Express News:
2025-09-20@05:33:24 GMT

کراچی اور ٹاؤن پلاننگ کی خامیاں

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

کراچی دنیا کے ان چند بڑے شہروں میں شامل ہے جو بیڈ گورننس کا شکار ہیں۔ سندھ گورنمنٹ نے کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ و ریگولیشنز   2002 میں ترمیم کر کے ریزیڈنس ایریاز میں کمرشل عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیدی ہے۔ اب رہائشی علاقوں میں اسکولز،کالجز، ریسٹورنٹس اور دفاتر وغیرہ قانونی طور پر تعمیرکیے جاسکتے ہیں۔ اس ترمیم کے تحت رہائشی علاقوں میں بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوسکتی ہیں جب کہ گھریلو صنعت کی تعریف میں آنے والے کارخانے بھی لگ سکتے ہیں۔

شہری امور کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کراچی کا درجہ حرارت 2.

5c تک پہنچ گیا ہے جب کہ کراچی Per Capital Floor Area پانچ اسکوائر میٹر سے کم ہے جب کہ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کا معیار 20 کے قریب ہے۔ علاقوں میں بے ہنگم کمرشلائزیشن کے بے پناہ نقصانات ہیں۔ اربن پلانرز اور شہری امور کے ماہرین آرکیٹیکٹ اور سول سوسائٹی کے ارکان کو کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز مجریہ 2002میں اس یکطرفہ ترمیم پر سخت اعتراضات ہیں۔

کراچی میں غیر قانونی تعمیر ہونے والی عمارتوں کے خلاف طویل عرصہ سے جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’شہری ‘‘ کے ماہرین نے غیر سرکاری ماہرین اور سول سوسائٹی کے اراکین کو گزشتہ ہفتے کراچی پریس کلب میں مدعو کیا۔ ان ماہرین کے جن میں معروف آرکیٹیکٹ عارف حسن، ڈاکٹر نعمان احمد، قانونی ماہرین امبر علی بھائی اور ڈاکٹر اریبہ اشفاق وغیرہ شامل تھے نے مشترکہ طور پر ان قوانین کو کراچی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ اس ملک کے شہر ٹاؤن پلانرز اور مظلوموں کے دکھوں کو محسوس کرنے والے آرکیٹیکٹ عارف حسن نے اس ترمیمی قانون کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کئی ممالک میں یہ قانون موجود ہے کہ ایک خاندان صرف ایک پلاٹ کا حقدار ہوگا۔

ایسا قانون اس ملک میں بننا ضروری ہے، اس مقصد کے لیے ملک بھر میں لینڈ ریفارمز وقت کی ضرورت ہے۔ عارف حسن کا بیانیہ ہے کہ اگر شہری علاقوں میں کمرشل اداروں کا قیام ضروری ہو تو پھر ایک منظم انداز میں کمرشل اداروں کے قیام کی اجازت ہونی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ شہری علاقوں میں منصوبہ بندی کے کمرشل اداروں کی سرگرمیاں صرف شہری مسائل کو ہی نہیں بڑھاتیں بلکہ اب تو ماحولیات کی تباہی کا بھی باعث بن رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے تجربات کی بناء پر کہا کہ شہریوں کو سہولت فراہم کرنے والے سرکاری اداروں کا سارا زور عوام سے رقم ہتھیانے پر رہ گیا ہے۔

شہری علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام کے لیے کراچی کے مستقبل کے بارے میں فکرمند شہریوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم جو ’’شہری‘‘ کے نام سے قائم کی ہے کی قیادت ایک معروف وکیل امبر علی بھائی کررہی ہے۔ امبر علی بھائی شہر میں نافذ ہونے والے قوانین کا بغور جائزہ لینے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ سندھ پلاننگ کنٹرول آرڈیننس 1979 اور اس کے ملحقہ قوانین کی تیاری میں عوام کی رائے نہیں لی گئی۔

کراچی میں تعمیرات کو کنٹرول کرنے والے ادارہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (S.B.C.A) کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے امبر نے بتایا کہ یہ ادارہ اگرچہ ٹاؤن پلاننگ کا ذمے دار ہے مگر ایس بی سی اے سینٹرلائزڈ کنٹرول Centralized Control میں ہے اور اس ادارے کی سرگرمیوں میں شفافیت کا فقدان ہے۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر اور عوامی آرکیٹیکٹ ڈاکٹر نعمان احمد نے اس ترمیم قانون کو شہر کے لیے نقصان دہ قرار دیااور کہا کہ شہری علاقوں میں کمرشل استعمال کے لیے عمارتوں میں جو تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ اس سے پانی، بجلی اور سیوریج کی نکاسی کے علاوہ ماحولیات میں بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں، کمرشل سرگرمیوں کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت بڑھ جائے گی،یوں پیٹرول اور ڈیزل سے فضاء میں خطرناک اجزاء شامل ہوجاتے ہیں، لوڈ شیڈنگ کے دوران ہیوی جنریٹرچلنے سے آواز اور دھوئیں کی آلودگی پیدا ہوگی۔

 کراچی میں گزشتہ سال بلند عمارتوں میں آتش زدگی کے خاصے حادثات ہوئے۔ بیشتر عمارتوں میں تو آگ بجھانے کے آلات اور ہنگامی صورتحال میں عمارتوں سے باہر نکلنے کے راستے ہی موجود نہیں تھے۔ دوسری طرف بلدیہ کراچی کے فائر بریگیڈ جدید گاڑیوں اور آگ بجھانے والے جدید آلات سے محروم ہیں۔ کراچی میں فٹ پاتھ ناپید ہوچکے ہیں، اگر صرف پوش علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ فٹ پاتھ پر چائے کے ہوٹل قائم ہیں۔ ان ہوٹلوں نے فٹ پاتھ کی تمام جگہوں پر قبضہ رکھا ہے۔

پھر ہوٹل والے چولہے جو سلینڈر سے توانائی حاصل کرتے ہیں وہ بھی فٹ پاتھ پر ہی رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف تو فٹ پاتھ پر چلنے کی جگہ نہیں بچتی تو دوسری طرف خطرناک حادثہ انتظار کررہا ہوتا ہے مگر معاملہ صرف چائے کے ہوٹلوں تک محدود نہیں بلکہ شہر کے بہت سے علاقوں میں جن میں پرانا شہر بھی شامل ہے، فٹ پاتھ پر ایرانی پٹرول اور ڈیزل بھی دستیاب ہوتا ہے۔ اب تو کئی علاقوں میں سلینڈرکی دکانیں بھی فٹ پاتھ پر بن گئی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بہادر آباد، طارق روڈ، خالد بن ولید روڈ ، یونیورسٹی روڈ اور نیپا سے ملیر کینٹ جانے والی شاہراہ کا شمار کھلے اور صاف ستھرے ماحول والی سڑکوں میں ہوتا تھا مگر اب ان علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں کی بناء پر یہ سڑکیں انتہائی گنجان سڑکوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

 زلزلہ کے بارے میں تحقیق کرنے والے ماہر ڈاکٹر پروفیسر عارف زبیر کا کہنا ہے کہ یہ علاقے زلزلہ کی فالٹ لائن پر ہیں، اگر کبھی ترکی جیسا زلزلہ آیا تو تباہی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ سول انجنیئر اور ابلاغِ عامہ کے محقق ڈاکٹر سعید عثمانی اس قانون کے نقصانات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹاؤن پلاننگ کے جدید اصولوں کے تحت شہری علاقوں میں مذہبی عبادت گاہوں، دکانوں، پارکوں اور ہوٹلوں کے لیے علیحدہ سے قطع اراضی مختص کیا جاتا ہے مگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ’’چمک‘‘ کی بالادستی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاپنگ ایریاز میں تو پارکنگ کا مسئلہ پہلے سے موجود ہے اب شہری علاقوں میں بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کرجائے گا۔

پاکستان بننے کے بعد بلدیہ کراچی کے ساتھ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (K.D.A) قائم ہوئی۔ کے ڈی اے نے عمارتوں کی تعمیر اور شہری علاقوں اور کمرشل علاقوں کے قوانین بنائے، پھرکراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ضم کیا مگر نیا ادارہ بقول ایک صحافی کے سونے کی دکان تو بن گیا مگر شہر بدترین طرزِ حکومت کا شکار بن گیا۔ سندھ حکومت کو اپنے اس قانون پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ کراچی کے شہری جو پانی کی نایابی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا پہلے سے ہی شکار ہیں اس فیصلے سے اب ان کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شہری علاقوں میں ٹاؤن پلاننگ کراچی بلڈنگ کہتے ہیں کہ فٹ پاتھ پر کراچی میں کرنے والے کراچی کے کے لیے

پڑھیں:

فارم 47 والے پی پی کی کرپشن اور بیڈ گورننس کا نوٹس لے کر کراچی کو تباہ ہونے سے بچائیں، آفاق احمد

مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم حقیقی) کے چیئرمین آفاق احمد نے کہا کہ کراچی میں ترقی کے نام پر سندھ حکومت نے 17 سالوں میں کھربوں روپے ہڑپ کیے ہیں۔

اپنے ایک بیان میں آفاق احمد نے کہا کہ کراچی کو پیپلز پارٹی نے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، صوبے کو ہر سال جتنا ریونیو کراچی دیتا ہے اس کا 10 فیصد بھی شہر پر نہیں لگتا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 17 برسوں میں صرف شہر کی ڈیویلپمنٹ کے پیسوں میں سے سندھ حکومت کھربوں روپے ہڑپ کرچکی ہے۔ آفاق احمد نے کہا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ غیر مقامی افراد کی انتظامی عہدوں پر تعیناتی ہے۔

آفاق احمد نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے شہر کو تباہ کرنے کیلئے اندرون سندھ سے اٖفسران لاکر شہر میں تعینات کردیئے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے شہر یوں کو لوٹ رہے ہیں۔

آفاق احمد نے کہا کہ جس تیزی  اور تسلسل کے ساتھ شہر کا انفراسٹرکچر تباہ کیا گیا اسکی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے پیپلز پارٹی کا عذاب شہر اور صوبے پر مسلط کیا وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جو ناصرف شہر بلکہ ملک کے ساتھ دشمنی ہے۔

چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ نے کہا کہ کراچی نا صرف صوبے بلکہ ملک کو پالنے والا شہر ہے جسکی گود اجاڑی جارہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی  سے کسی اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی، فارم 47 بنانے والے پی پی کی کرپشن، اقرباء پروری اور بیڈ گورننس کا نوٹس لیں اور کراچی کو تباہ ہونے سے بچائیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: مختلف علاقوں میں مبینہ پولیس مقابلے، زخمی سمیت 3 ملزمان گرفتار 
  • ڈی پی ایل کی تاریخ میں توسیع خوش آئند ، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے، کمرشل امپورٹرز
  • کراچی: موبائل چھیننے والے مجرم کو 27 سال قید کی سزا
  • فارم 47 بنانے والے پیپلز پارٹی کی کرپشن کا نوٹس لیں، آفاق احمد
  • کراچی، مختلف علاقوں میں حادثے اور فائرنگ کے واقعات، ایک شخص جاں بحق، 2 خواتین سمیت 3 افراد زخمی
  • فارم 47 والے پی پی کی کرپشن اور بیڈ گورننس کا نوٹس لے کر کراچی کو تباہ ہونے سے بچائیں، آفاق احمد
  • کراچی، شہری کو زخمی کرنے والے ڈاکوؤں سے پولیس مقابلہ، ایک ہلاک، دوسرا زخمی گرفتار
  • کراچی، ریڈ لائن منصوبے میں غیر معمولی تاخیر، شہری اذیت کا شکار
  • کراچی: شادی والے دن لاپتا ہونیوالے دُلہا کے کیس کا ڈراپ سین، نوجوان کا بیان سامنے آگیا
  • سی پیک کے تحت چلنے والے پراجیکٹ ایس ۔کے ۔ ہائیدروپاور اسٹیشن کے کمرشل آپریشن کا ایک سال