پاکستان صرف اصلاحات نہیں کر رہا بلکہ خود کو تبدیل کر رہا ہے، وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان صرف اصلاحات نہیں کر رہا بلکہ خود کو تبدیل کر رہا ہے، یہ کاروبار کے لیے کھلا ہے اور یہ سرمایہ کاروں کے لیے انتہائی موزوں ہے۔
انہوں نے یہ بات لندن میں منعقدہ ایک اسٹریٹجک اجلاس کے دوران کہی، جس میں عالمی سطح کے ممتاز سرمایہ کاروں نے شرکت کی۔ ان میں آمُنڈی کے ایمرجنگ مارکیٹس فکسڈ انکم پورٹ فولیو مینیجر اولیور ولیمز اور لائنز ہیڈ گلوبل پارٹنرز کی ماڈ لی موئن شامل تھے۔
اجلاس میں پاکستان کی معیشت، اصلاحات کے ایجنڈے اور مستقبل کی سرمایہ کاری کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے پاکستان کی میکرو اکنامک بحالی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جس میں کلیدی کامیابیوں کا ذکر کیا گیا جن میں 3.
انہوں نے کہا کہ یہ اشارے نہ صرف معیشت کے استحکام کا باعث بنے ہیں بلکہ خودمختار کریڈٹ ریٹنگز میں بہتری اور کثیر الجہتی و دو طرفہ شراکت داروں کے اعتماد میں اضافے کا سبب بھی بنے ہیں۔
بات چیت کے دوران وزیر خزانہ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اصلاحات کے راستے پر پُرعزم ہے اور وہ ایک ایسی معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے جو صرف کھپت پر نہیں بلکہ برآمدات اور پیداوار پر مبنی پائیدار ترقی پر مرکوز ہو۔
انہوں نے نئے ٹیکس اصلاحات کا ذکر کیا جن کا مقصد رئیل اسٹیٹ، ہول سیل، ریٹیل اور زرعی شعبوں کو رسمی نیٹ میں لانا ہے، جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو مکمل ڈیجیٹائز کرنے پر بھی کام جاری ہے تاکہ انسانی مداخلت کم ہو اور بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہو۔
وزیر خزانہ نے حکومت کی شعبہ جاتی تنوع کی حکمت عملی کو اجاگر کیا اور آنے والی منرلز کانفرنس اور تانبے کے تاریخی معاہدے کا ذکر کیا، جو 2028ء تک سالانہ 2.8 ارب ڈالر کی برآمدات میں معاون ثابت ہوگا۔
انہوں نے ڈیجیٹل معیشت کی کامیابی پر بھی روشنی ڈالی، جہاں پاکستان اب آئی ٹی فری لانسنگ میں دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے، اور اس بات پر زور دیا کہ ڈیجیٹل تبدیلی ایک جامع اور منصفانہ ترقی کو ممکن بناتی ہے۔
انہوں نے شرکاء کو حکومت کی پانڈا بانڈ جاری کرنے کی منصوبہ بندی، فعال قرضہ جات انتظامی حکمت عملی اور مڈٹرم ڈیٹ مینجمنٹ اسٹریٹجی (MTDS) کے آئندہ اقدامات پر بھی بریف کیا۔ اجلاس میں ریاستی اداروں کی تنظیم نو (ویو 5)، پنشن اصلاحات، اور مالی سال 2026 میں متوقع ESG بانڈ کے اجراء پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
آمُنڈی، جو دنیا کے 10 بڑے اثاثہ منیجرز میں سے ایک ہے اور جس کے زیر انتظام 2 ٹریلین یورو سے زائد اثاثے ہیں، نے پاکستان کے خودمختار مالیاتی آلات اور ESG ہم آہنگ سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اعادہ کیا۔
اولیور ولیمز نے پاکستان کی میکرو اکنامک سمت کی وضاحت اور اعتبار کو سراہا اور آئندہ بانڈز کے اجرا میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔
لائنز ہیڈ گلوبل پارٹنرز کی ماڈ لی موئن، جو ابھرتی ہوئی منڈیوں کی مشاورت میں مہارت رکھتی ہیں نے پاکستان کی سرمایہ کاروں سے روابط، کریڈٹ ریٹنگ اداروں سے مشغولیت، اور توانائی کے شعبے کی ماڈلنگ کو بہتر بنانے کے لیے تکنیکی معاونت کی پیشکش کی۔
لائنز ہیڈ نے پاکستان کی MTDS حکمت عملی میں شراکت جاری رکھنے کی بھی خواہش ظاہر کی۔ وزارت خزانہ نے اس پیشکش کو سراہا اور واضح کیا کہ کسی بھی مشاورتی شمولیت کا فیصلہ عوامی خریداری کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوگا۔
اجلاس کے دوران وزیر خزانہ اورنگزیب نے سرمایہ کاروں کے تمام سوالات کا کھلے دل سے جواب دیا۔ پاکستان کی آبی پالیسیوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کہا کہ خودمختار آبی حقوق کی معطلی ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ حکومت جامع ترقی کے عزم پر قائم ہے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) آئندہ بجٹ میں بھی جاری رہے گا۔
اجلاس کے اختتام پر، وزیر خزانہ نے قابل تجدید توانائی، معدنیات، آئی سی ٹی، الیکٹرک وہیکلز اور موسمیاتی لچک دار انفرااسٹرکچرمیں ابھرتے مواقع کو اجاگر کیا اور کہا کہ پاکستان کی اقتصادی بحالی اب کوئی امکان نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جسے عالمی منڈیاں اور ادارے تسلیم کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے پاکستان کی سرمایہ کاروں انہوں نے پر بھی کر رہا
پڑھیں:
ایٹم بم پھٹنے کے ہولناک اثرات
دنیا میں انسان نے جتنی ترقی کی ہے اتنے ہی خطرناک ہتھیار بھی ایجاد کرلئے ہیں۔ ان میں سب سے تباہ کن ہتھیار ایٹم بم ہے۔ اگرچہ یہ ہتھیار جنگی مقاصد کے لیے بنایا گیا مگر اس کے اثرات صرف دشمن فوج یا عسکری اہداف تک محدود نہیں رہتے بلکہ شہری آبادی، نسلوں، ماحول اور انسانیت پر اس کے دیرپا اور ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگرایٹم بم کسی آبادی میں پھٹ جائےتو اسکے اثرات تصورسے زیادہ ہولناک ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے زبردست روشنی اور حرارت پیدا ہوتی ہے جو ہزاروں ڈگری سینٹی گریڈ پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس حرارت کی وجہ سے قریبی انسان، جانور، درخت، عمارتیں، سب کچھ راکھ بن جاتے ہیں۔ جو لوگ کچھ فاصلے پر ہوتے ہیں وہ یا تو جھلس جاتے ہیں یاشدید زخمی ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک زوردار دھماکہ خیز لہر (blast wave) آتی ہے جو کئی کلومیٹر کے دائرے میں عمارتوں کو زمین بوس کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تابکاری (radiation) کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ نظر نہ آنے والی زہریلی توانائی انسانی جسم کے خلیوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ متاثرہ افراد کو الٹی، بخار، بال جھڑنے، جلد کا سیاہ ہونا، اندرونی خون بہنا اور دیگر مہلک علامات لاحق ہو جاتی ہیں۔ بعض افراد فوری موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ کینسر یا دیگر بیماریوں سے مرتے ہیں۔
ایٹمی حملے کے صرف فوری اثرات ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے طویل المدتی نتائج بھی تباہ کن ہوتے ہیں۔ تابکاری زمین، پانی اور ہوا کو آلودہ کر دیتی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں کئی سال تک فصلیں نہیں اگتیں، جانور بیمار ہو جاتے ہیں، اور انسانوں میں جینیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آئندہ نسلوں میں معذوری، دماغی کمزوری اور پیدائشی نقائص دیکھنے میں آتے ہیں۔یہ سب صرف نظریاتی خطرات نہیں بلکہ 1945 ء میں جاپان پر ہونے والے دو ایٹمی حملے ان کا عملی ثبوت ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے۔6 اگست 1945 ء کو امریکہ نے ہیروشیما پر “Little Boy” نامی یورینیم بم گرایا۔ اندازا 70,000 لوگ فورا ہلاک ہو گئے۔ اگلے چند دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں مزید ہزاروں افراد تابکاری، زخموں اور بیماریوں سے مر گئے۔ شہر کا 90 فیصد حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔9اگست 1945 ء کو ناگاساکی پر “Fat Man” نامی پلوٹونیم بم گرایا گیا، جس سے تقریبا ً40,000 افراد فوری طور پر ہلاک ہو گئے اور بعد میں مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچی۔ دونوں شہروں میں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی، معاشی اور سماجی تباہی کئی دہائیوں تک جاری رہی لیکن آج جو ایٹمی ہتھیار دنیا کے کچھ ممالک بشمول پاکستان اور بھارت کے پاس ہیں ان کی طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے درجنوں یا سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ جدید نیوکلیئر ہتھیار نہ صرف بڑے علاقے کو آنِ واحد میں تباہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کے بعد آنے والی تابکاری، ماحولیاتی آلودگی اور ’’نیوکلیئر ونٹر‘‘ جیسے اثرات پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔جدید تھرمو نیوکلیئر بم جب پھٹتے ہیں تو وہ تقریبا 28 ملین ڈگری سینٹی گریڈ (یعنی تقریبا 50 ملین ڈگری فارن ہائٹ) تک حرارت پیدا کرتے ہیں جو سورج کے مرکز کے درجہ حرارت جتنا یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
تھرمو نیوکلیئر بم دو مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے کو ’’فشن‘‘ کہا جاتا ہے جس میں ایک عام ایٹم بم جیسا دھماکہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یورینیم یا پلوٹونیم کے ایٹمز کو توڑ کر بے پناہ توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ یہ توانائی دوسرے مرحلے یعنی ’’فیوژن‘‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹمز کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے اور اس عمل سے کئی گنا زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو کائنات کے خالق و مالک اللہ رب العزت نے سورج میں پیدا کیا ہے۔ تھرمو نیوکلیئر بم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا دائرہ اثر سینکڑوں کلومیٹر تک پہنچ جاتاہے۔اس میں پیداہونے والی تابکاری، شدیدحرارت، جھٹکا اوردبائو چاروں انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کی تباہی کا دائرہ محض ایک شہر تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے ملک کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس خوفناک دھماکے سے بچ جانے والے افراد شدید تابکاری کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجےمیں انہیں کینسر،جسمانی و ذہنی بیماریاں، جلدکا جھلس جانا اور جینیاتی خرابیاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بم سے اٹھنے والے دھوئیں اور راکھ کی موٹی تہہ سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیتی ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور دنیا بھر میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جسے جوہری سردی یا نیوکلیئر ونٹر کہا جاتا ہے۔
جاپان پر کئےگئے حملوں کے بعد دنیا کو پہلی بار ایٹمی ہتھیاروں کی ہولناکی کا احساس ہوا۔ تب سے لے کر آج تک دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیار تو بنائے گئے، تجربات بھی ہوئے، مگر کسی ملک نے دوبارہ کسی دوسرے ملک پر ایٹم بم استعمال نہیں کیا۔ یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ایٹمی جنگ کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔دنیا میں اب نو ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ہیں جن میں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس، بھارت، پاکستان، اسرائیل (غیر رسمی طور پر) اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ممالک کی ایٹمی صلاحیت نے ایک توازن پیدا کر رکھا ہے مگر یہ توازن بہت نازک ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو لاکھوں افراد فوری ہلاک ہو سکتے ہیں اور اس کے بعد کے اثرات پورے برصغیر بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔ تابکاری، ماحولیاتی تبدیلی، غذائی قلت، اور عالمی معیشت پر شدید اثرات پڑ سکتے ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات کو دیکھتےہوئےدنیا میں کئی معاہدے اور کوششیں کی جا رہی ہیں جیسے NPT (Non-Proliferation Treaty) اور CTBT (Comprehensive Test Ban Treaty)، مگر بدقسمتی سے ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ طاقتور ممالک اپنے مفادات کی خاطر ان معاہدوں کو نظرانداز کرتے ہیں جس سے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو جاری ہے۔انسانیت کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ کسی روایتی جنگ سے نہیں بلکہ ایٹمی جنگ سے ہے۔ اس لیے تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاع کے نام پر ایسے ہتھیاروں کی دوڑ سے باہر نکلیں اور پائیدار امن کی کوشش کریں۔