حکومت سندھ کا ذخیرہ اندوزوں کیخلاف ایکشن، 13 ہزار چینی اور چاول کے تھیلے برآمد
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
حکومت سندھ نے چینی اور چاول کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ایکشن لے لیا، کورنگی میں بڑی کارروائی کرتے ہوئے 13 ہزار چینی اور چاول کے تھیلے برآمد کر لیے ہیں۔سندھ حکومت کے محکمہ بیورو آف سپلائی پرائسز کی کارروائی میں غیر رجسٹرڈ گودام سے 4 ہزار چینی اور 9 ہزار چاول کے تھیلے برآمد کیے گئے ہیں۔ڈی جی زاہد حسین شر کے مطابق سیل کیا گیا گودام بیورو آف سپلائی کے پاس رجسٹرڈ نہیں تھا۔
دوسری جانب صوبے بھر میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف سندھ حکومت کی مؤثر کارروائی جاری ہے۔ کراچی کےمختلف بازاروں میں بھی چھاپہ مار ٹیمیں چینی کے سرکاری نرخ پر عمل درامد کروانے کے لیے سرگرم ہیں۔
کمشنر کراچی نے چینی کی ریٹیل قیمت 173 روپے فی کلو مقرر کی ہے جبکہ بازاروں میں چینی 185 سے 190 روپے کلو بیچی جارہی ہے۔ کراچی میں چینی کی ہول سیل قیمت 170 روپے ہے۔فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ گودام سرکاری ہے یا پرائیویٹ ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
کراچی: 25 ہزار تنخواہ 5 ہزار کا چالان، شہریوں پر بھاری جرمانوں کے نفسیاتی اثرات پڑنے لگے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر حکومت سندھ کی جانب سے عائد کیے گئے بھاری جرمانوں نے عام اور متوسط طبقے کو شدید مالی دباؤ اور ذہنی اذیت میں ڈال دیا ہے۔
نئے نافذ کیے گئے قوانین کے مطابق موٹر سائیکل کے لیے تیز رفتاری کا سب سے چھوٹا جرمانہ 5 ہزار روپے اور غلط سمت گاڑی چلانے کا جرمانہ 25 ہزار روپے تک ہے۔ کار یا جیپ کے لیے بغیر رجسٹریشن کے ڈرائیونگ پر 50 ہزار اور ہیوی ٹریفک وہیکل کے لیے یہی جرمانہ 1 لاکھ روپے تک ہے۔
ان نئے قوانین سے شہر میں کام کرنے والے موٹر سائیکل رائیڈرز سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک رائیڈر نے بتایا کہ ان کی ماہانہ آمدنی صرف 25 ہزار روپے ہے اور کسی نادانستہ خلاف ورزی پر ان کے لیے 5 ہزار روپے کا چالان ادا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے حالات میں وہ موٹر سائیکل چلانا چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، کیوں کہ بھاری ٹریفک جرمانے کا خوف ذہن پر طاری ہے اور اکثر بائیک رائیڈرز پر ان بھاری جرمانوں پر مشتمل قوانین کے نفسیاتی اثرات پڑ رہے ہیں۔
سماجی رہنماؤں کی جانب سے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کے نوجوانوں کی بڑی تعداد، جن کی آمدنی 30 ہزار سے بھی کم ہے، وہ یہ بھاری چالان کیسے ادا کریں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمانے کی شرح کو لاگو کرتے وقت شہریوں کی مالی حیثیت اور کراچی میں غربت کی شرح کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔