پاکستان بھارت کو کب اور کیسے جواب دے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور دونوں ممالک ایک ممکنہ تصادم کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ پاکستانی فوج کی جانب سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ بھارت کو اپنے منتخب کردہ وقت اور مقام پر جواب دے گی، جس سے صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایسا جواب دینا چاہتا ہے جس سے بھارت کو نقصان ہو مگر کشیدگی مکمل جنگ کی سطح تک نہ پہنچے۔
الجزیرہ کے مطابق یونیورسٹی آف البینی کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر کلاری نے کہا کہ جنگ ابھی دور ہے، لیکن ہم اس کے کہیں قریب تر آ چکے ہیں۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنانا ممکنہ طور پر اگلا قدم ہو سکتا ہے۔ کلاری نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی ریڈار سسٹمز پر ڈرون حملے اور پاکستان کی جانب سے بھارتی فوجی تنصیبات پر میزائل و ڈرون حملوں کی اطلاعات اس کشیدگی کا ثبوت ہیں۔ان کے بقول اگلے 24 گھنٹوں میں مزید حملوں کا خدشہ ہے اور جانی نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
بھارت کی ایک اور بڑی شکست ، آئی ایم ایف نے دوسری قسط کی منظوری دے دی
نیو لائنز انسٹیٹیوٹ واشنگٹن کے سینئر ڈائریکٹر کامران بخاری نے بھی اس صورتحال کو 2019 کے مقابلے میں زیادہ خطرناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت ایک "کشیدگی کا ایسا چکر جو مسلسل شدت اختیار کرتا جائے" میں پھنس چکا ہے، جہاں پاکستان کے کسی بھی اقدام کے جواب میں بھارت اپنی شدت بڑھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کی یہ پالیسی کہ وہ جواب اپنے وقت پر دے گی، اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں جس سے کشیدگی کو مکمل جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے۔ تاہم اس کا انحصار پاکستان کی صلاحیتوں اور عملی مجبوریوں پر ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ابھی تک براہ راست بات چیت نہیں ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح اعلان کردیا
عالمی مشاورتی ادارے کنٹرول رسکس سے وابستہ عرسلہ جاوید کے مطابق پاکستانی فوج پر عوامی اور سیاسی دباؤ ہے کہ وہ ایک مضبوط اور ٹھوس جواب دے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی فوجی اثاثوں پر درست نشانے والے حملے متوقع ہیں، جن کا مقصد شہری جانی نقصان سے گریز کرتے ہوئے بھارت کو واضح پیغام دینا ہو گا۔ ان کے مطابق ایسے حملے کشیدگی کو محدود رکھتے ہوئے مؤثر جواب کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کی جانب سے بھارت کو کے مطابق
پڑھیں:
لبنانی حکومت کے متنازعہ فیصلے پر حزب اللہ کا سخت جواب
نواف سلام حکومت کیجانب سے ملکی مزاحمت کو غیر مسلح کئے جانے اور قومی خودمختاری کو کمزور بنانیکے فیصلے پر لبنانی مزاحمت نے اس فیصلے کو غیر ملکی آمروں کے زیر اثر انجام پانیوالی ایک "بڑی غلطی" قرار دیا اور اعلان کیا ہے کہ مزاحمت، اس فیصلے کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتی اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے اعلان کیا کہ حکومت ایک "بڑی غلطی" کی مرتکب ہوئی ہے کیونکہ اس نے ایک ایسا فیصلہ اختیار کر لیا ہے کہ جو لبنان کو اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کے ہتھیار سے محروم کر سکتا ہے۔ ملکی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے پر مبنی لبنانی حکومت کے فیصلے کی مذمت میں جاری ہونے والے اپنے بیان میں حزب اللہ لبنان نے تاکید کی کہ یہ اقدام، اسرائیل و امریکہ کی مسلسل جارحیت کے مقابلے میں لبنانی طاقت و حیثیت کو انتہائی کمزور بناتا اور دشمن اسرائیلی رژیم کے لئے ایک ایسی کامیابی لاتا ہے کہ جو وہ لبنان کے خلاف میدان جنگ میں بھی کبھی حاصل نہیں کر سکتا تھا.. ایک ایسی جنگ کہ جس میں حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کو "معاہدہ" کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جس کے تحت جارحیت کو روک دینا اور لبنان سے اسرائیلی انخلاء لازمی قرار پایا تھا۔
حزب اللہ نے اپنے بیان میں تاکید کی کہ یہ فیصلہ "امریکی سفیروں کے حکم" کا نتیجہ ہے جبکہ حکومتی اجلاس میں اس مسئلے کو تجویز کئے جانے کی وجوہات میں بھی یہ بات واضح طور پر ذکر کی گئی ہے۔ لبنانی مزاحمتی تحریک نے تاکید کی کہ حکومت کا یہ اقدام "اسرائیل کے مذموم مفادات کی مکمل طور پر تکمیل" اور لبنان کو دشمن کے خلاف "بغیر ڈھال" کے "نہتا" چھوڑ دینا ہے۔ حزب اللہ نے، لبنانی صدر کی اولین تقریر میں اعلان کردہ "قومی سلامتی کی حکمت عملی پر گفتگو" کی پالیسی کو یکسر نظر انداز کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، حالیہ فیصلے کو "گھٹنے ٹیک دینے کی حکمت عملی" قرار دیا کہ جو لبنانی خودمختاری کا واضح طور پر خاتمہ کرتی ہے اور یاددہانی کروائی کہ وزارتی بیان کے 5ویں پیراگراف میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ "حکومت، طائف میں منظور شدہ قومی معاہدے کی بنیاد پر، پوری مقبوضہ اراضی کو آزاد کروانے، اپنی تمام زمینوں پر خودمختاری کو صرف اور صرف ملکی اندرونی صلاحیتوں کے ذریعے نافذ کرنے اور تمام سرحدی علاقوں پر لبنانی فوج کو مکمل طور پر تعینات کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھانے کا عہد کرتی ہے"۔
لبنانی مزاحمت نے تاکید کی کہ اس مقصد کے لئے لبنان کی ملکی صلاحیتوں و مزاحمتی ہتھیاروں کا تحفظ بھی اسی طرح سے ان اقدامات کا اصلی جزو ہے کہ جس طرح سے قابض صیہونی دشمن کو لبنانی سرزمین سے نکال باہر کرنے کے لئے ملکی فوج کو مضبوط و مسلح کرنا ضروری ہے! اس بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ حزب اللہ اور امل تحریک کے ساتھ منسلک وزراء نے کابینہ کے اس اجلاس سے واک آؤٹ کیا ہے جبکہ یہ اقدام اس فیصلے کی واضح مخالفت کا اظہار ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا کہ اس فیصلے کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا کہ "گویا اس کا کوئی وجود ہی نہیں" تاہم ساتھ ہی، حزب اللہ، غیر جارحانہ حالات میں قومی سلامتی پر گفتگو کو بھی تیار ہے۔ اپنے بیان کے آخر میں لبنانی مزاحمتی تحریک نے ملکی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ صرف "موسمی گرد و غبار" ہے جو عنقریب گزر جائے گا جبکہ صبر اور فتح ہماری خو میں شامل ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ "مزاحمتی محاذ کے بتدریج تخفیف اسلحہ" پر مبنی امریکی ایلچی کی تجویز پر تشکیل پانے والے اعلی سطحی اجلاس میں فیصلہ کرتے ہوئے لبنانی حکومت نے ملکی فوج سے کہا ہے کہ وہ اس مہینے کے آخر تک "اسلحہ جمع کرنے" کا مکمل منصوبہ پیش کرے!