کے منصوبے کی منظوری حاصل کی تھی، جس پر ان کی اپنی پارٹی کے کچھ اراکین تنقید بھی کر رہے تھے۔

چودہ دن میں چانسلر کا انتخاب ضروری

جرمن تھنک ٹینک ING کے چیف اکانومسٹ کارسٹن برزیسکی نے اس پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ حکومت کو اپنے ہی حمایتیوں کو قائل کرنا ہے کہ وہ نتائج دے سکتی ہے، ''یہ ناکامی ظاہر کرتی ہے کہ سی ڈی یو کے اندر بھی مالیاتی پالیسی میں یوٹرن پر اتفاق نہیں ہو سکا۔‘‘

جرمن پارلیمان کے پاس میرس یا کسی اور کو چانسلر منتخب کرنے کے لیے چودہ دن باقی ہیں۔

ڈسلڈورف انسٹیٹیوٹ فار کمپیٹیشن اکنامکس (DICE) کے ژینس زیوڈیکم کا کہنا تھا، ''پہلی کوشش میں میرس کا ناکام ہونا معاشرے اور معیشت کے لیے تباہ کن اشارہ ہے۔‘‘

یونیورسٹی آف ہینوور کے سیاسی تجزیہ کار فیلپ کوئکرکے بقول، ''میرس کا پہلی ووٹنگ میں ناکام ہونا اس اتحاد کے مستقبل پر سیاہ سایہ ڈال رہا ہے۔ اگرچہ غالب امکان ہے کہ وہ دوسری ووٹنگ میں کامیاب ہو جائیں گے تاہم اس ناکامی سے جماعتوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچے گا اور پہلے سے موجود اختلافات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

انتھونی البانیز دوسری مدت کیلئے آسٹریلوی وزیرِاعظم منتخب،،وزیر اعظم پاکستان کی مبارکباد

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر اعظم شہباز شریف نے آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق اپنے ٹوئٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ دعاگو ہیں کہ آسٹریلیا کے عوام کی خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وہ وزیر اعظم انتھونی کے ساتھ مل کر دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزیدمستحکم بنانے اورامن،ترقی اور علاقائی تعاون کے اپنے مشترکہ عزم کے لئے مل کرکام کرنے کے خواہش مند ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے دوسری مدت کے لیے بھی انتخابی معرکہ مار لیا تھا، عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلیا میں ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر لیبر پارٹی نے تاریخی فتح حاصل کی تھی۔

لاہور، محلے والوں کے طعنوں سے تنگ والد نے ذہنی معذور بیٹی کو قتل کردیا

لیبر پارٹی کے انتھونی البانیز مسلسل دوسری بار تین سالہ مدت کے لیے منتخب ہوگئے جو 21 سالہ تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے انتخابی نتائج تسلیم کرتے ہوئے اپنی شکست کا اعتراف کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم انتخابی مہم میں اتنی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے جتنی درکار تھی۔

آسٹریلوی الیکشن کمیشن کے مطابق بائیں بازو کی حکمراں جماعت لیبر پارٹی نے 70 نشستیں حاصل کیں جب کہ قدامت پسند اپوزیشن اتحاد کو صرف 24 نشستیں ملیں۔

علاوہ ازیں 13 نشستوں پر آزاد اور چھوٹی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ کچھ نتائج کا انتظار ہے۔ حکمراں جماعت کی نشستوں کی تعداد 76 تک ہوسکتی ہے۔

 مریم نواز سیاسی مخالف ضرور ہیں لیکن بزدار سے کوئی موازنہ نہیں: شیر افضل مروت

البتہ اگر لیبر پارٹی دو یا زیادہ نشستیں کھو بیٹھتی ہے تو اسے اتحادی حکومت بنانا ہوگی۔آسٹریلیا میں آخری بار کوئی اتحادی حکومت 2010 میں بنی تھی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • فریڈرش میرس جرمنی کے نئے چانسلر منتخب، لیکن دوسرے راؤنڈ میں
  • پیپلز پارٹی کے وقار مہدی سندھ سے سینیٹر منتخب ہوگئے
  • جامعہ کراچی کے رجسٹرار ڈاکٹر وحید بلوچ کو عہدے سے ہٹادیا گیا
  • عدالتی فیصلہ، سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے چانسلر اکبر خان نے دوبارہ چارج سنبھال لیا
  • عمران خان نے مجوزہ معدنیات قانون پر ووٹنگ نہ کرنے کی ہدایت کی ہے، جنید اکبر
  • CPNEانتخابات , روزنامہ دنیا کے کاظم خان صدر،ڈیلی پاک کے غلام نبی چانڈیوسیکریٹری جنرل منتخب
  • سید علی رضوی ایک بار پھر ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے صدر منتخب
  • انتھونی البانیز دوسری مدت کے لیے آسٹریلوی وزیرِاعظم منتخب،،وزیر اعظم پاکستان کی مبارکباد
  • انتھونی البانیز دوسری مدت کیلئے آسٹریلوی وزیرِاعظم منتخب،،وزیر اعظم پاکستان کی مبارکباد