جب بھی شیر آتا ہے سب کچھ کھا جاتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
سید یوسف رضا گیلانی سرائیکی وسیب کے نفیس طبع سنجیدہ مزاج سیاستدان اور پڑھے لکھے ،ادیب اور ادب شناس انسان ہیں انہوں نے پروقار سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور عزیمت کے رستے کے مسافر رہے ہیں ،انہیں بات کرنے کا ڈھنگ آتا ہے، معاملات سنوارنے میں مہارت رکھتے ہیں جب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ہمسفر بنے ہیں اشفاق احمد مرحوم کے فلسفہ محبت کے قائل ہیں اسی لئے انہیں پی پی پی کا نا ٹھیک بھی ٹھیک لگتا ہے ۔
صلح جو آدمی ہونے کے باوجود اپنی پارٹی کے موقف کی حمایت سے پیچھے ہٹنے والے ہرگز نہیں ، بھلے وزیراعظم ہائوس کی بجائے جیل کی کال کوٹھڑی میں کیوں نہ رہنا پڑے۔مسلم لیگ ن کے اتحادی ہونے کے ناطے اس کی کلی حمایت سے سینٹ کے چیئرمین بنے مگر ایک جملہ ببانگ دہل کہہ کر اپنی ہی پارٹی اور اس کے چیئرمین کے موقف پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ ’’شیر جب بھی آتا ہے سب کچھ کھاجاتا ہے‘‘۔
اب اگر غالب جیسے ارفع شاعر کی طرف سے مومن کے ایک شعر(تم مرے پاس ہوتے ہو،جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا) کے بدلے اپنی ساری شاعری اسے ودیعت کرنے کی پیشکش کی طرح کوئی اعلیٰ ظرف و کشادہ دل سینئر سیاستدان یہ پکار اٹھے کہ’’میں اپنی ساری سیاست کاری سید گیلانی کے ایک ہی جملے پر وارنے کو تیار ہوں ‘‘ تو پھر بھی اس فقرے کی معنویت کی خلعت نہیں پہنا سکے گا ۔یہ مسلم لیگ ن کی بے رحم سیاست کی تاریخ کے بھدے شکم کو کند خنجر کی انی سے چاک کرکے رکھ دینے کے مترادف ہے ۔
1986 ء سے اس دور بے اماں کی پوری داستان اس ایک جملے میں بیان کردی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پی پی پی نے بھی اپنے اقتدار کے سب زمانوں میں آمریت کے لگائے زخموں کی قیمت عام آدمی سے وصول کی،مگر اس نے حساب چکانے میں وہ ات نہیں اٹھائی جو آج کل پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مچائی جارہی ہے ۔ پنجاب کی رانی ایک ہی راگ الاپ رہی ہے کہ انہوں نے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کردیا ہے ،آٹا سستا،چینی اور چاول سستے اور ارزاں مگر کسان کی بجلی مہنگی، کھاد مہنگی اور نہری پانی تک گراں ،کیا ڈالا ہے اس دہقان کے کشکول میں یہ کہ وہ اپنی فصل سڑک کنارے رکھ کر سستے داموں بیچے گا! اس کا نام ہے کسان کی خوشحالی؟
کسان رو رہا اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ،یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ زرداروں اور صنعت کاروں کی چراہ گاہ رہے ،اس میں اہل ہوس شاد آباد رہیں اور وہ جو رات دن اس کی مٹی کو اپنے لہو سے سینچ رہے ہیں وہ نالہ سرا رہیں ۔صحافت کے بے تاج بادشاہ شورش کاشمیری نے فرمایا تھا ’’ہمیں سورج کی نا قابل تسخیر کرنوں ،ہوائوں کی بے قید لہروں اور چاند کی خنک چاندنی سے بھی زیادہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ دنیا صرف امیروں کی جولاں گاہ نہیں اس میں غریبوں کا بھی حصہ ہے‘‘۔
ایک صدی ہونے کو ہے اور یہ ایک خواب ہے جس کی راہ کے کانٹے نان جویں کو ترسنے والے چن رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیںریزہ ریزہ ہے بدن ،انگلیاں زخمی زخمی ہم بکھرتے تو کوئی شخص تو چنتا ہوتامگر پون صدی بیت گئی ابھی تک ’’احتساب کا ہاتھ انصاف کے گریبان تک نہیں پہنچا‘‘ شکستہ حالوں کا پرسان حال کوئی نہیں ۔ہم بھی کیا مجبور محض قوم ہیں کہ’’عقلوں کے طاعون اور طبیعتوں کے کوڑھ کو سینے سے لگائے جی رہے ہیں‘‘ کوئی ایسا نہیں جو طبل جنگ پر کاری ضرب لگائے اور سوئے ہوئے جاگ جائیں جنہیں اپنے حقوق کی خبر نہیں بس فرائض کی چکی پیستے پیستے عمریں بیت رہی ہیں۔متاع ایسی کوئی نہیں جو چھین نہ لی گئی ہو اور سزا ایسی کوئی نہیں جو ان کے نصیب کا حصہ نہ بنی ہو ۔
خانوادہ گیلانی کے تاجور نے ’’چاہ یوسف‘‘ سے صدائے حق تو بلند کی ہے مگر لوہا ڈھالنے والوں کی سماعتوں تک یہ صدا کیسے پہنچ سکتی ہے کہ وہ تو آگ اگلتی بھٹیوں کے دہانے کھڑے شہر کے مزدوروں سے ان کے تن کی قیمت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ان میں سے شاید کوئی اس جملے کو تفن طبع کے لئے قا بل اعتنا سمجھ لے، مگر نہروں کا مسئلہ ہو یا سندھ کے دیگر مسائل، کیونکر درخور اعتنا گردانے جائیں گے کہ ن لیگ نے جتنے سیاسی اتحاد بنائے وہ سب کوئلوں کی دلالی کی مثل رہے ، انہیں کامیاب بنانے کا سہرا شریف خاندان نے کبھی اپنے سر نہیں باندھا دوسرے ہی اس سہرے کی لاج کے لئے قربانیاں دیتے رہے ہیں ،پھر ن لیگ اور پی پی پی کا اتحاد تو ویسے ہی غیر فطری اور غیر نظریاتی ہے ۔یہ مفادات کی کھلی سودے بازی ہے اور اس بازی میں پہلی بار پی پی پی شایدبازی لے جائے کہ یہ دونوں جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ کون کیسے جیتا ۔
بہرحال بات چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا کے بیان سے چلی تھی جنہیں خود یہ علم ہے کہ ان کے گھر کے سب افراد فارم 47کے مرہون منت ہیں جویہ بھی ہیں ،جو وہ بھی ہیں ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کوئی نہیں پی پی پی رہے ہیں ہیں جو
پڑھیں:
سجل علی منگنی کا جوڑا ڈرامے میں دوبارہ پہننے پر ٹرولنگ کا شکار
نامور پاکستانی اداکارہ سجل علی کو اپنے نئے ڈرامے ‘میں منٹو نہیں ہوں’ میں اپنے سابق شوہر و اداکار احد رضا میر کے ساتھ منگنی کا جوڑا دوبارہ پہننے پر ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑگیا۔
شاندار اسٹار کاسٹ سے بھرپور میگا بجٹ ڈرامہ سیریل ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کا پہلا ٹیزر گزشتہ روز جاری کر دیا گیا۔
ٹیزر سامنے آتے ہی جہاں سوشل میڈیا پر ڈرامے کے مرکزی کردار ہمایوں سعید اور سجل کی عمر میں بڑا فرق موضوع بحث بنا ہوا ہے وہیں سجل کو ڈرامے میں اپنی منگنی کے جوڑے میں دوبارہ دیکھ کر انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے ٹرولنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک صارف نے لکھا کہ ’سجل کا اپنے ڈراموں میں شادی کے کپڑوں کا استعمال بیک وقت کراہت آمیز بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی، یہ فلاپ لڑکی اپنا ایک پیسہ بھی ضائع نہیں ہونے دےگی‘۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’سجل علی نے اپنے آنے والے ڈرامے میں اپنی منگنی کا لباس پہنا ہوا ہے، ایک کے بعد ایک فلاپ ڈرامے دینے کے بعد توجہ حاصل کرنے کا یہ اچھا طریقہ ہے، مجھے تو یہ حرکت بہت حقیر اور عجیب لگی، پہلے اسے اس کے سابق سُسر کے ساتھ کاسٹ کرلیا اور اب یہ؟ آگے مزید کیا ہوگا؟
کئی سوشل میڈیا صارفین سجل علی کے دفاع میں بھی سامنے آئے اور لباس کے انتخاب میں ان کی رائے کے احترام پر زور دیا۔
سجل علی کے سابق شوہر احد رضا میر پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور صارف نے لکھا کہ ’سجل بس اُس آدمی کے ساتھ اپنا فوٹوشوٹ خراب کیے بغیر اِس لباس میں نئی تصاویر لینا چاہتی ہوں گی، میں ایمانداری سے ان کی خواہش کا احترام کرتی ہوں‘۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’ہاں! سجل علی ایک لباس دوبارہ بھی پہن لیتی ہیں لیکن آپ سب لوگ بھی تو ایک ایک کا لباس یاد رکھتے ہیں، یہ روش سجل علی سے زیادہ آپ کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتی ہے‘۔
ایک صارف نے شکوہ کیا کہ ’سجل علی بہت معصوم اور مہربان طبیعت کی مالک ہیں لیکن ہر دوسرے دن عجیب و غریب وجوہات کی بناء پر کوئی نہ کوئی اُن کے پیچھے پڑا ہوتا ہے، ، براہِ کرم کوئی بہتر شوق تلاش کریں اور اس لڑکی کو جینے دیں‘۔
ایک صارف نے نشاندہی کی کہ ’یہ پہلا موقع نہیں جب کسی اداکارہ نے ڈرامے میں شادی کے سین کیلئے اپنی حقیقی زندگی کے عروسی لباس کا استعمال کیا ہو، اداکارہ نیمل خان بھی پہلے ایسا کرچکی ہیں، پھر لوگ سجل کے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں‘۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سجل علی نے اپنی منگنی کا جوڑا دہرایا ہو، اس سے قبل وہ اپنی منگنی کا جوڑا ولیمہ کی تقریب میں بھی دوبارہ پہن کر مرکزِ نگاہ بن گئی تھیں۔
یاد رہے کہ سجل علی اور احد رضا میر نے مارچ 2020 میں شادی کی تھی لیکن 2022 میں ان کی طلاق کی افواہوں نے اُن کے مداحوں کا دل توڑ کر رکھ دیا۔
طلاق کے باضابطہ اعلان کی بجائے یہ جوڑا خاموشی سے علیحدہ ہوگیا، البتہ راہیں جدا کرنے کے بعد سجل اور احد کو کئی مواقعوں پر ایک ساتھ دیکھا گیا لیکن یہ ساتھ صرف وقتی طور کا تھا اور اب یہ دونوں فنکار اپنی اپنی زندگی میں موو آن کرچکے ہیں۔
سجل علی کے آنے والے ڈرامے ’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں ان کی منگنی کا جوڑا واحد چیز نہیں جو انکی احد رضا میر سے شادی کی یاد تازہ کرتا ہے بلکہ اداکارہ کے سابق سسر آصف رضا میر بھی ڈرامے کی کاسٹ کا حصہ ہیں۔