پہلگام حملے کے بعد بھارتی مسلمانوں کیخلاف نفرت کا بازار گرم
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ صرف مساجد میں نماز پر پابندیوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے وجود اور آزادی سے عبادت کرنے کے حق کو نشانہ بنانے کے بارے میں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پہلگام میں دہشتگردانہ حملے کے بعد مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت جاری ہے۔ اب یہ نفرت دیہی علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ مسلمانوں کو مختلف طریقے سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والوں کے شناختی کارڈ چیک کئے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء پونے کے کچھ گاؤں میں ہندو شدت پسندوں نے باقاعدہ پوسٹر چسپاں کر کے مسلمانوں کو گاؤں میں داخل ہونے اور نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پونے ضلع کی تحصیل ملشی میں کئی گرام پنچایتوں نے قراردادیں منظور کی ہیں کہ مسلمانوں کو مساجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا جائے، خاص طور پر جمعہ کی نماز کے لئے۔ پیرنگوت، گھوٹاواڑے، وڈکی اور لاوالے سمیت دیہاتوں میں بینر اور عوامی نوٹس لگائے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ صرف مقامی باشندوں کو گاؤں میں رہنے کی اجازت ہوگی۔
اگرچہ دہشت گردانہ حملہ اس دیہاتوں سے 2 ہزار کلومیٹر سے زیادہ دور پہلگام کشمیر میں پیش آیا ہے لیکن اس حملے کے بعد بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو لہر شروع کی گئی ہے وہ دور دراز علاقوں تک پہنچ گئی ہے۔ یکم مئی کو پیرنگوت گرام پنچایت نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں اس پابندی کو پیرنگوت جامع مسجد میں لاگو کیا گیا، جو کہ تعلقہ کی سب سے بڑی مسجد ہے، اس پر عمل کرنے کے لئے مسجد کے ذمہ داروں کو مجبور کیا گیا ہے۔ لاوالے کے ایک رہائشی شائستہ خان انعامدار نے کہا کہ ہم خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا "اس سے پہلے بھی ہم نے مسجد میں نماز پڑھنا بند کر دی تھی کیونکہ یہ ایک مندر کے بالکل ساتھ ہے اور تناؤ بڑھ رہا تھا، اب اس کے بعد ہم گاؤں کے باہر ایک چھوٹے سے شیڈ میں نماز پڑھ رہے ہیں"۔
پولیس کے رویہ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ جبکہ پولیس ایسی قراردادوں سے واقف ہے، لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت درج نہیں کی گئی ہے اور نہ ان اقدامات سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ پیرنگوت پولیس اسٹیشن کے ایک سینیئر اہلکار نے تسلیم کیا کہ جمعہ کی نماز کے دوران باہر کے لوگوں کے بارے میں خدشات کا حوالہ دیہاتیوں نے دیا، جس سے پنچایتوں کو کارروائی کرنے پر باور کیا گیا۔ تاہم مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ زیادہ گہرا ہے۔ یہ صرف مساجد میں نماز پر پابندیوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے وجود اور آزادی سے عبادت کرنے کے حق کو نشانہ بنانے کے بارے میں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے بارے میں گئی ہے کے بعد
پڑھیں:
میرواعظ حسن افضل فردوسی کا دہلی کار دھماکے کے بعد کشمیر کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو میں مقبوضہ کشمیر کے معروف حریت پسند رہنماء و جموں و کشمیر مسلم متحدہ محاذ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کیخلاف اسلامو فوبیا کے تحت شدید جنگ جاری ہے اور اب بھارت بھر میں بھی مسلمانوں اور خاص طور سے کشمیریوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔ متعلقہ فائیلیںمولانا حسن افضل فردوسی کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کے لاوے پورہ سرینگر سے ہے، وہ سالہا سال سے کشمیر میں مزاحمتی تحریک سے وابستہ ہیں۔ مختلف تبلیغی محاذوں پر سرگرم ہیں، ساتھ ہی ساتھ میر واعظ شمالی کشمیر بھی ہیں۔ آپکے والد محترم کو تحریک آزادی سے وابستہ ہونے کی پاداش میں شہید کیا گیا۔ مولانا حسن افضل فردوسی کو بھی برسہا برس بھارتی حکومت نے مختلف جیلوں میں قید رکھا ہے اور تحریک مزاحمت سے وابستگی کی بناء پر نوکری سے بھی معطل کیا گیا۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا حسن افضل فردوسی سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جس دوران انہوں نے کہا کہ علماء کرام کو معاشرہ سازی، امت سازش، اتحاد امت، باہمی رواداری و ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے، لیکن افسوس کہ وہ باہمی تضاد و منافرت میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کیخلاف اسلاموفوبیا کے تحت شدید جنگ جاری ہے اور اب بھارت بھر میں بھی مسلمانوں اور خاص طور سے کشمیریوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔ میرواعظ شمالی کشمیر نے کہا کہ اسرائیل دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد ہے، جس نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے مختلف جیلوں میں کشمیری قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اس موقع پر ان سے لیا گیا خصوصی انٹرویو پیش خدمت ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial