بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ مسلم دنیا کے خلاف سازش ، بڑی طاقتیں دوہرے معیار چھوڑیں، مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر قومی اسمبلی کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں فاتح قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی جہاز اور متعدد ڈرونز مار گرائے ہیں، جو پاکستانی دفاعی صلاحیت اور فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جنگی حکمت عملی بنانا اور اس پر عملدرآمد فوج کا کام ہے، سیاستدانوں کو اس معاملے میں محتاط رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، “فوج پر بلاوجہ تنقید کرنے والے اپنی حب الوطنی کو مشکوک بناتے ہیں۔ اس وقت تنقید کی نہیں بلکہ اتحاد کی ضرورت ہے۔”
انہوں نے کہا کہ پاک فوج کی کارکردگی قابل تحسین ہے، اور قوم کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بے وقت اور غیر ذمہ دارانہ تنقید سے فوج کا حوصلہ متاثر ہوتا ہے، جس کا براہ راست اثر ملکی دفاع پر پڑتا ہے۔
مولانا کا کہنا تھا کہ بھارت نے روایتی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہری آبادی اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا، جبکہ پاکستان نے اخلاقی اور عسکری محاذ پر بھارت کو بھرپور جواب دیا۔ انہوں نے کہا، “رافیل جہاز گرنے کے بعد فرانس میں تشویش پائی جا رہی ہے، جو پاکستان کی فوجی کامیابی کی دلیل ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ واضح ہو چکا ہے، اور یہ اتحاد مسلم دنیا کے خلاف ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ صرف اسلحے سے نہیں بلکہ حوصلے سے جیتی جاتی ہے، اور پاک فوج کی بہادری نے پوری قوم کو حوصلہ دیا ہے۔
فضل الرحمان نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی اور دعویٰ کیا کہ کچھ بھارتی چوکیاں اب پاکستان کے قبضے میں آ چکی ہیں، جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔ انہوں نے کہا، “اس وقت تک پاکستان کو جگہ جگہ فتوحات حاصل ہوئی ہیں، اور بھارت جھوٹ بول کر اپنی شرمندگی کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ بھارت کے خلاف بیانیہ کی جنگ میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی ہے، اور عالمی برادری بھارت کے جھوٹ سے واقف ہو چکی ہے۔ مولانا نے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ پہلگام واقعے کی آزاد اور شفاف تحقیقات کروائی جائیں۔
مولانا فضل الرحمان نے امریکہ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اگر امریکہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام پر حق بجانب سمجھتا ہے تو اسے صدام حسین اور قذافی کے خلاف کی گئی کارروائیوں پر بھی وضاحت دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی طاقتوں کا دوہرا معیار اور خاموشی ریاستی دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔
پی ٹی آئی کے حوالے سے سوال پر مولانا نے کہا کہ اگر عدالت بانی پی ٹی آئی کو پیرول پر رہا کرنے کا فیصلہ کرے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ عدالتی معاملہ ہے، جس پر وہ کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی طور پر کسی بھی سیاستدان کو غیر ضروری طور پر جیل میں رکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔
اختتام پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت قوم کا سر فخر سے بلند ہے، اور پاک فوج کی قربانیوں کی بدولت پاکستان کو مسلسل کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ انہوں نے پوری قوم سے اپیل کی کہ وہ فوج کے پیچھے متحد ہو کر ملک کے دفاع کو یقینی بنائیں۔
Post Views: 7.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان انہوں نے کہا کہ فضل الرحمان نے بھارت کے کے خلاف کیا کہ فوج کی
پڑھیں:
استنبول میں مسلم ممالک کا ہنگامی اجلاس: غزہ اور ایران پر اسرائیلی جارحیت عالمی امن کیلیے خطرہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ترکیہ کے شہر استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس ہوا، جس میں مسلم دنیا کو درپیش بحرانوں اور مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ خصوصاً فلسطین اور ایران پر اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
اہم اور ہنگامی اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ اور اعلیٰ سفارتی نمائندوں کی توجہ کا مرکز ایران اور فلسطین کی حالیہ صورتحال ہے، جہاں اسرائیل کی جانب سے مسلسل حملوں سے خطے کو خطرات لاحق ہیں اور یہ معاملہ عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔
اجلاس میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اور پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار سمیت 40 سے زائد مسلم ممالک کے مندوبین شریک ہیں۔
خطے کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین اس اجلاس کو ایک اہم موقع قرار دے رہے ہیں، جہاں مسلم دنیا کو یک زبان ہوکر اپنے اجتماعی مؤقف کو عالمی سطح پر مضبوطی سے پیش کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔ خاص طور پر اسحاق ڈار اور عباس عراقچی کا ایک ہی صف میں بیٹھنا خطے میں ممکنہ تعاون اور سفارتی مکالمے کی علامت تصور کیا جا رہا ہے۔
اجلاس میں گفتگو کا محور ایران اور اسرائیل کے درمیان تیزی سے بڑھتی کشیدگی اور غزہ میں فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں واضح انداز میں اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے دانستہ طور پر اشتعال انگیز اقدامات کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف 15 جون سے محض 2 روز قبل اسرائیلی حملہ دراصل سفارتکاری کے دروازے بند کرنے کی سازش تھی، جسے عالمی برادری نظر انداز نہیں کر سکتی۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ نے بھی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ کے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں مسلمان مشکلات سے دوچار ہیں اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اسرائیلی جارحیت کے خلاف متفقہ آواز بلند کریں۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف ایران یا غزہ تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب پوری مسلم دنیا کے وجود اور وقار کا سوال بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی کارروائیاں خطے میں مکمل تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔
اجلاس کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان کا خطاب سب کی توجہ کا مرکز رہا۔ انہوں نے اسرائیلی پالیسیوں کو کھلی جارحیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی بحران سنگین ہو چکا ہے۔ لاکھوں فلسطینی نہ صرف بے گھر ہوئے بلکہ شدید بھوک، افلاس اور طبی قلت کا شکار ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی موجودگی میں مشرقِ وسطیٰ میں امن کا قیام ممکن نہیں اور بین الاقوامی طاقتیں اس جارحیت کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
صدر اردوان نے کہا کہ او آئی سی کا یہ اجلاس صرف رسمی کارروائی نہیں بلکہ مسلم دنیا کی بقا اور وقار کا امتحان ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ اجلاس ایسے فیصلوں کا پیش خیمہ ثابت ہو گا جو مظلوم مسلمانوں کی آواز بنیں گے اور عالمی منظرنامے پر مسلم اتحاد کو نئی طاقت دیں گے۔
واضح رہے کہ استنبول میں منعقدہ یہ اجلاس ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایسے میں او آئی سی کا اتحاد، مشترکہ لائحہ عمل اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف متفقہ موقف اپنانا نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ اجلاس میں شریک ممالک کی گفتگو سے یہ تاثر نمایاں ہو رہا ہے کہ مسلم دنیا اب مزید خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہتی بلکہ عملی اقدام کی طرف بڑھنے کو تیار ہے۔