کوئی شک نہیں بھارت کے حملے کا جواب دیں گے، پاکستان کا دنیا کو واضح پیغام
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
امریکا میں تعینات پاکستان کے سفیر اور برطانیہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر نے واضح کیا ہے کہ پاکستان بہر صورت بھارت کے حملے کا بھرپور جواب دے گا۔
نجی ٹی وی کے مطابق امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا ہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بغیر کسی ثبوت بھارت کی جانب سے جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا، بھارتی جارحیت لاقانونیت پر مبنی رویے کی عکاسی کرتی ہے۔
رضوان سعید نے امریکی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے بھرپور دفاعی کارروائی کی، پاک فوج قومی مفاد میں بھارت کو جواب ضرور دے گی۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری نے پاکستان کی جانب سے پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف انکوائری کے مطالبے کا خیر مقدم کیا تھا۔
بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے بھرپور دفاعی کارروائی کی، قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں یہ بات واضح ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت پاکستان جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان اپنی مرضی اور اپنے وقت پر جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے، پاکستان امن پسند قوم ہے اور وقار کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔
عالمی برادری کو جموں و کشمیر کے متنازع مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دنیا کی بڑی طاقت ہونے کے ناطے امریکا اور صدر ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کی توقع رکھتے ہیں، پاکستان اور بھارت کی ایک ارب 60 کروڑ آبادی مسئلہ کشمیر سے متاثرہوتی ہے، لہٰذا اس مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ضروری ہے۔
برطانیہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر کا دو ٹوک پیغام
برطانیہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھارت کےحملےکا جواب دے گا۔
برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ پاکستان امن چاہتا ہے اور یہ اس کی اولین ترجیح بھی رہی ہے، پہلگام واقعےکی بین الاقوامی تحقیقات کے لیے پاکستان تیار تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر بھارت نے میزائل داغے، اب ان سے کیسے پہلگام واقعے پر تحقیقات کے لیے تعاون کریں؟ اس مسئلہ کا واحد حل مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہے۔
برطانیہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ بھارت نے سارک سمیت سندھ طاس معاہدے کو ختم کر دیا، جو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، پاکستان حملے کا بدلہ ضرور لے گا۔
واضح رہے کہ 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب، اندھیرے میں پاکستان کے شہری علاقوں پر حملہ کرکے طبل جنگ بجادیا تھا۔
بھارتی حملے کے بعد پاکستان کی مسلح افواج نے بزدلانہ حملے کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے 3 رافیل طیاروں سمیت 5 جنگی طیارے مارے گرائے، جب کہ ایک بریگیڈ ہیڈکوارٹر سمیت متعدد فوجی چیک پوسٹوں کو تباہ کردیا تھا، بھارتی فوج نے ایل اوسی کے چورا کمپلیکس پر سفید جھنڈ الہرا کر شکست تسلیم کرلی تھی۔
اس کے علاوہ قومی سلامتی کمیٹی نے پاک فوج کو جوابی کارروائی کے لیے اجازت اور مکمل اختیارات دے دیے ہیں، پاکستان نے بھارت کے حملے کا بھرپور جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: برطانیہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر کہ پاکستان نے کہا کہ بھارت کے حملے کا
پڑھیں:
دنیا کی صلیب پر لٹکی ہوئی انسانیت
جب میں یہ سطور لکھ رہی ہوں، اس وقت دنیا کے کسی کونے میں ایک بچہ ملبے کے نیچے کراہ رہا ہے،کہیں ایک ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کی لاش کو سینے سے لگا کر بین کر رہی ہے اورکہیں کسی بوڑھے کی آنکھوں میں وہ سوال ہے جو صدیوں سے انسانیت سے پوچھا جا رہا ہے ’’ آخر ہمارا قصورکیا تھا؟‘‘ لیکن جواب دینے والے سب طاقتور، سب عالمگیر ضمیر کے ٹھیکے دار ، سب ادارے خاموش ہیں۔ یہ خاموشی ہماری دنیا کا سب سے بڑا المیہ بن چکی ہے۔
اس وقت اگر ہم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو ہر خطہ چیخ رہا ہے، ہر براعظم میں کوئی نہ کوئی آتش فشاں پھٹ رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین کی سرزمین خون سے تر ہے۔ غزہ کی گلیوں میں وہ چیخیں گونجتی ہیں جنھیں سننے کے لیے اقوام متحدہ کے کان بہرے ہو چکے ہیں۔ بچوں کی لاشیں تباہ شدہ اسکول بمباری سے ملبہ ہوئے گھر اور پانی کے لیے ترستی بستیاں یہ سب آج کے مہذب دور میں ہو رہا ہے۔
امریکا جو کبھی دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار بننے کا دعویٰ کرتا تھا، وہ آج اسرائیل کو ہتھیار مہیا کر کے اس نسل کشی کا حصہ بن چکا ہے۔ کانگریس میں اگر کوئی سیز فائرکا لفظ بول دے تو وہ غدار قرار پاتا ہے۔ عالمی میڈیا جو کبھی سچ کی تلاش میں ہراول دستہ کا کام کیا کرتا تھا وہ اب طاقتوروں کی زبان بولتا ہے۔ بی بی سی اور سی این این کی اسکرینوں پر بمباری کے مناظر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی ویڈیو گیم ہو۔ گویا انسانی زندگی ایک تماشہ بن چکی ہے۔
یوکرین اور روس کی جنگ نے یورپ کو اقتصادی طور پر جھنجھوڑ دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان دونوں ممالک کی جنگ میں بھی سچ صرف طاقتور کے منہ سے نکلتا ہے۔ نیٹوکا کردار متنازع ہے اور روس کا رویہ جارحانہ۔ دونوں اطراف انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں۔ ہزاروں نوجوان جو صرف اپنی سرزمین سے محبت کرتے تھے توپوں کی خوراک بن گئے، لیکن عالمی طاقتوں کا ضمیر سکون سے سو رہا ہے کیونکہ ان کی معیشتیں جنگوں سے ہی تو پروان چڑھتی ہیں۔
افریقہ کے کئی ممالک میں فوجی بغاوتوں کی نئی لہر آئی ہے۔ مالی نائجر اور چاڈ جیسے ممالک ایک بار پھر بندوقوں کے رحم و کرم پر آ گئے ہیں۔ جمہوریت کا خواب ایک بار پھر دور ہوتا جا رہا ہے۔ اقوامِ عالم کو ان مظلوم خطوں کے عوام کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہاں تیل یا گیس کے ذخائر نہیں نہ ہی وہ مارکیٹس ہیں جہاں بڑی طاقتیں اپنی مصنوعات بیچ سکیں۔ اس لیے ان کی اذیتیں کسی کو نظر نہیں آتیں نہ ہی کوئی ان پر رپورٹنگ کرتا ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان معاشی سرد جنگ تیز ہو چکی ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ دو طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے آ چکی ہیں۔ تائیوان کو لے کر جو کشیدگی بڑھ رہی ہے، اس سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ لیکن اس تمام جھگڑے میں سب سے زیادہ متاثر وہ عام لوگ ہوں گے جن کا نہ تائیوان کے آئینی موقف سے کوئی لینا دینا ہے نہ ہی وہ ون چائنا پالیسی کے پیچیدہ مباحث سے واقف ہیں۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جنگ کا مطلب موت ہے، بھوک ہے، بے گھر ہونا ہے۔
اسی دوران برطانیہ میں اسلاموفوبیا نے نئی شکل اختیارکی ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں انسان کے بنیادی حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہے، آج مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر نفرت کا سامنا ہے۔ یورپ میں مہاجرین کے خلاف جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ سمندروں میں ڈوبتے ہوئے وہ لوگ جو صرف ایک محفوظ زندگی چاہتے ہیں، ان کے لیے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ انسانی ہمدردی اب پاسپورٹ اور ویزے کی محتاج ہو چکی ہے۔
اور ہندوستان جسے کبھی جمہوریت کی سب سے بڑی تجربہ گاہ کہا جاتا تھا، وہاں آج مسلمانوں کے ساتھ سلوک کسی بھی مہذب سماج کے لیے شرم کا باعث ہونا چاہیے۔ ایک ملک جوگاندھی نہرو اور امبیڈکرکی تعلیمات پر فخرکرتا تھا، آج ہندوتوا کے پرچم تلے اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہا ہے۔ عدالتیں خاموش، میڈیا، اندھا اور عوامی ضمیر بے حس ہو چکا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے لاپتا ہونے کی خبریں اب کسی اخبار کی شہ سرخی نہیں بنتیں۔ گویا ظلم معمول بن چکا ہے اور معمول ہی سب سے بڑا جرم ہوتا ہے۔
ایران اور افغانستان میں خواتین کی آواز کو دبانے کے نئے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں بچیاں اسکول نہیں جا سکتیں، ایران کی خواتین اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو انھیں فساد فی الارض قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن عالمی برادری کی زبانیں تب کھلتی ہیں جب ان ممالک کے حکمران مغرب کے مخالف ہوں، اگر وہ مغرب نواز ہوں تو انسانی حقوق کا ذکر بھی جرم بن جاتا ہے۔
یہ کیسی دنیا ہے جہاں جمہوریت صرف اس وقت اچھی لگتی ہے جب وہ ہماری ترجیحات کے مطابق ہو؟ انسانی حقوق صرف وہی ہوتے ہیں جن سے ہماری تجارت کو فائدہ ہو؟ کیا اقوام متحدہ واقعی اقوام کی نمایندہ ہے یا صرف طاقتوروں کا کلب بن چکی ہے؟ کیا عالمی عدالتِ انصاف واقعی انصاف کا ادارہ ہے یا صرف ان مقدمات کو سنتی ہے جو مغرب کی مرضی کے مطابق ہوں؟
ان تمام سوالوں کے درمیان اگرکوئی چیز باقی ہے تو وہ عام انسان کی ہمت اس کی مزاحمت اور اس کی امید ہے۔ فلسطین کی ماں جب ملبے میں دبے بچے کو اٹھاتی ہے اورکہتی ہے ہم ہارے نہیں تو وہ پوری انسانیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ یوکرین کا وہ رضاکار جو زخموں سے چور ہو کر بھی اسپتال میں بچوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے وہ اس دنیا کی آخری کرن ہے۔ ایرانی لڑکیاں جو کتابوں کو سینے سے لگائے سڑکوں پر نکلتی ہیں وہ آنے والے وقت کی نوید ہیں۔
اس وقت ہمیں صرف مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، بغیر اس کے مذہب رنگ نسل قومیت یا ریاستی شناخت کو دیکھتے ہوئے۔ ہمیں اپنی ہمدردی کو عالمی بنانا ہو گا کیونکہ آج جو ظلم کسی اور کے دروازے پر ہو رہا ہے وہ کل ہمارے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ ہمیں ان مظلوموں کی آواز بننا ہے جن کے پاس میڈیا نہیں جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ نہیں بن سکتے جو اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر نہیں آتے۔
ہمیں دنیا کو بدلنا ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے ایک فرض ہے۔ ہمیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے چاہے وہ اسرائیل کرے یا حماس روس کرے یا نیٹو امریکا کرے یا چین ایران کرے یا بھارت۔ کیونکہ جب ہم ظلم کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہم اس کے شریک ہو جاتے ہیں۔
یہ دنیا یہ زمین سب انسانوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ اسے خون سے نہیں محبت سے سینچنے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو لفظ سے محبت کرتے ہیں جو سچ کے لیے قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں اور جو جانتے ہیں کہ خاموشی سب سے بڑا گناہ ہے۔
اس کالم میں، میں نے دنیا بھر میں جاری ظلم اور بے حسی کا ذکر کیا ہے۔ کوشش یہی ہے کہ ان زخموں پر صرف مرہم نہ رکھا جائے بلکہ ان کے پیچھے چھپے اسباب کو بے نقاب کیا جائے۔ آیندہ کالموں میں ایک ایک کر کے ان حالات ان سانحات اور ان چپ رہنے والوں پر تفصیل سے بات کرنے کا ارادہ ہے کہ سچ کہنا سچ سننا اور سچ لکھنا ہی اس دور میں سب سے بڑی مزاحمت ہے۔