سماجی و معاشی مواقع میں فرق سے لوگوں کی اوسط عمر متاثر، ڈبلیو ایچ او
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 مئی 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہےکہ کمزور صحت کی بنیادی وجوہات عموماً معیاری تعلیم، رہائش، اور روزگار کے مواقع کی کمی جیسے عوامل سے جنم لیتی ہیں جن پر قابو پا کر اوسط عمر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
اچھی صحت کے سماجی عوامل کے بارے میں 'ڈبلیو ایچ او' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہاں لوگوں کو باسہولت رہائش، تعلیم کے بہتر مواقع اور اچھا روزگار میسر نہ آئے تو وہاں اوسط یا متوقع عمر کم ہوتی ہے اور یہ صورتحال امیر و غریب دونوں ممالک میں لوگوں کو یکساں طور سے متاثر کرتی ہے۔
Tweet URLجن ممالک میں متوقع عمر کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے وہاں کے لوگ دیگر کے مقابلے میں اوسطاً 33 برس زیادہ زندہ رہتے ہیں۔
(جاری ہے)
اس رپورٹ کے اجرا پر 'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ دنیا میں عدم مساوات عام ہے۔ لوگ جس جگہ پیدا ہوتے، پرورش پاتے، زندگی گزارتے اور کام کرتے ہیں اس کا ان کی صحت اور بہبود پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
ناموافق سماجی حالاتصحت کے حوالے سے عدم مساوات کا ناموافق سماجی حالات اور تفریق کی سطحوں سے قریبی تعلق ہوتا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ کسی فرد کی صحت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے اور اس کی آمدنی کتنی ہے۔ جو لوگ غریب علاقوں میں رہتے ہیں اور جن کی آمدنی کم ہوتی ہے انہیں طبی مسائل لاحق ہونے اور حسب ضرورت طبی سہولیات میسر آنے کے امکانات بھی کم رہ جاتے ہیں جس کا اثر ان کی متوقع عمر پر ہوتا ہے۔تفریق اور پسماندگی کا شکار لوگ شدید درجے کی عدم مساوات کا سامنا کرتے ہیں جن میں قدیمی مقامی لوگ بھی شامل ہیں جن کی اوسط عمر دیگر کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔
طبی اہداف کو خطرہ'ڈبلیو ایچ او' نے یہ رپورٹ شائع کرنے کا سلسلہ 2008 میں شروع کیا تھا جب صحت کے سماجی عوامل سے متعلق ادارے کے کمیشن نے اوسط عمر کے علاوہ بچپن میں اور زچگی کے دوران اموات کے حوالے سے فرق کو کم کرنے کے لیے 2040 تک کے اہداف طے کیے تھے۔
حالیہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ ڈیڑھ دہائی میں یہ اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
معلومات کی کمی کے باوجود اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ صحت کے حوالے سے عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ غریب ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں کے پانچ سال کی عمر سے قبل موت کے منہ میں جانے کا امکان امیر ممالک کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ ہوتا ہے۔اگرچہ 2000ء سے 2023ء کے درمیان زچگی کی اموات میں 40 فیصف تک کمی آئی ہے لیکن ایسی 94 فیصد اموات اب بھی کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں ہو رہی ہیں۔
مزید برآں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں امیر ترین اور غریب ترین لوگوں کے مابین فرق کو ختم یا کم کر کے تقریباً 20 لاکھ بچوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔
'ڈبلیو ایچ او' کی سفارشات'ڈبلیو ایچ او' نے معاشی عدم مساوات پر قابو پانے کے لیے اجتماعی اقدامات پر زور دیتے ہوئے سماجی ڈھانچے اور خدمات کی فراہمی پر سرمایہ کاری کے لیے کہا ہے۔
ادارے نے اس مقصد کے لیے دیگر اقدامات بھی تجویز کیے ہیں جن میں بنیادی تفریق، مسلح تنازعات، ہنگامی حالات اور جبری نقل مکانی جیسے عوامل پر قابو پانا بھی شامل ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او عدم مساوات ممالک میں اوسط عمر ہوتا ہے ہیں جن صحت کے کے لیے
پڑھیں:
ایچ آر سی پی نے وفاقی بجٹ کو غریب دشمن اور تشویشناک قرار دے دیا
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے وفاقی بجٹ 2025-2026 کو ملک کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے معاشی و سماجی حقوق کے لیے تشویشناک اور اسے غریب دشمن قرار دیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایچ آر سی پی نے وفاقی بجٹ کے حوالے سے پریس کانفرنس کی جس میں کہا کہ بجٹ سخت کفایت شعاری کے فریم ورک اور آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت مرتب کیا گیا ہے، جس میں ان لاکھوں شہریوں کے لیے کوئی حقیقی ریلیف شامل نہیں جو 2022 سے 2024 تک جاری رہنے والے مہنگائی کے بحران سے پہلے ہی بدحال ہو چکے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ اگرچہ تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں معمولی کمی کی گئی ہے، مگر یہ رعایت اتنی نہیں کہ گزشتہ برسوں میں ختم ہوتی ہوئی خریداری کی طاقت کو بحال کیا جا سکے۔
کمیشن نے اس بات پر بھی سخت تشویش ظاہر کیا کہ وفاقی سطح پر کم از کم اجرت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور یہ بدستور 37 ہزار روپے ماہانہ پر قائم ہے، جو ایک چھ رکنی خاندان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا جیسے صوبوں میں اگرچہ یہ حد بڑھا کر 40 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، لیکن موجودہ مہنگائی کے تناظر میں یہ اضافہ حقیقی آمدنی میں کمی کا ازالہ نہیں کرتا۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ سندھ میں 80 فیصد صنعتیں کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد نہیں کر رہیں اور یہ رجحان پورے ملک میں پایا جاتا ہے۔ ایچ آر سی پی نے صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ جیسے اہم شعبوں کے لیے مختص فنڈز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
’صحت کے لیے جی ڈی پی کا صرف 0.96 فیصد، تعلیم کے لیے 1.06 فیصد اور سماجی تحفظ کے لیے محض 1.1 فیصد مختص کیا گیا ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی معیار بلکہ بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ہمسایہ ممالک سے بھی کہیں کم ہیں۔‘
ایچ آر سی پی کی جانب سے منعقدہ بریفنگ میں معروف ماہرِ معیشت ڈاکٹر فہد علی نے نشاندہی کی کہ جب ملک کی 45 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور 88 فیصد افراد کی ماہانہ آمدنی 75 ہزار روپے سے کم ہے جو ایک ’زندہ اجرت‘ کے طور پر درکار ہے تو ایسے میں بجٹ میں سماجی انصاف اور انسانی وقار کا فقدان باعثِ تشویش ہے۔
ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے کم از کم اجرت میں اضافہ نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں ’غیر معمولی اور غیر متناسب‘ اضافے کا اعلان اس فیصلے سے تضاد رکھتا ہے۔
ایچ آر سی پی پنجاب کے نائب صدر راجہ اشرف نے کہا کہ صحت اور تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، جبکہ ایچ آر سی پی کی سینئر منیجر فیروزا بتول نے کہا کہ غریب دشمن بجٹ سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں۔ ایچ آر سی پی کے خزانچی حسین نقی نے زور دیا کہ بجٹ کی معاشی و سماجی اثرات پر قومی اسمبلی میں تفصیل سے بحث ہونی چاہیے۔
کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی مالی ترجیحات پر نظرثانی کریں اور معاشی بحالی کے منصوبوں کو پسماندہ طبقوں کے حقوق اور ضروریات کے مرکز میں رکھیں جب تک عوامی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ میں سنجیدہ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی، اس وقت تک مساوی شہری حقوق کا وعدہ محض ایک دعویٰ ہی رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی وقار کے ساتھ زندگی کا حق کوئی ایسا مطالبہ نہیں جسے مالی نظم و ضبط کے نام پر پسِ پشت ڈال دیا جائے جبکہ یہ حق بجٹ کے مرکز میں ہونا چاہیے۔