UrduPoint:
2025-09-23@20:21:54 GMT

پاک بھارت لڑائی اور چین کے لیے انٹیلی جنس کے مواقع

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

پاک بھارت لڑائی اور چین کے لیے انٹیلی جنس کے مواقع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مئی 2025ء) سکیورٹی ماہرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی فوجی صلاحتیں اس مقام پر پہنچ چکی ہے، جہاں وہ سرحدی تنصیبات، بحر ہند میں بحری بیڑوں اور خلائی سیٹلائٹس کے ذریعے بھارتی سرگرمیوں کی حقیقی وقت میں گہری نگرانی کر سکتا ہے۔ سنگاپور کے سکیورٹی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل نے کہا، ''انٹیلی جنس کے نقطہ نظر سے، یہ چین کی سرحد پر ایک اہم ممکنہ دشمن کے خلاف نادر موقع ہے۔

‘‘

دو امریکی حکام کے مطابق پاکستانی فضائیہ کے چینی ساختہ جے-10 جنگی طیارے نے کم از کم دو بھارتی فوجی طیاروں کو مار گرایا، جن میں سے ایک فرانسیسی ساختہ رافال لڑاکا طیارہ تھا۔ بھارت نے اپنے کسی طیارے کے نقصان کی تصدیق نہیں کی، جبکہ پاکستان کے وزرائے دفاع و خارجہ نے جے-10 طیاروں کے استعمال کی تصدیق کی لیکن استعمال شدہ میزائلوں یا دیگر ہتھیاروں پر تبصرہ نہیں کیا۔

(جاری ہے)

یہ فضائی جھڑپ دنیا بھر کی فوجوں کے لیے پائلٹوں، جنگی طیاروں اور ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں کی کارکردگی کا مطالعہ کرنے اور اپنی فضائیہ کو جنگ کے لیے تیار کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔

بھارت اور چین کی طویل تزویراتی دشمنی

بھارت اور چین کو، جو ایشیا کی دو بڑے ایٹمی طاقتیں ہیں، طویل المدتی تزویراتی حریف سمجھا جاتا ہے۔

دونوں کے درمیان 3,800 کلومیٹر طویل ہمالیائی سرحد سن 1950 کی دہائی سے متنازع ہے، اور جو سن 1962 میں ایک مختصر جنگ کی بھی وجہ بنی۔ سن 2020 میں شروع ہونے والا سرحدی تناؤ اکتوبر میں ایک معاہدے کے بعد کم ہوا تھا۔

سکیورٹی ماہرین کے مطابق دونوں ممالک نے سرحد پر اپنی فوجی تنصیبات اور صلاحیتوں کو مضبوط کیا ہے لیکن چین کی خلائی نگرانی اسے انٹیلی جنس جمع کرنے میں برتری دیتی ہے۔

لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کے مطابق، چین کے پاس 267 سیٹلائٹس ہیں، جن میں 115 انٹیلی جنس، نگرانی اور جاسوسی کے لیے اور 81 فوجی الیکٹرانک اور سگنلز کی نگرانی کے لیے ہیں۔ یہ نیٹ ورک بھارت سمیت خطے کے دیگر حریفوں سے کہیں بڑا اور صرف امریکہ سے پیچھے ہے۔

نیل، جو ہوائی کے پیسفک فورم تھنک ٹینک کے فیلو ہیں، نے کہا، ''خلائی اور میزائل ٹریکنگ صلاحیتوں کے لحاظ سے چین اب بہت بہتر پوزیشن میں ہے کہ وہ واقعات کو حقیقی وقت میں مانیٹر کر سکے۔

‘‘

چین کی وزارت دفاع نے اپنے فوجی سیٹلائٹس کی تعیناتی یا انٹیلی جنس جمع کرنے کے بارے میں نیوز ایجنسی روئٹرز کے سوالات کا فوری جواب نہیں دیا۔ پاکستان کے فوجی میڈیا ونگ اور وزیر اطلاعات نے بھی چین کے ساتھ معلومات کے اشتراک پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

پاکستان نے ماضی میں کہا تھا کہ اس کی چین کے ساتھ ''ہر موسم میں قائم رہنے والی تزویراتی اور تعاون پر مبنی شراکت داری‘‘ ہے۔

بھارت نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن برطانیہ میں بھارت کے ہائی کمشنر وکرم دوریسوامی نے جمعرات کو اسکائی نیوز کو بتایا کہ چین اور پاکستان کے تعلقات بھارت کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ''چین کو اپنے تمام ہمسایوں، بشمول ہمارے ساتھ تعلقات کی ضرورت ہے۔‘‘ میزائلوں پر گہری نظر

تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ چینی فوجی انٹیلی جنس ٹیمیں بھارت کے فضائی دفاعی نظاموں، کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی تعیناتی، ان کے پرواز کے راستوں، درستی اور کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈیٹا پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔

خاص طور پر بھارت کے براہموس سپرسونک کروز میزائل، جو اس نے روس کے ساتھ مل کر تیار کیا، کی تعیناتی چین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی، کیونکہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسے اب تک جنگی حالات میں استعمال نہیں کیا گیا۔ بحری انٹیلی جنس کی صلاحیت

چین نے بحر ہند میں بھی اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں کو بڑھایا ہے۔ اوپن سورس انٹیلی جنس ٹریکرز کے مطابق، چین نے خلائی ٹریکنگ جہازوں، سمندری تحقیقاتی جہازوں اور ماہی گیروں کی کشتیوں کو طویل مشنوں پر تعینات کیا ہے۔

خطے کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ چینی بحریہ بحر ہند میں جنگی جہازوں کی وسیع تعیناتی سے محتاط رہی ہے اور اسے ابھی بیسز کا وسیع نیٹ ورک میسر نہیں، لیکن یہ دیگر جہازوں کے ذریعے فعال طور پر انٹیلی جنس جمع کرتی ہے۔

گزشتہ ہفتے کچھ ٹریکرز نے نوٹ کیا کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بحیرہ عرب میں بھارتی بحری مشقوں کے مقام سے 120 ناٹیکل میل کے فاصلے پر چینی ماہی گیروں کی کشتیوں کے بڑے بیڑے غیر معمولی طور پر منظم انداز میں حرکت کر رہے تھے۔

پینٹاگون کی رپورٹس اور تجزیہ کاروں کے مطابق، چین کے ماہی گیروں کے بیڑے باقاعدگی سے ایک مربوط ملیشیا کا کردار ادا کرتے ہیں اور یہ بیڑے انٹیلی جنس جمع کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اوپن سورس ٹریکر ڈیمین سائمن نے ایک ایکس پوسٹ میں لکھا کہ یکم مئی کو بھارتی بحری مشقوں کے قریب 224 چینی جہازوں کی تعیناتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''یہ جہاز جاسوسی کے مراکز کے طور پر کام کر سکتے ہیں، پیش رفت کے ماڈلز اور ردعمل کے انداز کو ٹریک کرتے ہیں اور اپنے سرپرستوں کو ابتدائی انتباہ اور بحری انٹیلی جنس فراہم کرتے ہیں۔

‘‘

چینی حکام عام طور پر ماہی گیروں کی ملیشیا یا دیگر برائے نام سول جہازوں کے انٹیلی جنس کردار کو تسلیم نہیں کرتے۔

پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات

پاکستان کے ساتھ گہرے تزویراتی تعلقات کی بدولت، بیجنگ حکومت اپنے سفارت کاروں اور فوجی ٹیموں کے نیٹ ورک کے ذریعے بھی اہم معلومات حاصل کر سکتی ہے۔ سنگاپور میں ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے چینی سکیورٹی اسکالر جیمز چار نے کہا، ''پاکستان کی وزارت دفاع چین سے اپنے جدید ترین فوجی ہارڈویئر درآمد کرتی ہے، اس لیے یہ یقینی ہے کہ پی ایل اے متعلقہ ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکے گی۔‘‘

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انٹیلی جنس جمع سفارت کاروں پاکستان کے کی تعیناتی ماہی گیروں کاروں کا کے مطابق بھارت کے کرتے ہیں کے ساتھ نہیں کی کے لیے چین کے چین کی نے کہا

پڑھیں:

گلوبلائزیشن:پاکستان کے لیے مواقع اور خطرات

محمد آصف

 

گلوبلائزیشن اس عمل کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے دنیا تجارت، ابلاغ، ٹیکنالوجی، ثقافت اور انسانی روابط کے لحاظ سے ایک دوسرے سے زیادہ جڑتی جا رہی ہے ۔ یہ ٹرانسپورٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی تعاون میں ترقی کا نتیجہ ہے ، جس کے ذریعے اشیائ، خدمات، خیالات اور لوگ سرحدوں کے پار پہلے سے کہیں زیادہ آزادانہ طور پر حرکت کر سکتے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں، گلوبلائزیشن نے تقریباً ہر ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی منظرنامے کو بدل دیا ہے ۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ، جو اب بھی معاشی عدم استحکام، حکمرانی کے مسائل اور کمزور انفراسٹرکچر سے دوچار ہے ، گلوبلائزیشن
بیک وقت بے پناہ مواقع اور بڑے خطرات پیش کرتی ہے ۔ پاکستان ان چیلنجز سے کیسے نمٹتا ہے ، یہ اس کی معاشی ترقی، ثقافتی شناخت اور
عالمی مقام پر گہرا اثر ڈالے گا۔گلوبلائزیشن کے سب سے نمایاں مواقع میں سے ایک پاکستان کے لیے تجارت کا فروغ اور معاشی ترقی
ہے۔ بین الاقوامی منڈیوں سے جڑنے کے ذریعے ، پاکستان کی ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات، زراعت اور ابھرتی ہوئی آئی ٹی
سروسز جیسی صنعتیں برآمدات میں نمایاں اضافہ کر سکتی ہیں۔ عالمی تجارت میں شمولیت سے ملک کو نئے صارفین تک رسائی ملتی ہے ، معیشت کو
متنوع بنایا جا سکتا ہے اور چند روایتی منڈیوں پر انحصار کم ہوتا ہے ۔ آزاد تجارتی معاہدے اور علاقائی تعاون کے اقدامات پاکستان کی تجارتی
صلاحیت کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ عالمی معیشت میں انضمام سے غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) بھی آتی ہے ، جو سرمائے ، ٹیکنالوجی اور انتظامی
مہارت کی فراہمی کا ذریعہ بنتی ہے ۔ کثیر القومی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کے ذریعے پاکستان اپنی صنعتوں کو جدید بنا سکتا ہے ، پیداوار میں
اضافہ کر سکتا ہے اور بین الاقوامی خریداروں کے لیے زیادہ مسابقتی مصنوعات تیار کر سکتا ہے ۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی پاکستان کے لیے
گلوبلائزیشن کا ایک اہم فائدہ ہے ۔ خیالات اور ایجادات کے تبادلے سے پاکستان جدید پیداوار کے طریقے اپنا سکتا ہے ، زرعی پیداوار
میں اضافہ کر سکتا ہے اور صحت کے شعبے کو جدید طبی آلات اور سہولیات سے بہتر بنا سکتا ہے ۔ خاص طور پر آئی ٹی سیکٹر عالمی آؤٹ سورسنگ
کے رجحانات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ، جہاں پاکستانی سافٹ ویئر ڈویلپرز، ڈیجیٹل مارکیٹرز اور مواد تخلیق کرنے والے بین الاقوامی کلائنٹس
کے لیے ملک کے اندر رہتے ہوئے کام کر سکتے ہیں۔ یہ مواقع زیادہ آمدنی، بہتر کارکردگی اور ہنر مند افرادی قوت میں اضافے کا باعث
بنتے ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں بین الاقوامی معیار متعارف کراتی ہیں، جو مقامی کاروباروں پر بھی مثبت اثر ڈالتی ہیں۔
گلوبلائزیشن اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دونوں جگہ روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے ۔ پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیاں
مقامی لوگوں کے لیے نوکریاں پیدا کرتی ہیں، جبکہ بیرونِ ملک افرادی قوت کی طلب پاکستانیوں کو ترقی یافتہ معیشتوں میں کام کرنے کے
مواقع فراہم کرتی ہے ۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم معیشت کو سہارا دیتی ہیں اور لاکھوں خاندانوں کی
کفالت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ مزید یہ کہ بیرونِ ملک کام کرنے والے پاکستانی نئی مہارتیں اور تجربات حاصل کرتے ہیں، جو وطن واپسی پر ملکی
ترقی کے لیے قیمتی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ثقافتی تبادلہ اور تعلیم بھی عالمگیریت کے ایسے پہلو ہیں جو پاکستان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ عالمی
میڈیا، تعلیمی تعاون اور ایکسچینج پروگرامز پاکستانی طلبہ اور پروفیشنلز کو دنیا بھر کے مختلف نقطہ نظر اور بہترین عملی تجربات سے سیکھنے کا موقع دیتے
ہیں۔ بین الاقوامی اسکالرشپس اور آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز نے زیادہ پاکستانیوں کے لیے بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا یا ملک میں بیٹھ
کر عالمی معیار کی ڈگریاں لینا ممکن بنا دیا ہے ۔ اس سے نہ صرف تعلیم کا معیار بلند ہوتا ہے بلکہ ایک ایسی افرادی قوت تیار ہوتی ہے جو عالمی
منڈی میں مقابلہ کر سکے ۔ اسی طرح، اگر سیاحت کو عالمی سطح پر بہتر انداز میں فروغ دیا جائے تو پاکستان کے پہاڑ، تاریخی مقامات اور ثقافتی
میلوں کو دنیا کے سامنے پیش کر کے اس شعبے کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ تاہم، گلوبلائزیشن پاکستان کے لیے سنگین چیلنجز بھی لاتی ہے ۔
ایک بڑا مسئلہ معاشی انحصار اور سخت مسابقت ہے ۔ مقامی صنعتیں جو وسائل، ٹیکنالوجی یا مہارت میں پیچھے ہیں، بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتیں۔ درآمدات پر حد سے زیادہ انحصار ملکی پیداوار کو کمزور کر سکتا ہے اور معیشت کو عالمی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر، عالمی منڈی میں تیل یا دیگر اجناس کی قیمتوں میں اچانک اضافہ پاکستان میں زندگی کے
اخراجات اور پیداواری لاگت کو بڑھا دیتا ہے ۔ ثقافتی زوال بھی ایک اہم خطرہ ہے ۔ اگرچہ ثقافتی تبادلہ فائدہ مند ہو سکتا ہے ، مگر غیر ملکی میڈیا
اور طرزِ زندگی کا غلبہ بعض اوقات پاکستان کی روایتی اقدار، زبانوں اور رسوم و رواج کو کمزور کر دیتا ہے ۔ یہ خاص طور پر نوجوان نسل میں دیکھا
جا سکتا ہے ، جو بعض اوقات ایسے رویے اور عادات اپنا لیتی ہے جو ملکی سماجی اور مذہبی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔ اگر اس پر قابو نہ پایا
گیا تو یہ قومی شناخت کو کمزور کر سکتا ہے اور نسلوں کے درمیان اقدار کا فرق پیدا کر سکتا ہے ۔
عدم مساوات بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ گلوبلائزیشن کے ثمرات عموماً پڑھے لکھے ، شہری اور ٹیکنالوجی سے وابستہ لوگوں کو زیادہ ملتے ہیں، جبکہ دیہی اور پسماندہ آبادی پیچھے رہ جاتی ہے ۔ یہ عدم توازن سماجی تقسیم کو بڑھا سکتا ہے اور بے چینی کو جنم دے سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ، ”برین ڈرین” کا رجحان، جس میں ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد مستقل طور پر بہتر مواقع کی تلاش میں بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں، پاکستان کی صلاحیتوں کو کمزور کرتا ہے اور ترقی کی رفتار کو سست کر دیتا ہے ۔عالمی معیشت میں شمولیت پاکستان کو ایسے خطرات سے بھی دوچار کر دیتی ہے جو اس کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ عالمی مالیاتی بحران، تجارتی جنگیں یا بڑی طاقتوں کے درمیان جغرافیائی سیاسی تناؤ پاکستان کی معیشت پر براہِ راست اثر ڈال سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عالمی طلب میں کمی پاکستانی برآمدات کو متاثر کر سکتی ہے ، جبکہ تیل پیدا کرنے والے خطوں میں عدم استحکام توانائی کی قیمتوں اور فراہمی کو متاثر کرتا ہے ۔ گلوبلائزیشن کو پاکستان کے حق میں استعمال کرنے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کو متوازن اور حکمتِ عملی پر مبنی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ مقامی صنعتوں کو سبسڈی، جدید ٹیکنالوجیز اور مہارت کے پروگرامز کے ذریعے مضبوط کیا جا سکتا ہے ۔ تعلیم، فنی تربیت اور تحقیق میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نوجوانوں کو عالمی مواقع کے لیے تیار کرے گی۔ اسی کے ساتھ، میڈیا، فنون اور تعلیمی پروگرامز کے ذریعے پاکستان کی ثقافتی وراثت کو فروغ دینا اور محفوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ عالمی اثرات کے باوجود ایک مضبوط قومی شناخت برقرار رہے ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو قابلِ ترجیح شعبوں جیسے قابلِ تجدید توانائی، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی میں راغب کرنا، اور روایتی مصنوعات سے ہٹ کر سافٹ ویئر سروسز، سیاحت اور گرین ٹیکنالوجیز جیسے شعبوں میں برآمدات کو متنوع بنانا معیشت کو زیادہ مضبوط اور لچکدار بنا سکتا ہے ۔ اسی طرح، شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) یا اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) جیسے علاقائی بلاکس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط کر کے چند عالمی منڈیوں پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے ۔
آخر میں، گلوبلائزیشن پاکستان کے لیے دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایک طرف یہ تجارت، ٹیکنالوجی، تعلیم اور ثقافتی تبادلے میں وسیع مواقع فراہم کرتی ہے ؛ دوسری طرف یہ معاشی کمزوری، ثقافتی زوال اور سماجی عدم مساوات جیسے حقیقی خطرات بھی پیدا کرتی ہے ۔ پاکستان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو کس طرح تیار کرتا ہے ، اپنی صنعتوں کو کس طرح محفوظ رکھتا ہے اور اپنی ثقافتی اقدار کو کس طرح برقرار رکھتا ہے ۔ اگر دانشمندی سے حکمتِ عملی اپنائی جائے تو گلوبلائزیشن پائیدار ترقی، معاشی طاقت اور عالمی شناخت کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے ۔ بصورتِ دیگر، یہ موجودہ مسائل کو بڑھا کر نئے چیلنجز پیدا کر سکتی ہے ۔ پاکستان کا راستہ دنیا کے لیے کھلا رہنے اور اپنی شناخت، خودمختاری اور طویل مدتی قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کے درمیان توازن قائم کرنے میں ہے ۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • ایران کیساتھ مذاکرات کسی فوجی کارروائی میں رکاوٹ نہیں بلکہ جنگ کی ایک شکل ہیں، صیہونی ٹی وی
  • آرٹیفیشل انٹیلی جنس کتاب کا متبادل نہیں ہے، عالمی ریکارڈ یافتہ طالبہ ماہ نور چیمہ
  • گلوبلائزیشن:پاکستان کے لیے مواقع اور خطرات
  • صوبے میں فوجی کارروائیاں آئین کے تحت ان کا حق ہے،ہمارا اختیار نہیں کہ ہم انہیں روک سکیں. علی امین گنڈاپور
  • 1965 جنگ کا 21واں روز؛ ٹینکوں کی بڑی لڑائی میں پاکستان نے فتح کیسے حاصل کی؟
  • جنگ ستمبر کا 21 واں روز: سیالکوٹ میں ٹینکوں کی لڑائی میں پاکستان کی فیصلہ کن فتح رہی
  • سیناء میں فوجوں کی موجودگی امن معاہدے کے خلاف نہیں، مصر
  • پاک سعودیہ دفاعی اتحاد کے بعد بھارت کیلئے پاکستان پر فوجی مہم جوئی کرنا انتہائی دشوار ہو گیا، مسعود خان
  • ایشیا کپ: بھارتی غرور خاک میں ملانے کا موقع، پاکستان اور بھارت آج پھر آمنے سامنے ہوں گے
  • ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، کھلاڑیوں کو مواقع فراہم کرنا ہونگے،مریم کیریو