UrduPoint:
2025-08-09@14:42:33 GMT

پاک بھارت لڑائی اور چین کے لیے انٹیلی جنس کے مواقع

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

پاک بھارت لڑائی اور چین کے لیے انٹیلی جنس کے مواقع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مئی 2025ء) سکیورٹی ماہرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی فوجی صلاحتیں اس مقام پر پہنچ چکی ہے، جہاں وہ سرحدی تنصیبات، بحر ہند میں بحری بیڑوں اور خلائی سیٹلائٹس کے ذریعے بھارتی سرگرمیوں کی حقیقی وقت میں گہری نگرانی کر سکتا ہے۔ سنگاپور کے سکیورٹی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل نے کہا، ''انٹیلی جنس کے نقطہ نظر سے، یہ چین کی سرحد پر ایک اہم ممکنہ دشمن کے خلاف نادر موقع ہے۔

‘‘

دو امریکی حکام کے مطابق پاکستانی فضائیہ کے چینی ساختہ جے-10 جنگی طیارے نے کم از کم دو بھارتی فوجی طیاروں کو مار گرایا، جن میں سے ایک فرانسیسی ساختہ رافال لڑاکا طیارہ تھا۔ بھارت نے اپنے کسی طیارے کے نقصان کی تصدیق نہیں کی، جبکہ پاکستان کے وزرائے دفاع و خارجہ نے جے-10 طیاروں کے استعمال کی تصدیق کی لیکن استعمال شدہ میزائلوں یا دیگر ہتھیاروں پر تبصرہ نہیں کیا۔

(جاری ہے)

یہ فضائی جھڑپ دنیا بھر کی فوجوں کے لیے پائلٹوں، جنگی طیاروں اور ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں کی کارکردگی کا مطالعہ کرنے اور اپنی فضائیہ کو جنگ کے لیے تیار کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔

بھارت اور چین کی طویل تزویراتی دشمنی

بھارت اور چین کو، جو ایشیا کی دو بڑے ایٹمی طاقتیں ہیں، طویل المدتی تزویراتی حریف سمجھا جاتا ہے۔

دونوں کے درمیان 3,800 کلومیٹر طویل ہمالیائی سرحد سن 1950 کی دہائی سے متنازع ہے، اور جو سن 1962 میں ایک مختصر جنگ کی بھی وجہ بنی۔ سن 2020 میں شروع ہونے والا سرحدی تناؤ اکتوبر میں ایک معاہدے کے بعد کم ہوا تھا۔

سکیورٹی ماہرین کے مطابق دونوں ممالک نے سرحد پر اپنی فوجی تنصیبات اور صلاحیتوں کو مضبوط کیا ہے لیکن چین کی خلائی نگرانی اسے انٹیلی جنس جمع کرنے میں برتری دیتی ہے۔

لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کے مطابق، چین کے پاس 267 سیٹلائٹس ہیں، جن میں 115 انٹیلی جنس، نگرانی اور جاسوسی کے لیے اور 81 فوجی الیکٹرانک اور سگنلز کی نگرانی کے لیے ہیں۔ یہ نیٹ ورک بھارت سمیت خطے کے دیگر حریفوں سے کہیں بڑا اور صرف امریکہ سے پیچھے ہے۔

نیل، جو ہوائی کے پیسفک فورم تھنک ٹینک کے فیلو ہیں، نے کہا، ''خلائی اور میزائل ٹریکنگ صلاحیتوں کے لحاظ سے چین اب بہت بہتر پوزیشن میں ہے کہ وہ واقعات کو حقیقی وقت میں مانیٹر کر سکے۔

‘‘

چین کی وزارت دفاع نے اپنے فوجی سیٹلائٹس کی تعیناتی یا انٹیلی جنس جمع کرنے کے بارے میں نیوز ایجنسی روئٹرز کے سوالات کا فوری جواب نہیں دیا۔ پاکستان کے فوجی میڈیا ونگ اور وزیر اطلاعات نے بھی چین کے ساتھ معلومات کے اشتراک پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

پاکستان نے ماضی میں کہا تھا کہ اس کی چین کے ساتھ ''ہر موسم میں قائم رہنے والی تزویراتی اور تعاون پر مبنی شراکت داری‘‘ ہے۔

بھارت نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن برطانیہ میں بھارت کے ہائی کمشنر وکرم دوریسوامی نے جمعرات کو اسکائی نیوز کو بتایا کہ چین اور پاکستان کے تعلقات بھارت کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ''چین کو اپنے تمام ہمسایوں، بشمول ہمارے ساتھ تعلقات کی ضرورت ہے۔‘‘ میزائلوں پر گہری نظر

تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ چینی فوجی انٹیلی جنس ٹیمیں بھارت کے فضائی دفاعی نظاموں، کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی تعیناتی، ان کے پرواز کے راستوں، درستی اور کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈیٹا پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔

خاص طور پر بھارت کے براہموس سپرسونک کروز میزائل، جو اس نے روس کے ساتھ مل کر تیار کیا، کی تعیناتی چین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی، کیونکہ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسے اب تک جنگی حالات میں استعمال نہیں کیا گیا۔ بحری انٹیلی جنس کی صلاحیت

چین نے بحر ہند میں بھی اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں کو بڑھایا ہے۔ اوپن سورس انٹیلی جنس ٹریکرز کے مطابق، چین نے خلائی ٹریکنگ جہازوں، سمندری تحقیقاتی جہازوں اور ماہی گیروں کی کشتیوں کو طویل مشنوں پر تعینات کیا ہے۔

خطے کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ چینی بحریہ بحر ہند میں جنگی جہازوں کی وسیع تعیناتی سے محتاط رہی ہے اور اسے ابھی بیسز کا وسیع نیٹ ورک میسر نہیں، لیکن یہ دیگر جہازوں کے ذریعے فعال طور پر انٹیلی جنس جمع کرتی ہے۔

گزشتہ ہفتے کچھ ٹریکرز نے نوٹ کیا کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بحیرہ عرب میں بھارتی بحری مشقوں کے مقام سے 120 ناٹیکل میل کے فاصلے پر چینی ماہی گیروں کی کشتیوں کے بڑے بیڑے غیر معمولی طور پر منظم انداز میں حرکت کر رہے تھے۔

پینٹاگون کی رپورٹس اور تجزیہ کاروں کے مطابق، چین کے ماہی گیروں کے بیڑے باقاعدگی سے ایک مربوط ملیشیا کا کردار ادا کرتے ہیں اور یہ بیڑے انٹیلی جنس جمع کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اوپن سورس ٹریکر ڈیمین سائمن نے ایک ایکس پوسٹ میں لکھا کہ یکم مئی کو بھارتی بحری مشقوں کے قریب 224 چینی جہازوں کی تعیناتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''یہ جہاز جاسوسی کے مراکز کے طور پر کام کر سکتے ہیں، پیش رفت کے ماڈلز اور ردعمل کے انداز کو ٹریک کرتے ہیں اور اپنے سرپرستوں کو ابتدائی انتباہ اور بحری انٹیلی جنس فراہم کرتے ہیں۔

‘‘

چینی حکام عام طور پر ماہی گیروں کی ملیشیا یا دیگر برائے نام سول جہازوں کے انٹیلی جنس کردار کو تسلیم نہیں کرتے۔

پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات

پاکستان کے ساتھ گہرے تزویراتی تعلقات کی بدولت، بیجنگ حکومت اپنے سفارت کاروں اور فوجی ٹیموں کے نیٹ ورک کے ذریعے بھی اہم معلومات حاصل کر سکتی ہے۔ سنگاپور میں ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے چینی سکیورٹی اسکالر جیمز چار نے کہا، ''پاکستان کی وزارت دفاع چین سے اپنے جدید ترین فوجی ہارڈویئر درآمد کرتی ہے، اس لیے یہ یقینی ہے کہ پی ایل اے متعلقہ ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکے گی۔‘‘

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انٹیلی جنس جمع سفارت کاروں پاکستان کے کی تعیناتی ماہی گیروں کاروں کا کے مطابق بھارت کے کرتے ہیں کے ساتھ نہیں کی کے لیے چین کے چین کی نے کہا

پڑھیں:

چین کی آزاد تجارتی بندرگاہ میں پاکستانی کاروباری شخصیت کے لئے بھرپور مواقع

ہائیکو(شِنہوا)چین کے جنوبی صوبے ہائی نان کے سیاحتی شہر سانیا میں جدید دفتر میں بیٹھا ہوا ایک نوجوان اعتماد کے ساتھ چینی اور انگریزی دونوں زبانوں میں جزیرے پر آنے کے خواہشمند غیر ملکیوں کو پالیسیوں سے متعلق رہنمائی فراہم کررہا ہے۔

یہ نوجوان ایک پاکستانی کارباری شخصیت محمد عامر شہزاد ہیں جو اب اپنے غیرملکی ساتھیوں کے ایک قابل اعتماد رہنما بن چکے ہیں اور چلتے پھرتے رہنما کتابچے کا لقب حاصل کرلیا ہے۔1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والے شہزاد پہلی بار 2015 میں چین آئے جب انہوں نے چین کے شمالی صوبے ہیبے کے شہر شی جیا ژوانگ میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ دوران تعلیم ایک مقبول آن لائن پراڈکٹ نے ان کے اندر کاروباری سوچ کو جنم دیا۔انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم ہوا کہ میرے آبائی علاقے سے درآمد شدہ ہمالیائی گلابی نمک چین میں بہت مقبول ہے۔انہوں نے ایک دوست کے ساتھ مل کر چین میں گلابی نمک درآمد کرنے کا کام شروع کیا اور حیرت انگیز طور پر یہ مقامی مارکیٹ میں خوب مقبول ہوا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ مختصر وقت کے لئے پاکستان واپس آئے مگر چین ان کے دل میں بس چکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دوست، کھانے اور قدرتی مناظر ، میں سب کچھ بھلا نہ سکا۔2022 میں ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ کی پالیسیوں کے کھلے پن سے متاثر ہو کر اور چینی دوستوں کے مشورے پر شہزاد جزیرے آئے اور سانیا میں یاژو بے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی میں اپنی کمپنی رجسٹر کروائی۔اب ان کا کاروبار ناریل کے تیل جیسے مقامی زرعی مصنوعات پر مرکوز ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک مشاورتی کمپنی بھی قائم کی ہے جو دیگر غیر ملکیوں کو پالیسی اور کاروباری رہنمائی فراہم کرتی ہے۔شہزاد نے کاروباری افراد کو موثر معاون خدمات کی فراہمی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یاژو بے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سٹی نے غیر ملکیوں کے لئے کام سے متعلق طریقہ کار کو بہت آسان بنا دیا ہے اور یہاں کی کاربار دوست پالیسیوں نے انہیں اپنا کام تیزی سے مکمل کرنے میں مدد دی ہے۔

حالیہ برسوں میں یاژو بے نے غیر ملکی سٹارٹ اپس کے لئے معاون پالیسیاں متعارف کرائی ہیں۔ بین الاقوامی ٹیلنٹ کے لئے ایک جامع سروس ونڈو 100 سے زائد خدمات فراہم کرتی ہے جن میں ورک پرمٹ ایک ہی دن میں جاری ہو جانا شامل ہے۔

شہزادنے کہاکہ پالیسی کی تشریح یا کاروباری طریقہ کار سے متعلق جب بھی ہمیں سوالات ہوتے ہیں ہم یہاں کی انٹرپرائز سروس ٹیم سے رجوع کرسکتے ہیں۔ وہ عام طور پر 24 گھنٹے کے اندر جواب دیتے ہیں۔ درآمد شدہ سامان کے لئے ڈیوٹی فری پروسیسنگ اور فاسٹ ٹریک تخلیقی املاک کے اندراج جیسی پالیسیاں کمپنیوں کو راغب کرتی ہیں۔حکام نے بین الاقوامی کاروباری افراد کے لئے سہولیات کا عمل بھی آسان بنا دیا ہے جس کے تحت غیر ملکی ملکیت والی سٹارٹ اپ کمپنیاں صرف 3 دن کے اندر رجسٹر ہوسکتی ہیں۔ انہیں 2 سال تک مفت مشترکہ دفتری جگہ فراہم کی جاتی ہے اور مکمل رہنمائی اور خدمات بھی دی جاتی ہیں۔

اب تک اس پروگرام کی مدد سے 32 غیر ملکی کمپنیوں نے یہاں اپنا کاروبار قائم کیا ہے۔شہزاد نے دوسروں کو کامیابی حاصل کرنے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔ پاکستان سے ہی تعلق رکھنے والے ان کے دوست شجاعت خان کبھی شہزاد کی کمپنی میں کام کرتے تھے۔

بعد میں شہزاد کی حمایت سے شجاعت نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیااور انہی پالیسیوں سے فائدہ اٹھایا ۔آج وہ دونوں مل کر چین کے تیار کردہ مصنوعات کو پاکستان اور سعودی عرب جیسے ملکوں میں فروغ دے رہے ہیں۔پاکستانی مصنوعات کو چین میں متعارف کروانے سے لے کر چینی مصنوعات کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے تک شہزاد کا سفر ایک مکمل دائرے میں آچکا ہے۔

پہلے پاکستانی مصنوعات کو چین لانا اور اب چینی مصنوعات کو عالمی منڈیوں تک پہنچانا۔ان دنوں شہزاد تجارتی میلوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں جہاں وہ چینی اور پاکستانی مصنوعات دونوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ میں دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا پل بن سکوں۔شہزاد کا کاروباری سفر چین کی جانب سے اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو فروغ دینے کی مسلسل کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔

حالیہ برسوں میں چین نے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور سرحد پار ٹیلنٹ کی نقل و حرکت کو فروغ دینے کے لئے متعدد پالیسیاں متعارف کرائی ہیں جن میں ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ جیسے پائلٹ زونز کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔شہزاد کا کہنا ہے کہ ہائی نان میرا دوسرا گھر بن چکا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جو غیر ملکی اس جزیرے سے محبت کرتے ہیں وہ یہاں آ کر بسیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلیں۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان کی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود اولین ترجیح ہے ، وہاں کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں،وزیر اعظم محمد شہباز شریف
  • کولگام میں خونریز تصادم: دو بھارتی فوجی اور ایک جنگجو ہلاک
  • میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے امریکی حملے کے خدشات کو مسترد کر دیا
  • اپنی سرزمین پر امریکی فوجیوں کارروائیوں کی اجازت نہیں دیں گے؛ میکسیکن صدر
  •  ژوب میں سکیورٹی فورسز کا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن، 33 دہشت گرد ہلاک
  • اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر مکمل فوجی کنٹرول کے متنازع منصوبے کی منظوری دے دی
  • بڑھتی آبادی معیشت کے لیے چیلنج، نوجوان اور خواتین کو مواقع دیے جائیں، وزیراعظم
  • امریکی فوجی اڈے پر ڈیوٹی پر تعینات اہلکار کی فائرنگ سے پانچ فوجی زخمی
  • امریکہ، روس کو حساس معلومات فراہم کرنے کی کوشش کے الزام میں امریکی فوجی گرفتار
  • چین کی آزاد تجارتی بندرگاہ میں پاکستانی کاروباری شخصیت کے لئے بھرپور مواقع