گوٹ بجرانی لغاری کے شہریوں کیخلاف ظلم کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
شہداء کے اہلخانہ سے ملاقات کے موقع پر علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ گاؤں کے مکینوں کی دکانوں پر بلڈوزر چلانا، گھروں کو مسمار کرنا اور معصوم شہریوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ دو مہینے گزر جانے کے باوجود گوٹھ بجرانی لغاری کے نہتے عوام کے خلاف پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ ضیاء لنجار کا ظلم و تشدد بدستور جاری ہے۔ افسوس ہے کہ شہداء کے لواحقین کی مسلسل اپیلوں کے باوجود مقتول زاہد لغاری اور عرفان لغاری کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ گاؤں کے متاثرین اور سندھ کے عوام کے مسلسل مطالبے کے باوجود آزادانہ جوڈیشل انکوائری نہیں کرائی گئی۔ بلکہ وہی مجرم وہی منصف کے مصداق وزیر داخلہ نے اپنے ماتحت فرمانبردار پولیس افسران کو انکوائری کے لئے مقرر کیا، جنہوں نے حسب توقع فرمائشی رپورٹ پیش کی۔ یہ بات انہوں نے
گوٹ بجرانی لغاری ضلع نوشہرو فیروز میں شہداء کے وارثان اور مومنین سے ملاقات اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ علامہ مقصود ڈومکی نے اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ ضیاء لنجار کے مظالم کی شدید مذمت کی۔ وارثان شہداء سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ سے پورے گاؤں کے سینکڑوں باشندوں کی نقل و حرکت کو مشکل کر دیا گیا ہے۔ گاؤں بجرانی لغاری میں کاروبار زندگی مفلوج ہو چکا ہے، اور بیروزگاری کے باعث لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، جو درحقیقت خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے۔ اس المیے کی تمام تر ذمہ داری حکومتی طاقت رکھنے والے بااثر عناصر پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوٹ بجرانی لغاری کے پرامن شہریوں کے خلاف ظلم کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔ گاؤں کے مکینوں کی دکانوں پر بلڈوزر چلانا، گھروں کو مسمار کرنا اور معصوم شہریوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔ قانون بااثر افراد کے سامنے بے بس ہے اور پولیس افسران سیاسی آقاؤں کے ذاتی ملازم بنے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے شہید زاہد حسین لغاری کے بھائی اور شہید عرفان لغاری کی والدہ کو سندھی ثقافتی اجرک کا تحفہ پیش کیا اور کہا کہ ہم ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر ظالم کے خلاف جدوجہد کرتے رہیں گے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ فوری طور پر شہداء کے ورثاء کی مدعیت میں قتل کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ آزادانہ جوڈیشل انکوائری قائم کی جائے۔ گوٹ بجرانی لغاری کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق بحال کیے جائیں۔ اور گاؤں کے باشندوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں بند کی جائیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بجرانی لغاری کے علامہ مقصود ڈومکی نے شہداء کے گاؤں کے کے خلاف کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
فکر سے عمل تک، نثار شاہ جی کی جہدوجہد
اسلام ٹائمز: نثار شاہ جی کی زندگی اخلاص، ایثار، جرات اور خدمت کا ایک روشن باب تھی، جو نوجوانوں کی فکری و نظریاتی تربیت سے لے کر شہداء کے پیغام کو حسنِ اخلاق، فن، تقریر اور عمل کے ذریعے زندہ رکھنے تک پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے خوف کے اندھیروں میں حوصلے کے چراغ جلائے، مایوسی کو امید میں بدلا اور ایک ایسی نسل تیار کی، جو دین، ولایت اور شہداء کے مشن سے جڑی رہی۔ چار برس تک بیماری سے صبر و استقامت کے ساتھ لڑنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر ان کا کردار، ان کی تعلیمات اور ان کا عزم آج بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے، جب تک سچائی کا پرچم بلند ہے اور شہداء کی یاد دلوں میں بستی ہے۔ تحریر: آغا زمانی
ایک مانوس شام تھی، مگر اس شام کی ہوا میں کچھ بدلاؤ تھا۔ کراچی سے خبر آئی۔۔ اور دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ "نثار شاہ جی بھائی نہیں رہے۔" لمحے بھر کو یقین نہ آیا۔ مگر حقیقت پتھروں کی طرح سخت اور سرد تھی۔ یہ خبر صرف ایک انسان کے جانے کی اطلاع نہ تھی، یہ ہزاروں دلوں کے ٹوٹنے کی صدا تھی۔ بے ساختہ ادا ہوا۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔ سید نثار علی زیدی۔۔ مگر سب کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے نثار شاہ جی۔ ایک ایسا نام جو اخلاص، غیرت، ایثار اور عزم کی علامت بن چکا تھا۔ وہ بانی پیامِ ولایت فاؤنڈیشن، وہ مردِ میدان جو فکری محاذ سے لے کر عملی میدان تک، ہر جگہ اول صف میں کھڑا رہا۔ وہ صرف مبلغ نہ تھے، وہ مبلغِ حق تھے۔ وہ صرف نظریہ نہیں سناتے تھے، نظریہ جِلوہ بن کر ان کی زندگی میں چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ نثار شاہ جی کا وجود ہزاروں نوجوانوں کے لیے امید کی روشنی، رہنمائی کا مینار اور تربیت کا مکتب تھا۔ ان کے وسیلے سے کتنے ہی دل قرآن کی محبت سے روشن ہوئے۔ کربلا کی حقیقت اور مقصد کا شعور نوجوان نسل کی رگ و پے میں اترا۔
عصرِ حاضر کی سیاست، عالمی فتنوں کی پہچان، امامِ زمانہ (عج) کی معرفت۔۔ یہ سب ان کی محنت کی برکت تھی۔ وہ نوجوانوں کو صرف پڑھاتے نہیں تھے بلکہ ان کی روحوں میں فکر اور عمل کا چراغ جلا دیتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھنا گویا ایک آئینے کے سامنے بیٹھنے جیسا تھا۔۔ آئینہ جس میں انسان خود کو پہچانتا، اپنی کمزوریوں کو دیکھتا اور اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اٹھ کھڑا ہوتا۔ کتنے ہی نوجوانوں نے ان سے بولنا سیکھا، نظم و ضبط کی لذت پائی اور مقصدِ زندگی کی خوشبو کو محسوس کیا۔ بدھ، 13 اگست 2025ء، 18 صفر المظفر 1447ھ کا دن۔۔ جب یہ چراغ بجھ گیا۔ مگر یہ چراغ اپنی روشنی کئی دلوں میں چھوڑ گیا ہے۔ نثار شاہ جی بھائی اب جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں، مگر ان کی تربیت کردہ نسل، ان کے نظریات، ان کا عزم اور ان کا اخلاص آج بھی سانس لے رہا ہے۔ یہ بچھڑنا ایک جسم کا بچھڑنا ہے، مگر ایک فکر کا سفر ابھی جاری ہے اور شاید یہی نثار شاہ جی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ وہ مر کر بھی زندہ ہیں۔
پہلی ملاقات کا چراغ
مجھے آج بھی وہ لمحہ یاد ہے، جب نثار شاہ جی بھائی کو پہلی بار دیکھا۔ مسجد و امام بارگاہ پنجتنی بلتستانی محلہ، ایبی سینیا لائن، لائنز ایریا کراچی میں شبِ دعا کا روح پرور ماحول تھا۔ دل کی کیفیت ایسی تھی، جیسے دعا کے ہر لفظ میں کربلا کی صدا گونج رہی ہو۔ اس شب دعا میں ایک شخص نگاہوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ چہرے پر نور، آنکھوں میں عزم اور لہجے میں یقین۔۔ وہ نثار شاہ جی تھے۔ برادر رضا جنتی کے ساتھ نثار شاہ جی کراچی کے مختلف علاقوں میں شب دعا اور فکری و نظریاتی دروس کا اہتمام کرتے تھے۔ یہ اجتماعات صرف عبادت نہیں ہوتے تھے، یہ تربیت گاہیں تھیں۔ وہاں نوجوان صرف دعائیں نہیں پڑھتے تھے بلکہ حق کو پہچاننے، مقصدِ زندگی کو سمجھنے اور اپنے کردار کو سنوارنے کا ہنر سیکھتے تھے۔ میرا اور ان کا پہلا باضابطہ تعارف لانڈھی کے ہمارے سینیئر مہدی بھائی نے کروایا۔ وہ دن جیسے میری زندگی کا ایک نیا باب تھا، مہدی بھائی خود ایک زبردست انقلابی اور فائن آرٹسٹ ہیں۔
کئی برسوں تک حسنین مسجد جعفر طیار ملیر میں نثار شاہ جی کو سننے کا موقع ملا۔ ان کے بیانات، ان کا انداز، ان کے الفاظ۔۔ یہ سب ذہن اور دل پر ایسے نقش ہوئے جیسے پتھر پر کندہ تحریر۔ نثار شاہ جی کی جدوجہد کا آغاز پاسبان اسلام پاکستان نامی تنظیم سے ہوا۔ اس پلیٹ فارم سے انہوں نے کراچی کے شیعہ نشین علاقوں میں شہداء اور شہادت کے تصور کو اجاگر کرنے کے لیے بڑی بڑی شہداء کانفرنسز منعقد کروائیں۔ ان اجتماعات میں صرف آنسو نہیں بہائے جاتے تھے، بلکہ عہد کیے جاتے تھے کہ ہم شہداء کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ یہ وہ نثار شاہ جی تھے، جن کی محفل میں بیٹھ کر انسان کو یہ احساس ہوتا کہ ایمان کوئی نظری کتاب نہیں بلکہ سانس لیتا ہوا، چلتا پھرتا عزم ہے اور وہ عزم ان کی شخصیت سے پھوٹتا تھا۔
خون اور حوصلے کا زمانہ
یہ وہ دن تھے، جب کراچی کا ہر شیعہ محلہ خوف اور غم کے سائے میں لپٹا ہوا تھا۔ مساجد اور امام بارگاہیں، جو کبھی ذکرِ اہلِ بیت علیہم السلام اور قرآن کی تلاوت سے گونجتی تھیں، اب دہشت گردوں کے نشانے پر تھیں۔ ملک دشمن، فرقہ پرست تکفیری ٹولے کی سفاکی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ کوئی دن ایسا نہ گزرتا، جب کسی مسجد یا امام بارگاہ پر بم دھماکہ نہ ہوتا۔ رمضان المبارک کی فجر ہو یا عام دن کی نمازِ جماعت۔۔ دہشت گردی کے ہاتھوں خون بہایا جاتا۔ محفلِ مرتضیٰ پی ای سی ایچ ایس پر فجر کے وقت حملہ ہوا تو کسی اور دن پی آئی بی کالونی کی مسجد لہو سے رنگین کر دی گئی۔ کہیں برف خانہ ملیر کے علاقے میں امام بارگاہ کے باہر نمازیوں کو نشانہ بنایا جاتا، تو کہیں کسی محلے کی چھوٹی مسجد میں گولیاں گونجتیں۔ ایک لمحے میں گھروں کی رونق ماتم میں بدل جاتی۔ کہیں بیس سے زائد شہید، کہیں دس معصوم نمازی۔۔ اور ہر جگہ مکتبِ تشیع کا دل زخمی۔
ان کالی گھڑیوں میں، جب خوف لوگوں کو گھروں میں بند کرنے لگا تھا، نثار شاہ جی بھائی اس اندھیرے میں روشنی بن کر نکلتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ وقت پسپائی کا نہیں، حوصلہ دینے کا ہے۔ وہ شہداء کے وارثین کے پاس پہنچتے، ان کے دکھ بانٹتے، ان کے زخموں پر صبر کا مرہم رکھتے اور ساتھ ہی ملت کے مورال کو بلند رکھنے کے لیے میدان میں اترتے۔ شہداء کی عظمت اور ان کی قربانی کی معنویت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے کراچی کے کونے کونے میں شہداء کانفرنسز کا سلسلہ شروع کیا۔ جامع مسجد اباالفضل لانڈھی بابر مارکیٹ سے لے کر غازی چوک جعفر طیار، شہدائے کربلا روڈ، مرکزی امام بارگاہ جعفر طیار سوسائٹی تک، کبھی انچولی میں تو کبھی پہلوان گوٹھ میں۔۔
جہاں بھی ضرورت پڑتی نثار شاہ جی وہاں پہنچتے۔ ان کانفرنسز میں شہداء کی یاد کے ساتھ ساتھ ملت کے عزم کو بھی زندہ کیا جاتا۔ وہاں صرف مایوسی کی اجازت نہ تھی۔۔ وہاں اٹھنے، سنبھلنے اور شہداء کے مشن کو آگے بڑھانے کا عہد کیا جاتا تھا۔ نثار شاہ جی کا لہجہ نرم ہوتا مگر اس میں ایک ایسی جرات چھپی ہوتی، جو سننے والوں کے دل میں ایمان کی آگ بھڑکا دیتی۔ یہ وہ دور تھا، جب شہر میں خوف کا راج تھا، مگر نثار شاہ جی جیسے لوگ اس خوف کو توڑنے کے لیے کھڑے رہے۔ وہ ملت کے لیے ڈھال بھی تھے اور چراغ بھی۔۔ خون اور حوصلے کے اس زمانے میں وہ سب کو یاد دلاتے رہے کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
جب فن نے شہداء کے پیغام کو امر کیا
نثار شاہ جی بھائی کی شہداء کانفرنسز کی ایک خاص اور دل کو چھو لینے والی خصوصیت یہ تھی کہ وہ محض تقریر اور بیان تک محدود نہیں رہتے تھے۔ ان کے نزدیک شہداء کی یاد صرف لفظوں میں نہیں بلکہ فن، رنگ اور منظر کے ذریعے دلوں تک پہنچائی جا سکتی تھی۔ اس لیے وہ ملّی آرٹسٹوں کو دعوت دیتے کہ وہ شہداء کے واقعات کو اپنے فن کے ذریعے مجسم کرکے پیش کریں۔ کانفرنس کے اسٹیج پر کبھی حضرت عباس علمدار (ع) کا بلند علم، مجسمہ سازی (اسکلپچرنگ) کے ذریعے سامنے آتا۔ ایسا منظر جو دیکھنے والوں کے دلوں کو لرزا دیتا، آنکھوں کو نم اور ایمان کو تازہ کر دیتا۔ اس دور میں پینافلکس عام نہیں تھے، مگر نثار شاہ جی نے اس خلا کو فنکارانہ بصیرت سے پر کیا۔ وہ بڑے بڑے قدآور انقلابی اور شہداء کی پینٹنگز بنواتے، جن پر روشنی پڑتے ہی کانفرنس کا ماحول ایک انقلابی روح میں ڈھل جاتا۔
بینرز اور تصویریں کسی رسمی سجاوٹ کا حصہ نہ ہوتیں بلکہ وہ ایک پیغام ہوتیں۔ پیغامِ وفا، قربانی اور استقامت کا۔ ان پینٹنگز اور آرٹ ورک پر بانی انقلاب اسلامی رہبر کبیر امام خمینی رضوان اللہ علیہ، رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ، فیلسوف و مفکرِ اسلام شہید آیت اللہ سید محمد باقر الصدر (رح)، شہید آیت اللہ دستغیب (رح)، شہید آیت اللہ ڈاکٹر سید محمد حسین بہشتی، شہید مظلوم قائد محبوب علامہ سید عارف حسین الحسینی، شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، شہید محمد علی رجائی، شہید ڈاکٹر جواد باہنر، شہید آیت اللہ مرتضیٰ مطہری، سید امام موسیٰ صدر، شہید شیخ راغب الحرب، شہید سید عباس موسوی، سیدالمقاومت آغا سید حسن نصراللہ، شیخ احمد یاسین، فتحی شقاقی اور شہید آیت اللہ عبدالعلی مزاری کی جلی اور باوقار تصاویر شامل ہوتیں۔
ان بینرز پر قرآنی آیات، ائمہ اطہار علیہم السلام کے اقوال اور بزرگانِ ملت کی شہداء سے متعلق بصیرت انگیز تحریریں درج ہوتیں۔ یہ الفاظ اور تصاویر مل کر ایک ایسی فضا بنا دیتے، جو محض روح پرور نہیں بلکہ ایمان افروز بھی ہوتی۔ راقم کو بھی اس دور میں کئی بار ان خدمات کا حصہ بننے کا شرف ملا۔ نثار شاہ جی نے مجھ سے شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران (رح) اور ڈاکٹر علی شریعتی (رح) کی کراکل نپ سے پوٹریٹس بنوائے۔ ان پوٹریٹس کے نیچے انہی شخصیات کے گہرے فکری اقوال لکھوانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالی۔ وہ لمحہ میرے لیے محض فن کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ شہداء کے پیغام کو اپنی انگلیوں سے تحریر کرنے کا اعزاز تھا۔ یہ سب کچھ اس بات کا اعلان تھا کہ نثار شاہ جی بھائی کے نزدیک شہداء کی یاد ایک زندہ اور چلتی پھرتی تحریک تھی، جسے لفظ، تصویر اور فن تینوں کے امتزاج سے دلوں میں اتارا جا سکتا ہے۔
خوف کو حوصلے میں بدلنے والا
نثار شاہ جی بھائی نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جوانوں کو کیسے قریب لانا ہے اور جب قریب لے آتے تو یہ بھی جانتے تھے کہ ان سے بہترین کام کیسے لینا ہے۔ ان کی نگاہ تیز تھی، وہ نوجوان کی صلاحیت کو پہلی ملاقات میں پہچان لیتے اور پھر اسے تراش کر ایک فکری، دینی، نظریاتی اور انقلابی جوان میں ڈھال دیتے۔ یہ تقریباً تیس سال پرانی بات ہے، شاید 1996ء کی۔ جعفر طیار کے تین مومنین۔۔ شہید شبیر، شہید محمد اور شہید عصمت دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ علاقے میں کشیدگی کی لہر دوڑ گئی۔ تینوں شہداء کو مرکزی امام بارگاہ جعفر طیار سوسائٹی ملیر کراچی کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ یہ ملیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ ہر آنکھ اشکبار، ہر دل غم سے بوجھل، ہر گلی سوگ میں ڈوبی ہوئی۔ پورا علاقہ سنّاٹے میں ڈوبا تھا۔ میں اور چند برادران غازی چوک پر ایک موچی کے تھڑے پر بیٹھے تھے۔ نثار شاہ جی بھی وہیں موجود تھے۔ وہ لمحہ آج بھی میری یادداشت میں ویسے ہی تازہ ہے، جیسے کل کی بات ہو۔ سب کہہ رہے تھے کہ مرکزی روڈ پر سنّاٹا چھایا ہوا ہے، خوف اور مایوسی کا ماحول ہے۔
اچانک نثار شاہ جی نے کہا: "بیٹ اور بال لاؤ۔۔ ہم کرکٹ کھیلیں گے۔" ہم سب نے چونک کر دیکھا، مگر ان کے لہجے میں اعتماد اور مسکراہٹ تھی۔ کچھ دیر بعد ہم بیٹ بال کے ساتھ غازی چوک میں تھے اور کھیل شروع ہوگیا۔ شروع میں ماحول عجیب سا تھا، مگر پھر آہستہ آہستہ لوگ رکے، دیکھنے لگے، ہنسنے لگے اور سنّاٹے کی جگہ شور اور قہقہوں نے لے لی۔ کسی نے پوچھا: "شاہ جی، شہداء کا غم بھی ہے اور آپ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔۔؟" وہ مسکرائے اور بولے: "لوگ خوف اور مایوسی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ انہیں اس اندھیرے سے نکالنے کے لیے یہ طریقہ برا نہیں۔" یہ ایک لمحہ، مگر پوری حکمت کا آئینہ تھا۔ نثار شاہ جی جانتے تھے کہ غم کو حوصلے میں کیسے بدلنا ہے اور خوف زدہ دلوں میں زندگی کی روشنی کیسے واپس لانی ہے۔ اس دن کے بعد یہ بات سب نے مان لی کہ نثار شاہ جی نوجوانوں سے نہ صرف محبت کرنا جانتے تھے، بلکہ ان کے اندر چھپی توانائی کو بیدار کرنے کا ہنر بھی رکھتے تھے۔
رخصت کا لمحہ
زندگی کے میدان میں ہمیشہ ثابت قدم رہنے والا یہ مردِ میدان آخرکار ایک اور کٹھن معرکے میں داخل ہوا۔ ابتدا میں یہ معرکہ ایک خاموش دشمن کے خلاف تھا۔ انہیں پروسٹیٹ کینسر ہوگیا، مگر یہ بیماری رفتہ رفتہ پورے جسم میں پھیل گئی۔ نثار شاہ جی نے چار برس تک اس اذیت ناک بیماری کا سامنا کیا، جیسے وہ ہر چیلنج کا کرتے تھے۔ حوصلے، صبر اور تسلیم کے ساتھ۔ پھر ایک دن وہ لمحہ آیا، جب یہ چراغ بجھ گیا، مگر اس کی روشنی دلوں میں چھوڑ گیا۔ ان کی رحلت کی خبر نے گھر والوں، بیوہ، بیٹوں، سوگواروں اور تنظیمی ساتھیوں کے دلوں کو زخمی کر دیا۔ نثار شاہ جی کی زندگی اخلاص، ایثار، جرات اور خدمت کا ایک روشن باب تھی، جو نوجوانوں کی فکری و نظریاتی تربیت سے لے کر شہداء کے پیغام کو حسنِ اخلاق، فن، تقریر اور عمل کے ذریعے زندہ رکھنے تک پھیلا ہوا تھا۔
انہوں نے خوف کے اندھیروں میں حوصلے کے چراغ جلائے، مایوسی کو امید میں بدلا اور ایک ایسی نسل تیار کی، جو دین، ولایت اور شہداء کے مشن سے جڑی رہی۔ چار برس تک بیماری سے صبر و استقامت کے ساتھ لڑنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر ان کا کردار، ان کی تعلیمات اور ان کا عزم آج بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے، جب تک سچائی کا پرچم بلند ہے اور شہداء کی یاد دلوں میں بستی ہے۔ ہم سب کی دعائیں اس عظیم انسان کے ساتھ ہیں۔۔ خدا نثار شاہ جی کے درجات بلند فرمائے۔ خدا آخرت کی تمام منازل پر ان پر خصوصی رحمت نازل فرمائے۔ خدا انہیں جوارِ معصومین علیہم السلام میں پناہ عطا فرمائے اور خدا ان کے یتیموں کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین