مقبوضہ کشمیر میں حملے سے متعلق خبروں میں صداقت نہیں، سیکیورٹی ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
پاکستان کے سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حملے سے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
یاد رہے کہ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے خبر دی تھی کہ جمعرات کو مقبوضہ کشمیر کے جموں شہر میں 2 بڑے دھماکوں اور سائرن کی آوازیں سنی گئیں جس کے ساتھ ہی پورے شہر میں بلیک آؤٹ ہو گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی خبر میں بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے جموں میں شدید دھماکوں کی آوازیں سنائی دی ہیں۔ اکھنور، سامبا،کٹھوعہ اور دیگر علاقوں میں دھماکے ہوئے۔ تاہم پاکستان کے سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حملے سے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مقبوضہ جموں.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کے خلاف مودی حکومت کی کارروائیوں سے نوجوان صحافیوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا
ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نوجوان صحافیوں کو شدید بحران کا سامنا ہے جو حکومتی دبائو کے باعث بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا شکار ہیں اور اس سے علاقے کی ایک وقت کی متحرک پریس بالکل خاموش ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ نئے آنے والے نوجوانوں کو بہت سے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں قابل عمل اور آزاد روزگار کے پلیٹ فارمز کا فقدان شامل ہے، نگرانی کا ماحول، صحافیوں پر کالے قوانین کو لاگو کرنا اور پریس کی آزادی میں کمی ایک معمول بن چکا ہے۔ بحران اتنا سنگین ہے کہ نئے طلباء اس پیشے سے وابستہ ہونے سے کتراتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کا کہنا ہے کہ صحافت کے شعبہ جات میں اندراج کی شرح خطرناک حد تک کم ہوئی ہے، صرف 25 سے 30 طلباء سالانہ اپنی ڈگریاں مکمل کر پاتے ہیں۔ وہ انتہائی محدود پیشہ ورانہ مواقع، شدید دبائو کے باعث شعبے کے گرتے ہوئے وقار اور فائدے سے زیادہ بڑھتی ہوئی تعلیمی لاگت کو اس کمی کی بنیادی وجوہات قرار دے رہی ہیں۔