اسلام آباد:

ملک میں قدرتی گیس کے استعمال اور پیداوار سے متعلق اعدادوشمار سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اجلاس میں پیش کر دیے گئے۔

اجلاس میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جون 2024 تک پنجاب سے قدرتی گیس کی پیداوار 163 ایم ایم ایف سی ڈی رہی اور استعمال 976 ایم ایم ایف سی ڈی گیس رہی جبکہ استعمال میں سے 668 ایم ایم سی ایف ڈی گیس درآمدی آر ایل این جی سے رہی۔

جون 2024 تک خیبر پختونخوا سے گیس کی پیداوار 346 ایم ایم سی ایف ڈی رہی اور اسی عرصہ میں قدرتی گیس کا استعمال 208 ایم ایم ایف سی ڈی رہا جبکہ 3 ایم ایم ایف سی ڈی گیس کا استعمال آر ایل این جی سے رہا۔

سندھ میں گیس کی پیداوار 1609 ایم ایم سی ایف ڈی رہی اور استعمال 1115 ایم ایم ایف سی ڈی رہی، سندھ میں آر ایل این جی گیس کا استعمال 112 ایم ایم سی ایف ڈی رہا۔

بلوچستان میں گیس پیداوار کا مجموعی حصہ 492 ایم ایم ایف سی ڈی رہا جبکہ استعمال 334 ایم ایم ایف سی ڈی رہا۔ بلوچستان میں آر ایل این جی گیس کا استعمال 3 ایم ایم ایف سی ڈی رہا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایم ایم ایف سی ڈی رہا ایم ایم سی ایف ڈی گیس کا استعمال آر ایل این جی قدرتی گیس ڈی رہی

پڑھیں:

تعلقات نچلی سطح پر، بنگلہ دیش اور بھارت کے تجارت اور کھیل سے متعلق سخت فیصلے

بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مسلسل خرابی دیکھی جارہی ہے اور دونوں نے نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کردی ہیں، جس کے سبب دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر کاروبار متاثر ہوگا بلکہ بھارتی میڈیا کے مطابق بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) رواں برس اگست میں بنگلہ دیش کا شیڈول دورہ کرنے کے حوالے سے بھی غور کررہی ہے۔

گزشتہ ماہ بنگلہ دیش نے بھارت سے سوتی دھاگے کی زمینی راستے سے درآمد محدود کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ مقامی صنعتوں کو غیر ملکی سستی مصنوعات کے اثرات سے تحفظ دیا جا سکے۔

بنگلہ دیش نے ایک ایسے وقت میں یہ فیصلہ کیا جب انڈیا نے اچانک بنگلہ دیش کو فراہم کردہ وہ سہولت ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت بنگلہ دیشی مصنوعات انڈیا کی بندرگاہوں اور ایئر پورٹس کے راستے بیرون ملک برآمد کی جاتی تھیں۔

کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے اقدامات عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس کے حالیہ دورہ چین کے دوران کیے گئے تبصروں کا ردعمل ہیں۔

اس وقت ہندوستانی ٹیکسٹائل کی صنعتیں بنگلہ دیشی ملبوسات کی درآمدات پر روک لگانے کے لیے زور دے رہی ہیں، اور سفارتی تعطل کے نتیجے میں بنگلہ دیشیوں کو کم ہندوستانی ویزے دیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈھاکہ ان ٹرانزٹ معاہدوں کا جائزہ لے رہا ہے جو موجودہ حکومت نے بھارت کو دیے۔

ادھر ایک طویل وقفے کے بعد بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کردیے ہیں، جس سے علاقائی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے وقت ڈھاکہ اور اسلام آباد میں دوستی پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے، چاہے بھارت نے باضابطہ طور پر کسی قسم کے خدشات کا اظہار نہ کیا ہو۔

دوسری طرف بھارتی میڈیا کے مطابق جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے بھارتی کرکٹ بورڈ رواں برس اگست میں بنگلہ دیش کا شیڈول دورہ کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

ڈھاکہ اور چٹگرام میں 3 ون ڈے اور 3 ٹی20 میچز کی سیریز اب بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین کشیدہ تعلقات سمیت خطے میں بھارت اور پاکستان کے مابین جنگی صورتحال سے پیدا ہونے والے وسیع تر علاقائی خدشات کے درمیان خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی کرکٹ ٹیم مذکورہ دورہ آئی سی سی کے فیوچر ٹورز پروگرام کا حصہ تھا، لیکن کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے، موجودہ منظر نامے کو دیکھتے ہوئے، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہندوستانی ٹیم بنگلہ دیش کا سفر کرے گی۔

تناؤ کا ایک بڑا ذریعہ مبینہ طور پر ریٹائرڈ بنگلہ دیشی میجر جنرل اے ایل ایم فضل الرحمان کی ایک حالیہ فیس بک پوسٹ بھی بتائی جاتی ہے، جس میں انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو بنگلہ دیش کو شمال مشرقی بھارت کی 7 ریاستوں پر قبضہ کرلینا چاہیے، اس ضمن میں انہوں نے چین کے ساتھ مشترکہ فوجی نظام پر بات چیت پر زور دیا ہے۔

تاہم، بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ (بی سی بی) کے ڈائریکٹر نظم العابدین فہیم نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں تک وہ جانتے ہیں، سب کچھ شیڈول کے مطابق ہے۔ ’بی سی سی آئی کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ بھارت منصوبہ بندی کے مطابق آئے گا۔‘

اس وقت 2009 کے بی ڈی آر بغاوت پر قومی آزاد تحقیقاتی کمیشن کے چیئرمین اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل فضل الرحمان کے ریمارکس نے مبینہ طور پر سفارتی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے، جس سے بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورے سے وابستہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے فضل الرحمان کے تبصروں سے خود کو الگ کرتے ہوئے ایک رسمی بیان میں واضح کیا ہے کہ ریٹائرڈ میجر جنرل اے ایل ایم فضل الرحمان کے خیالات مکمل طور پر ذاتی ہیں اور یہ حکومت بنگلہ دیش کی پالیسیوں یا پوزیشن کی عکاسی نہیں کرتے۔

بنگلہ دیشی وزارت خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ بنگلہ دیش پرامن بقائے باہمی، باہمی احترام اور علاقائی استحکام کے لیے پرعزم ہے۔

پھر بھی، تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ دورے میں بی سی سی آئی کی گھٹتی ہوئی دلچسپی فضل الرحمان کے متنازعہ ریمارکس اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ جارحانہ سفارتی انداز سے ہندوستان کی وسیع تر تبدیلی کی مرہون منت ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کا تختہ الٹنے کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں دراڑ آگئی ہے۔ شیخ حسینہ واجد اس وقت بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش میں انسانیت کے خلاف جرائم، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے بھارت سے شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ہندوستان نے اس کا سرکاری سطح پر کوئی جواب نہیں دیا۔

بھارت نے بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت پر مبینہ حملوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہندو رہنما کا حالیہ قتل عبوری حکومت کے تحت منظم ظلم و ستم کے نمونے کی عکاسی کرتا ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے اور ایسے واقعات کو سیاسی محرکات یا عام جرائم قرار دیتا ہے۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نظرثانی اسکوپ سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا
  • تعلقات نچلی سطح پر، بنگلہ دیش اور بھارت کے تجارت اور کھیل سے متعلق سخت فیصلے
  • واٹس ایپ 3 مشہور فونز پر کام کرنا بند کردے گا
  •  آم کے باغات پر بیماریوں کا حملہ، پیداوار میں کمی کا خدشہ
  • پاک بھارت کشیدگی سے متعلق پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع
  • گورنر خیبرپختونخوا سے اکاؤنٹنٹ جنرل خیبر پختونخوا کی گورنر ہاوس میں ملاقات
  • ایران پر متوقع اسرائیلی حملہ: خام تیل کی قیمتوں میں بڑی کمی، عالمی پیداوار میں تیز رفتار اضافے کا اعلان
  • وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی تنخواہوں سے متعلق بڑا فیصلہ، آرڈیننس جاری
  • بانی پی ٹی آئی نے معدنیات بل سے متعلق اہم احکامات مجھے دیے ہیں: جنید اکبر