Express News:
2025-05-07@03:01:33 GMT

کراچی اور ٹاؤن پلاننگ کی خامیاں

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

کراچی دنیا کے ان چند بڑے شہروں میں شامل ہے جو بیڈ گورننس کا شکار ہیں۔ سندھ گورنمنٹ نے کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ و ریگولیشنز   2002 میں ترمیم کر کے ریزیڈنس ایریاز میں کمرشل عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیدی ہے۔ اب رہائشی علاقوں میں اسکولز،کالجز، ریسٹورنٹس اور دفاتر وغیرہ قانونی طور پر تعمیرکیے جاسکتے ہیں۔ اس ترمیم کے تحت رہائشی علاقوں میں بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوسکتی ہیں جب کہ گھریلو صنعت کی تعریف میں آنے والے کارخانے بھی لگ سکتے ہیں۔

شہری امور کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کراچی کا درجہ حرارت 2.

5c تک پہنچ گیا ہے جب کہ کراچی Per Capital Floor Area پانچ اسکوائر میٹر سے کم ہے جب کہ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کا معیار 20 کے قریب ہے۔ علاقوں میں بے ہنگم کمرشلائزیشن کے بے پناہ نقصانات ہیں۔ اربن پلانرز اور شہری امور کے ماہرین آرکیٹیکٹ اور سول سوسائٹی کے ارکان کو کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز مجریہ 2002میں اس یکطرفہ ترمیم پر سخت اعتراضات ہیں۔

کراچی میں غیر قانونی تعمیر ہونے والی عمارتوں کے خلاف طویل عرصہ سے جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’شہری ‘‘ کے ماہرین نے غیر سرکاری ماہرین اور سول سوسائٹی کے اراکین کو گزشتہ ہفتے کراچی پریس کلب میں مدعو کیا۔ ان ماہرین کے جن میں معروف آرکیٹیکٹ عارف حسن، ڈاکٹر نعمان احمد، قانونی ماہرین امبر علی بھائی اور ڈاکٹر اریبہ اشفاق وغیرہ شامل تھے نے مشترکہ طور پر ان قوانین کو کراچی کے لیے خطرناک قرار دیا۔ اس ملک کے شہر ٹاؤن پلانرز اور مظلوموں کے دکھوں کو محسوس کرنے والے آرکیٹیکٹ عارف حسن نے اس ترمیمی قانون کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کئی ممالک میں یہ قانون موجود ہے کہ ایک خاندان صرف ایک پلاٹ کا حقدار ہوگا۔

ایسا قانون اس ملک میں بننا ضروری ہے، اس مقصد کے لیے ملک بھر میں لینڈ ریفارمز وقت کی ضرورت ہے۔ عارف حسن کا بیانیہ ہے کہ اگر شہری علاقوں میں کمرشل اداروں کا قیام ضروری ہو تو پھر ایک منظم انداز میں کمرشل اداروں کے قیام کی اجازت ہونی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ شہری علاقوں میں منصوبہ بندی کے کمرشل اداروں کی سرگرمیاں صرف شہری مسائل کو ہی نہیں بڑھاتیں بلکہ اب تو ماحولیات کی تباہی کا بھی باعث بن رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے تجربات کی بناء پر کہا کہ شہریوں کو سہولت فراہم کرنے والے سرکاری اداروں کا سارا زور عوام سے رقم ہتھیانے پر رہ گیا ہے۔

شہری علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام کے لیے کراچی کے مستقبل کے بارے میں فکرمند شہریوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم جو ’’شہری‘‘ کے نام سے قائم کی ہے کی قیادت ایک معروف وکیل امبر علی بھائی کررہی ہے۔ امبر علی بھائی شہر میں نافذ ہونے والے قوانین کا بغور جائزہ لینے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ سندھ پلاننگ کنٹرول آرڈیننس 1979 اور اس کے ملحقہ قوانین کی تیاری میں عوام کی رائے نہیں لی گئی۔

کراچی میں تعمیرات کو کنٹرول کرنے والے ادارہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (S.B.C.A) کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے امبر نے بتایا کہ یہ ادارہ اگرچہ ٹاؤن پلاننگ کا ذمے دار ہے مگر ایس بی سی اے سینٹرلائزڈ کنٹرول Centralized Control میں ہے اور اس ادارے کی سرگرمیوں میں شفافیت کا فقدان ہے۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر اور عوامی آرکیٹیکٹ ڈاکٹر نعمان احمد نے اس ترمیم قانون کو شہر کے لیے نقصان دہ قرار دیااور کہا کہ شہری علاقوں میں کمرشل استعمال کے لیے عمارتوں میں جو تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ اس سے پانی، بجلی اور سیوریج کی نکاسی کے علاوہ ماحولیات میں بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں، کمرشل سرگرمیوں کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت بڑھ جائے گی،یوں پیٹرول اور ڈیزل سے فضاء میں خطرناک اجزاء شامل ہوجاتے ہیں، لوڈ شیڈنگ کے دوران ہیوی جنریٹرچلنے سے آواز اور دھوئیں کی آلودگی پیدا ہوگی۔

 کراچی میں گزشتہ سال بلند عمارتوں میں آتش زدگی کے خاصے حادثات ہوئے۔ بیشتر عمارتوں میں تو آگ بجھانے کے آلات اور ہنگامی صورتحال میں عمارتوں سے باہر نکلنے کے راستے ہی موجود نہیں تھے۔ دوسری طرف بلدیہ کراچی کے فائر بریگیڈ جدید گاڑیوں اور آگ بجھانے والے جدید آلات سے محروم ہیں۔ کراچی میں فٹ پاتھ ناپید ہوچکے ہیں، اگر صرف پوش علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ فٹ پاتھ پر چائے کے ہوٹل قائم ہیں۔ ان ہوٹلوں نے فٹ پاتھ کی تمام جگہوں پر قبضہ رکھا ہے۔

پھر ہوٹل والے چولہے جو سلینڈر سے توانائی حاصل کرتے ہیں وہ بھی فٹ پاتھ پر ہی رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک طرف تو فٹ پاتھ پر چلنے کی جگہ نہیں بچتی تو دوسری طرف خطرناک حادثہ انتظار کررہا ہوتا ہے مگر معاملہ صرف چائے کے ہوٹلوں تک محدود نہیں بلکہ شہر کے بہت سے علاقوں میں جن میں پرانا شہر بھی شامل ہے، فٹ پاتھ پر ایرانی پٹرول اور ڈیزل بھی دستیاب ہوتا ہے۔ اب تو کئی علاقوں میں سلینڈرکی دکانیں بھی فٹ پاتھ پر بن گئی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بہادر آباد، طارق روڈ، خالد بن ولید روڈ ، یونیورسٹی روڈ اور نیپا سے ملیر کینٹ جانے والی شاہراہ کا شمار کھلے اور صاف ستھرے ماحول والی سڑکوں میں ہوتا تھا مگر اب ان علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں کی بناء پر یہ سڑکیں انتہائی گنجان سڑکوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

 زلزلہ کے بارے میں تحقیق کرنے والے ماہر ڈاکٹر پروفیسر عارف زبیر کا کہنا ہے کہ یہ علاقے زلزلہ کی فالٹ لائن پر ہیں، اگر کبھی ترکی جیسا زلزلہ آیا تو تباہی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ سول انجنیئر اور ابلاغِ عامہ کے محقق ڈاکٹر سعید عثمانی اس قانون کے نقصانات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹاؤن پلاننگ کے جدید اصولوں کے تحت شہری علاقوں میں مذہبی عبادت گاہوں، دکانوں، پارکوں اور ہوٹلوں کے لیے علیحدہ سے قطع اراضی مختص کیا جاتا ہے مگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ’’چمک‘‘ کی بالادستی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاپنگ ایریاز میں تو پارکنگ کا مسئلہ پہلے سے موجود ہے اب شہری علاقوں میں بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کرجائے گا۔

پاکستان بننے کے بعد بلدیہ کراچی کے ساتھ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (K.D.A) قائم ہوئی۔ کے ڈی اے نے عمارتوں کی تعمیر اور شہری علاقوں اور کمرشل علاقوں کے قوانین بنائے، پھرکراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ضم کیا مگر نیا ادارہ بقول ایک صحافی کے سونے کی دکان تو بن گیا مگر شہر بدترین طرزِ حکومت کا شکار بن گیا۔ سندھ حکومت کو اپنے اس قانون پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ کراچی کے شہری جو پانی کی نایابی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا پہلے سے ہی شکار ہیں اس فیصلے سے اب ان کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شہری علاقوں میں ٹاؤن پلاننگ کراچی بلڈنگ کہتے ہیں کہ فٹ پاتھ پر کراچی میں کرنے والے کراچی کے کے لیے

پڑھیں:

امددای کٹوتیاں بحران زدہ علاقوں میں دائیوں کی خدمات میں کمی کا سبب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 مئی 2025ء) امدادی وسائل کی شدید قلت کے باعث جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) کو بحران زدہ علاقوں میں دائیوں (مڈوائف) کے لیے ضروری مدد کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر کمی کرنا پڑی ہے۔

ادارہ رواں سال بحرانی حالات سے دوچار آٹھ ممالک میں 3,521 دائیوں میں سے 47 فیصد کے لیے ہی وسائل مہیا کر سکے گا جس سے وہاں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی صحت و زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

Tweet URL

'یو این ایف پی اے' کے مطابق، رواں سال امدادی وسائل کی قلت کے پیش نظر افغانستان میں 974 میں سے 565، بنگلہ دیش میں (روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے امدادی اقدام کے تحت) 288 میں سے 241، کیمرون میں 49 سے 17 اور مالی میں 133 میں سے 88 دائیوں کے لیے مدد دستیاب ہو گی۔

(جاری ہے)

اسی طرح، فلسطین میں 93 میں سے 63 اور یمن میں 1,492 میں سے 700 دائیوں کو ہی مدد میسر آئے گی۔ وسطی جمہوریہ افریقہ میں 22 اور سوڈان میں 470 دائیوں کو مدد دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن ان دونوں جگہوں کے لیے وسائل دستیاب نہیں ہوں گے۔ علاوہ ازیں، امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ امدادی وسائل بند ہو جانے سے چاڈ، نائجیریا، مڈغاسکر اور صومالیہ میں بھی اس مدد کی فراہمی ممکن نہیں رہی۔

صحت و زندگی کی ضمانت

'یو این ایف پی اے' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکتر نتالیا کینم نے کہا ہے کہ دائیاں زندگیاں بچاتی ہیں اور مشکل ترین حالات میں ان کی مدد زچہ بچہ کے لیے صحت و زندگی کی ضمانت ہوتی ہے۔ جب بحرانوں میں طبی نظام کو نقصان ہوتا ہے تو زچگی کی خدمات تک رسائی ختم ہو جاتی ہے اور ایسے حالات میں دائیاں ہی حاملہ خواتین کی مدد کو آتی ہیں۔

'یو این ایف پی اے' ضرورت مند علاقوں میں دائیوں کو تربیت کی فراہمی کے ساتھ ضروری طبی سازوسامان بھی مہیا کرتا ہے اور بعض حالات میں انہیں نقل و حمل میں بھی سہولت دی جاتی ہے تاکہ وہ دور دراز اور خطرناک علاقوں میں بھی کام کر سکیں۔

بحران زدہ خواتین کا سہارا

دائیاں بچوں کی پیدائش میں معاونت کے علاوہ جنسی تشدد کی متاثرین کو بھی مدد فراہم کرتی ہیں اور 90 فیصد تک جنسی و تولیدی خدمات اور زچہ بچہ کی صحت کے لیے درکار نگہداشت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

جب ان خدمات کی فراہمی بند ہو جاتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ افغانستان اس کی نمایاں مثال ہے جہاں 409 دائیوں کے لیے مدد کی فراہمی بند ہونے سے تقریباً پانچ لاکھ خواتین کے لیے ایسی خدمات تک رسائی میں شدید مشکلات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

نتالیہ کینم نے کہا ہے کہ بحرانی ادوار میں بچوں کی پیدائش بند نہیں ہو جاتی لیکن جب بحران آتے ہیں تو حاملہ خواتین تولیدی صحت اور ہنگامی زچگی کی خدمات سے محروم ہو جاتی ہیں۔

بحران زدہ علاقوں میں خواتین کے حمل اور زچگی کے دوران موت کے منہ میں جانے کا خدشہ دو گنا بڑھ جاتا ہے۔امدادی وسائل کے لیے اپیل

ہر طرح کے حالات میں حسب ضرورت اور تربیت یافتہ دائیوں کی خدمات یقینی بنانے کے لیے 'یو این ایف پی اے' اور اس کے شراکت داروں نے 'گلوبل مڈ وائفرئ ایکسیلیریٹر' نامی اقدام شروع کیا ہے جس کا مقصد ایسے ممالک میں دائیوں کے زیرنگرانی زچہ بچہ کی نگہداشت کو بہتر بنانا ہے جہاں زچگی میں اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

اس اقدام کے ذریعے زندگیوں کو تحفظ دینے اور ملکی سطح پر نظام ہائے صحت کو مضبوط بنانے کے لیے کم خرچ لائحہ عمل بنایا گیا ہے جسے پہلے ہی عطیہ دہندگان سے مدد مل رہی ہے لیکن مزید بڑی مقدار میں مالی وسائل کی ضرورت برقرار ہے۔

نتالیا کینم نے کہا ہے کہ امدادی مقاصد کے لیے دائیوں کی خدمات کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بند ہونے سے خواتین اور ان کے نومولود بچوں کی زندگی کو نقصان ہو گا جسے روکنے اور دائیوں کے ضروری کام میں مدد کی فراہمی جاری رکھنے کی طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کراچی کے کچھ علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش کی پیشگوئی
  • امددای کٹوتیاں بحران زدہ علاقوں میں دائیوں کی خدمات میں کمی کا سبب
  • کراچی: شہری کو اغواء کرکے رقم لینے پر 4 پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد پر مقدمہ
  • کیا کراچی میں آج گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے؟
  • کراچی: لاپتہ شہری کی بازیابی درخواست پر سندھ حکومت، آئی جی اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری
  • کراچی: شہر کے بیشتر علاقوں میں تیز ہوائیں، مٹی کے بادل چھا گئے، بارش سے موسم خوشگوار
  • کراچی کا ایک اور شہری ہنی ٹریپ کا شکار، کچے کے ڈاکوؤں کا 1 کروڑ تاوان کا مطالبہ
  • کراچی میں پانی کا بحران سنگین، چھ دن بعد بھی فراہمی بحال نہ ہوسکی
  • حیدرآباد: کئی علاقوں میں گزشتہ روز سے بجلی بند، شہری پریشان